تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     13-08-2024

قیس سا پھر نہ اٹھا کوئی بنی عامر میں

میاں چنوں کے نواحی گاؤں 101/15.L تیلیاں والا کے ارشد ندیم نے پیرس اولمپکس میں گولڈ میڈل لے کر خود کو اپنے مقابلے میں حصہ لینے والے تمام ایتھلیٹس سے بہتر نہیں‘ بلکہ خود کو 1908ء سے لے کر 2024 ء تک اولمپکس کی 116 سالہ جیولن تھرو کے مقابلوں کی تاریخ میں شامل تمام کھلاڑیوں سے بہترین ثابت کیا ہے۔ اس نے پیرس اولمپکس میں صرف گولڈ میڈل حاصل نہیں کیا بلکہ 92.97 میٹر کی دوری تک نیزہ پھینک کر اولمپکس میں نیا ریکارڈ قائم کیا ہے۔ اس سے پہلے یہ ریکارڈ ناروے کے اینڈریاس تھورکلڈسن نے 2008ء بیجنگ اولمپکس میں 90.57 میٹر کے ساتھ قائم کیا تھا۔ ارشد نے یہ ریکارڈ 2.4 میٹر کی بڑے واضح مارجن کے ساتھ توڑ کر اس ملک کیلئے 40 سال بعد اولمپک گولڈ میڈل جیتا۔ وہ جب وکٹری سٹینڈ پر چڑھا تو یہ پاکستان نے 1992ء کے بارسلونا اولمپکس کے بعد‘ جس میں ہاکی ٹیم نے کانسی کا میڈل حاصل کیا تھا‘ 32سال بعد وکٹری سٹینڈ کی شکل دیکھی۔
ارشد ملک کی 77 سالہ تاریخ میں پہلا کھلاڑی ہے جس نے پاکستان کیلئے انفرادی گولڈ میڈل حاصل کیا ہے۔ اس سے قبل 1960ء روم اولمپکس میں بشیر پہلوان نے فری سٹائل کشتی کی ویلٹر ویٹ کلاس (73 کلوگرام) میں کانسی کا تمغہ حاصل کیا تھا۔ اسی اولمپک میں پاکستان کی ہاکی ٹیم نے بھارت کو ایک گول سے شکست دے کر پہلی بار اولمپکس میں سونے کا تمغہ جیتا تھا۔ یہ واحد گول نصیر بندہ نے کیا تھا۔ میرے آل ٹائم ہیرو محمد علی نے بھی انہی اولمپکس میں لائٹ ہیوی ویٹ کلاس میں باکسنگ کا گولڈ میڈل جیتا تھا۔
پاکستان نے اس سے قبل ہاکی میں کل تین سونے کے‘ تین چاندی کے اور دو کانسی کے تمغے حاصل کیے ہیں۔ انفرادی طور پر صرف دو کھلاڑیوں نے کانسی کے تمغے جیتے‘ ایک محمد بشیر پہلوان اور دوسرا سید حسین شاہ باکسر تھا جس نے 1988ء کے سیول اولمپکس میں مڈل ویٹ کلاس میں کانسی کا تمغہ جیتا تھا۔ 1948ء سے لے کر آج تک کل دس تمغوں کے ساتھ 24کروڑ کی آبادی والے ملک کی یہ اولمپکس کی کلہم روداد ہے۔ اب پیرس اولمپکس میں اس فہرست میں ایک انفرادی سونے کے تمغے کا اضافہ ہوا ہے جو ارشد ندیم نے حاصل کیا ہے۔
ہاکی ہمارا قومی کھیل اور اس میں عالم یہ ہے کہ پاکستان کی ہاکی ٹیم حالیہ پیرس اولمپکس کیلئے سرے سے کوالیفائی ہی نہیں کر سکی۔ گزشتہ سال بھارت کے شہر بھوبنیشور میں ہونے والے ہاکی ورلڈ کپ میں حصہ لینے والی سولہ ٹیموں میں پاکستان شامل نہیں تھا کیونکہ وہ دنیا میں ہاکی کی رینکنگ میں پہلی سولہ ٹیموں میں شامل نہیں تھا۔ یعنی ہم تین چھوڑ تیرہ میں بھی نہیں تھے۔
یاد رہے کہ ورلڈ ہاکی چمپئن شپ 1971ء میں ایئر مارشل نور خان کی تحریک پر انٹرنیشنل ہاکی فیڈریشن نے شروع کی تھی اور نہ صرف یہ کہ پاکستان اس ٹورنامنٹ کا پہلا میزبان اور چیمپئن تھا بلکہ آج تک چار بار یہ ٹورنامنٹ جیت کر سب سے زیادہ فتوحات کا حامل بھی ہے۔ اس سال پیرس اولمپکس میں دنیا بھر سے ہاکی کی بارہ ٹیموں نے شرکت کی‘ ہم ان بارہ ٹیموں میں نہیں تھے۔ کیسی بلندی اور کیسی پستی ہے۔ یہی حال سکواش کا ہے کہ جس پر ہم نے عشروں حکمرانی کی ہے۔ قیام پاکستان سے قبل برطانوی فوج میں کوچ کے طور پر کام کرنے والے ہاشم خان نے قیام پاکستان کے بعد پاکستان ایئرفورس کو بطور کوچ جوائن کیا۔ ان کی شاندار کارکردگی‘ رفتار اور کھیل پر دسترس سے متاثر ہو کر انہیں 1951ء میں برٹش اوپن‘ جو اس کھیل کا سب سے معتبر اور نمبر ون ٹورنامنٹ ہے‘ میں بھیجا گیا جہاں انہوں نے مصر کے محمود کریم کو 5-9 ‘0-9‘ 0-9 سے شکست دے کر پہلی بار یہ ٹائٹل پاکستان کے لیے جیتا۔ ہاشم خان نے اگلے آٹھ سال میں یہ ٹائٹل چھ بار جیتا۔ پھر یہ کھیل تو جیسے پاکستانیوں کی میراث ہی بن کر رہ گیا۔ اعظم خان‘ روشن خان‘ قمر زمان خان‘ ہدایت جہان ہدیٰ‘ علا الدین گوگی‘ جان شیر خان اور سب سے بڑھ کر جہانگیر خان۔ پاکستان کے سکواش کھلاڑیوں نے 1950ء سے 1997ء کے درمیان 30بار برٹش اوپن اور 14بار ورلڈ اوپن سکواش چیمپئن شپ جیتی۔ پھر اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔
اب ارشد ندیم کی اس تاریخ ساز کامیابی کا کوئی بھی کریڈٹ لینے کی کوشش کرے لیکن ساری دنیا کو معلوم ہے کہ اس کی یہ کارکردگی اور کامیابی صرف اس کی ذاتی محنت‘ لگن‘ دلجمعی اور دیوانہ پن کا نتیجہ ہے‘ تاہم حسبِ معمول ہر فتح کی طرح اب اسکے بھی ہزار وارث نکل آئیں گے۔ مگر سچائی یہ ہے کہ اس ملک میں سوائے کرکٹ کے اربابِ اقتدار اور سرکار کو کسی اور کھیل سے نہ کوئی سروکار ہے اور نہ ہی کوئی فکر ہے۔ اس کرکٹ پر بھی نظرِ کرم محض اسلئے ہے کہ یہ کھیل کماؤ پوت ہے اور ایک ایسا کماؤ پوت جو باقی سب کھیلوں کو کھا گیا ہے۔ اس کھیل سے وابستہ کھلاڑی‘ آفیشلز اور انتظامیہ سب کے سب اس بہتی گنگا میں نہ صرف ہاتھ دھو رہے ہیں بلکہ کھل کر نہا رہے ہیں۔ جن کھیلوں پر سرکار کو کچھ آمدن نہیں تھی بلکہ خرچ کرنا پڑتا تھا ان کھیلوں کا حال یتیموں سے زیادہ خراب ہے۔ سکواش اور ہاکی اس کی واضح مثال ہیں۔
خیر پہلے بھی ہاشم خان سے لے کر جان شیر اور جہانگیر خان تک سکواش کے تمام کھلاڑی خود اپنی محنت‘ ٹیلنٹ اور خرچے سے عالمی افق پر نمودار ہوئے مگر اب اس مہنگائی میں کھیلوں کے لوازمات اور خرچے عام آدمی کی پہنچ سے باہر نکل گئے ہیں۔ یہی حال ہاکی کا ہے۔ جب پاکستان نے اس کھیل میں نام کمایا‘ تب سکولوں سے لے کر یونیورسٹیوں تک اور گلی کوچوں سے لے کر محلوں تک اس کھیل کی نرسریاں تھیں۔ صرف گوجرہ سے پاکستان ہاکی ٹیم میں دو‘ تین لڑکے ہوا کرتے تھے اور اس کی وجہ یہ تھی کی اس چھوٹے سے پسماندہ شہر میں اقبال بالی اور ارشد روڈے جیسے خبطی اور دیوانے موجود تھے جو لڑکوں کو صبح منہ اندھیرے گھروں سے اٹھا کر میدان میں لاتے تھے اور بلا کسی لالچ کے اس شہر کے لڑکوں کو ہاکی کے اَسرار و رموز سے آشنا کرتے تھے۔ ایسے دیوانے رخصت ہو گئے اور کرکٹ نے رہی سہی کسر نکال دی۔ اب عالمی سکواش کورٹ ہو یا انٹرنیشنل ہاکی کا میدان‘ پاکستان کہیں دور دور تک دکھائی نہیں دیتا۔
عالم یہ ہے کہ ارشد ندیم جیسا کھلاڑی‘ جو 2019ء میں کٹھمنڈو میں ہونے والی ساؤتھ ایشین گیمز میں گولڈ میڈل حاصل کرنے کیساتھ ساتھ 2022ء میں برمنگھم میں ہونے والی کامن ویلتھ گیمز میں بھی پہلی بار نوے میٹر سے زیادہ دوری پر نیزہ پھنکنے والے پہلے ایشین کا ریکارڈ رکھتا ہو مگر حکومتِ پاکستان اس کو پرانے نیزے (جیولن) کی جگہ جو عمر طبعی پوری کر چکا ہو‘ نیا نیزہ نہ لے کر دے رہی ہو۔ اس پر میں نے مورخہ 29مارچ 2024ء کو کالم بعنوان ''لہر بہر اور خدا کا قہر‘‘ لکھا جس میں حکومت کو خداداد صلاحیتوں کے حامل ارشد ندیم کو نیا جیولن لے کر دینے کے درخواست کی۔ اس پر میرے ایک محترم قاری نے لکھا کہ ''اب ارشد ندیم ماضی کی خاتون ایتھلیٹ نسیم جیسا ہو چکا‘ کام کم اور نام زیادہ۔ مزید فرمایا کہ اب وہ اَن فٹ زیادہ رہے گا اور شور شرابے میں صرف فائدے اٹھائے جا رہے ہیں‘‘۔ ارشد ندیم نے اپنی پرفارمنس سے اپنے سب نقادوں کا منہ بند کرنے کے ساتھ ساتھ پیرس میں پاکستان کا جھنڈا بھی بلند کر دیا اور اس طرح کہ اولمپک گیمز میں جیولن تھرو کی 116سالہ تاریخ کے سارے ریکارڈ کو ملیا میٹ کرتے ہوئے آئندہ کیلئے ایک نیا سنگِ میل مرتب کر دیا۔ ارشد ندیم جیسے دیوانے ہوتے ہیں جو تمام تر برے حالات اور مایوس کن صورتحال میں امید و فتح کے دیے روشن کرتے ہیں۔ مولانا الطاف حسین حالی نے ایسے ہی لوگوں کیلئے یہ شعر لکھا:
قیس سا پھر کوئی اُٹھا نہ بنی عامر میں
فخر ہوتا ہے گھرانے کا سدا ایک ہی شخص

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved