پاکستانی معیشت کے لیے کچھ اچھی خبریں آ رہی ہیں۔ چین‘ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات نے بارہ ارب ڈالرز کے کیش قرض مزید ایک سال کے لیے مؤخر کر دیے ہیں۔ شرح سود میں کوئی اضافہ نہیں کیا گیا۔ پرانی شرائط ہی پر قرض کو مؤخر کیا گیا ہے۔ پاکستان کو سالانہ تقریباً 25 ارب ڈالرز کے قرض ادا کرنے ہیں۔ تقریباً آدھا بوجھ اُتر گیا ہے۔ وزیر خزانہ پہلے بھی کئی مرتبہ کہہ چکے ہیں کہ قرضوں کی ادائیگی کو مینج کر لیا گیا ہے۔ یہ خوش آئند ہے لیکن آئی ایم ایف کی شرائط شاید کچھ اور ہیں۔ آئی ایم ایف نے مطالبہ کر رکھا تھا کہ تین سال کے لیے قرضوں کو مؤخر کرایا جائے۔ فی الحال ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ آئی ایم ایف اسی پر راضی ہو گیا ہے۔ شاید پاکستان نے انہیں یقین دلایا ہے کہ ہر سال قرض مؤخر کرا لیا جائے گا۔ قرضوں کے مؤخر ہوئے بغیر آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ سے قرض کی منظوری لینا مشکل ہوتا۔ امید کی جا رہی ہے کہ رواں ماہ کی 28 تاریخ کو آئی ایم ایف قرض منظور ہو جائے گا۔ اس کے بعد مزید قرض بھی مل سکتے ہیں۔ پاکستان کو دوست ممالک سے مزید قرض ملنے کی امید نہیں ہے اس لیے حکومت یہ کوشش بھی نہیں کر رہی۔ بعض کمرشل ادارے پاکستان کو قرض دینے کے لیے تیار ہیں لیکن زیادہ شرح سود کا مطالبہ کیا جا رہا ہے۔ اداروں کی کوشش ہے کہ شرح سود مزید کم ہونے سے پہلے دو تین سال کے قرض معاہدے کر لیے جائیں تا کہ بینکوں کے منافع میں اضافہ ہو سکے۔ سرکار آئی ایم ایف قرض ملنے کے بعد اس ادارے سے کم شرح سود پر بھی قرض لے سکتی ہے۔ کیونکہ آئی ایم ایف قرض منظور ہونے کے بعد غیر یقینی کی صورتحال میں کمی آ جاتی ہے جو ملک کی قرض لینے کی صلاحیت کو بڑھا دیتی ہے۔ اس کے علاوہ ملک میں شرح سود میں کمی کا رجحان ہے۔ آنے والے دنوں میں مزید کمی کی توقع ہے۔ گو کہ مہنگائی میں مزید اضافے کی پیشگوئی ہے کیونکہ خلیجی ممالک کی صورتحال کے پیش نظر تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو سکتا ہے‘ لیکن اس کا اثر شرح سود پر پڑتا دکھائی نہیں دیتا۔
پاکستانی معیشت میں بظاہر ٹھہراؤ دکھائی دے رہا ہے۔ ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جو منصوبہ بنایا جاتا ہے اس پر عمل درآمد بھی کیا جا رہا ہے۔ کسی بھی معیشت میں ٹیک آف کے لیے پہلے ٹھہراؤ اور مستقل مزاجی لانا ضروری ہوتا ہے۔ وزیراعظم اور ان کی اقتصادی ٹیم کئی ماہ سے ایک نئے اقتصادی منصوبے پر کام کر رہی ہیں جسے تقریباً حتمی شکل دے دی گئی ہے۔ وزیراعظم یہ منصوبہ 14 اگست کو پیش کر سکتے ہیں۔ اس منصوبے میں آکسفورڈ یونیورسٹی میں اقتصادی پالیسیوں کے ماہر پروفیسر سٹیفن ڈرکن کو بھی شامل کیا گیا ہے۔ سٹیفن ڈرکن نے ایک آرٹیکل لکھا تھا‘ جس میں یہ دعویٰ کیا گیا تھا کہ پاکستانی معیشت 2028ء تک چھ فیصد شرح نمو کے ساتھ ترقی کر سکتی ہے‘ اس کی برآمدات 60 ارب ڈالرز تک بڑھ سکتی ہیں‘ 10 ارب ڈالرز تک بیرونی سرمایہ کاری بھی پاکستان آ سکتی ہے اور سالانہ دس لاکھ نوکریاں پیدا کی جا سکتی ہیں۔ ان نتائج کو حاصل کرنے کے لیے جو تجاویز دی گئی ہیں ان میں سرفہرست صوبائی اور وفاقی حکومتی اخراجات میں کمی کرنا ہے۔ پی ایس ڈی پی کے بجٹ کو کم کرنے کی بھی ضرورت ہو گی۔ سرکاری اداروں کو پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے ذریعے چلانا ہو گا۔ ایف بی آر کی ڈیجیٹائزیشن پر بھی زور دیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں ٹیکس ریٹ کم کرکے ٹیکس بیس بڑھانے کی ضرورت ہو گی۔ درآمدات پر ٹیکس کم کرنے کی تجویز ہے‘ خصوصی طور پر ایسی درآمدات جو برآمدات سے منسلک ہیں۔ سب سے زیادہ جس بات پر توجہ دی گئی ہے وہ چین کی پاکستان میں سرمایہ کاری ہے۔ پاکستانی برآمدات کو فوری طور پر بڑھانے کے لیے تقریباً 50 بڑی چینی کمپنیوں کے ساتھ مل کر پاکستان میں جوائنٹ وینچر شروع کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ پاکستان کے انرجی مسائل کس طرح حل کیے جائیں گے اس بارے میں کوئی واضح پالیسی سامنے نہیں آ سکی۔ دیگر معاملات پر بھی تجاویز دی گئی ہیں۔ لیکن سٹیفن ڈرکن اور حکومتی اقتصادی ٹیم نے جو تجاویز دی ہیں وہ نئی نہیں ہیں۔ پاکستان کا مسئلہ پالیسیوں کا نہ بننا نہیں بلکہ پالیسیوں پر عملدرآمد نہ ہونا ہے۔ اس طرح کی پالیسی تحریک انصاف نے بھی اپنے دورِ حکومت میں پیش کی تھی جس میں شرح نمو 6 فیصد طے تھی۔ لیکن 6 فیصد شرح نمو یقینی بنانے والی پی ٹی آئی دور کی پالیسی پی ٹی آئی کی حکومت ختم ہو جانے کی وجہ سے برقرار نہیں رہی۔ جس حکومت کے بارے میں فِچ یہ پیشگوئی کرے کہ وہ مزید 18 ماہ ہی چل سکے گی‘ اس کے نئے اقتصادی منصوبوں کی اہمیت کم ہو جاتی ہے۔ اگر اس منصوبے پر عمل ہوا تو مستقبل میں درآمدات میں اضافہ ہو سکتا ہے اور ڈالر کی قدر بڑھ سکتی ہے۔ مثبت اثرات کب سامنے آئیں گے‘ اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا لیکن ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ سٹیفن ڈرکن کی رپورٹ کے منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے ہیں۔
تقریباً ایک سال مستحکم رہنے کے بعد گرے مارکیٹ میں ڈالر کا ریٹ پھر سے بڑھنے لگا ہے۔ اوپن مارکیٹ اور گرے مارکیٹ میں فرق تقریباً چار روپے سے بڑھ گیا ہے اور آنے والے دنوں میں اس فرق میں مزید اضافہ ہونے کا اندیشہ ہے۔ اس وقت تقریباً 50 کروڑ ڈالر ماہانہ گرے مارکیٹ میں جا رہے ہیں۔ اگر اسی رفتار سے ڈالر گرے مارکیٹ میں جاتے رہے تو سالانہ تقریباً چھ ارب ڈالرز گرے مارکیٹ کی نذر ہو سکتے ہیں۔ ایک سال گرے مارکیٹ کنٹرول میں رہی‘ جس سے مالی سال 2023ء کی نسبت مالی سال 2024ء میں زرمبادلہ 27 ارب 33 کروڑ ڈالر سے بڑھ کر 30 ارب 25 کروڑ ڈالر تک پہنچ گیا۔ پچھلے سال ستمبر میں انٹر بینک میں ایک ڈالر تقریباً 286 روپے کے برابر تھا آج ایک ڈالر تقریباً 279 روپے کے برابر ہے۔ ڈالر کی قیمت بین الاقوامی مارکیٹ میں بھی بڑھ گئی‘ بیشتر بین الاقومی کرنسیاں ڈالر کے مقابلے میں کمزور ہوئیں لیکن پاکستانی روپیہ کمزور نہیں ہوا۔ اس کی کئی وجوہات ہیں‘ سب سے بڑی وجہ ڈالر کی سمگلنگ روکنے کے اقدامات تھے۔ سٹیٹ بینک آف پاکستان نے ایکسچینج کمپنیوں کے نئے اصول و ضوابط طے کیے جن میں بی کیٹیگری کی کمپنیوں کو یا تو ختم کر دیا گیا یا بڑی ایکسچینج کمپنیوں میں ضم کر دیا گیا۔ ایکسچینج کمپنیوں کے لیے کم سے کم سرمایہ 20 کروڑ سے بڑھا کر 50 کروڑ تک کیا گیا۔ اس کے علاوہ بینکوں کو اپنی ایکسچینج کمپنیاں بنانے کی اجازت دی گئی۔ شفافیت بہتر ہوئی اور منی لانڈرنگ میں بھی کمی آئی جس کی وجہ سے ڈالر کی طلب کم ہوئی اور روپیہ مضبوط ہوا۔ لیکن اب صورتحال تبدیل ہوتی دکھائی دے رہی ہے۔ دبئی میں ڈالر کی خریداری 285 روپے سے زائد میں ہو رہی ہے۔ غیر یقینی صورتحال کے باعث ترسیلاتِ زر کو دبئی میں روکے جانے کی اطلاعات ہیں۔ اس کے علاوہ ملک میں ہنڈی حوالہ کا کام بھی زور پکڑ گیا ہے۔ جون میں ایکسچینج کمپنیوں نے 44 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز بینکوں کو فروخت کیے جبکہ جولائی میں تقریباً 33 کروڑ 50 لاکھ ڈالرز بینکوں کو فروخت کیے گئے۔ جولائی میں ترسیلاتِ زر میں پچھلے سال جولائی کی نسبت تقریباً 48 فیصد اضافہ ہوا لیکن ماہانہ بنیادوں پر اگر حساب لگایا جائے تو جولائی 2024 ء میں ترسیلات میں جون 2024ء کی نسبت پانچ فیصد کمی واقع ہوئی جو تقریباً 15کروڑ 30 لاکھ ڈالرز ہے۔ پاکستانی رئیل اسٹیٹ میں ٹیکسزکے سونامی کے بعد چھوٹے بڑے سرمایہ کار دبئی کی رئیل اسٹیٹ میں سرمایہ کاری کرنے کے لیے سرمایہ دبئی منتقل کرتے دکھائی دے رہے ہیں۔ 2023ء کی یاد تازہ ہونے لگی ہے۔ شاید ایک نئے کریک ڈاؤن کی ضرورت ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved