برسراقتدار تقریباً ہر سیاسی جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے مقتدرہ کے ساتھ تعلقات مثالی ہیں۔ پی ٹی آئی جب اقتدار میں تھی تو فخریہ کہتی تھی کہ حکومت اور مقتدرہ ایک پیج پر ہیں۔ آج جس سابق آرمی چیف کو حالات کا ذمہ دار ٹھہرا کر مطعون کیا جاتا ہے‘ ماضی میں ان کے لیے کیا کیا قصیدے نہ پڑھے گئے۔ پی ٹی آئی پر ہی کیا موقوف‘ اس وقت جو برسراقتدار ہیں‘ وہ بھی ایسے ہی دعوے کرتے دکھائی دیتے ہیں۔ علماو مشائخ کانفرنس میں وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کہ جتنا تعاون حکومت اور آئینی اداروں کے درمیان آج ہے پہلے کبھی نہیں دیکھا۔ سوال یہ ہے کہ سیاستدانوں کو ایسے دعووں کی ضرورت کیوں پیش آتی ہے؟ جمہوریت میں مختلف ادارے مل کر کام کرتے ہوئے ملک کی ترقی اور عوام کی بہتری کیلئے اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ جب یہ ادارے حکومت کے ساتھ باہمی تعاون کا مظاہرہ کرتے ہیں تو مضبوط‘ مستحکم اور ترقی پذیر معاشرے کی بنیاد پختہ ہوتی ہے کیونکہ قومی ادارے ہی ملک کے بنیادی ڈھانچے کو تشکیل دیتے ہیں۔ یہ ادارے اپنی اپنی صلاحیتوں اور ذمہ داریوں کے تحت کام کرتے ہوئے ملک کی خدمت کرتے ہیں۔ جب یہ ادارے حکومت کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں تو ہم آہنگی پیدا ہوتی ہے جس سے ملکی ترقی کے راستے ہموار ہوتے ہیں‘ تاہم جب یہ ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرکے حکومتی امور میں مداخلت کرنے لگتے ہیں تو اس کے منفی نتائج سامنے آتے ہیں۔ قومی اداروں کی حکومتی امور میں غیرضروری مداخلت سے سیاسی استحکام کو خطرہ لاحق ہوتا ہے۔ جب یہ ادارے اپنی حدود سے تجاوز کرکے سیاسی معاملات میں شامل ہوتے ہیں تو اس سے سیاسی کشیدگی پیدا ہوتی ہے۔ یہ حقیقت ہے کہ جمہوری نظام میں قومی ادارے اور حکومت دو اہم ستون ہیں۔ حکومت اور اداروں کے درمیان تعاون کی خاص اہمیت ہے‘ تاہم تعاون اور مداخلت کے درمیان ایک باریک خط ہے۔ یہ سمجھنا ضروری ہے کہ کب تعاون کا راستہ اختیار کیا جائے اور کب مداخلت کی حدوں کو پار نہ کیا جائے۔
تعاون کا مطلب ہے فریقین کا مشترکہ مقاصد کے حصول کے لیے مل کر کام کرنا۔ قومی ادارے اپنے دائرے میں رہتے ہوئے حکومت کو مشورہ‘ معلومات اور حمایت فراہم کر سکتے ہیں۔ جس طرح آزاد اور شفاف انتخابات کے انعقاد کیلئے الیکشن کمیشن حکومت کو رہنمائی فراہم کرتا ہے جبکہ عدلیہ آئین کی تشریح اور قانون کی حکمرانی یقینی بنانے کے لیے حکومت کی مدد کرتی ہے۔ یہ تعاون کا مثبت پہلو ہے۔ گزشتہ دنوں ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل احمد شریف چودھری نے پریس کانفرنس میں کچھ اعداد و شمار پیش کرتے ہوئے بتایا کہ پاک فوج وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعاون سے اہم معاشی کامیابیاں حاصل کر رہی ہے۔ قرار دیا گیا کہ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے پسماندہ علاقے فوج کی توجہ کا مرکز ہیں اور پاک فوج صحت‘ تعلیم‘ زراعت اور انفراسٹرکچر کے شعبوں میں حکومت کے ساتھ تعاون کر رہی ہے۔ جب حکومت کا کوئی ادارہ تعاون کرتے ہوئے ملک کو آگے لے جانے کی کوشش کرے تو نہ صرف یہ کہ اس کی گنجائش موجود ہے بلکہ ایسے اقدام کی تحسین بھی کی جائے گی۔ مداخلت کا مطلب ہے کسی ادارے کا دوسرے کے کام میں غیرضروری طور پر دخل دینا۔
جب کوئی قومی ادارہ حکومت کی پالیسیوں میں اپنی مرضی کے مطابق تبدیلی لانے کی کوشش کرتا ہے یا حکومتی فیصلوں میں رکاوٹ ڈالتا ہے تو یہ مداخلت کہلاتی ہے۔ اگر کوئی عدالتی فیصلہ حکومت کے ترقیاتی منصوبے کو روک دیتا ہے تو یہ مداخلت سمجھا جائے گا۔ تعاون اور مداخلت میں فرق کرنے کے لیے یہ دیکھنا ضروری ہے کہ ادارے کا کردار کیا ہے۔ اگر ادارہ اپنی آئینی حدود کے اندر رہتے ہوئے حکومت کی مدد کر رہا ہے تو یہ تعاون ہے لیکن اگر حدود سے تجاوز کر کے حکومتی فیصلوں پر اثر انداز ہونے کی کوشش کر رہا ہے تو یہ مداخلت ہے۔
سیاسی میدان میں ایک دلچسپ اور اکثر تنقید کا نشانہ بننے والا رجحان یہ ہے کہ ایک سیاسی جماعت جب اقتدار میں ہوتی ہے تو اس کے معیار ایک خاص انداز کے ہوتے ہیں لیکن جب وہی جماعت اپوزیشن کی نشستوں پر بیٹھتی ہے تو اس کے معیار میں زمین آسمان کا فرق نظر آجاتا ہے۔ جب کوئی جماعت اقتدار کے عہدے پر فائز ہوتی ہے تو اس کے سامنے مختلف چیلنجز اور ذمہ داریاں ہوتی ہیں۔ ملکی ترقی‘ معیشت کو سنبھالنا‘ سکیورٹی کے چیلنجز سے نمٹنا اور بین الاقوامی تعلقات کو مضبوط بنانا اس کی ترجیحات میں شامل ہوتے ہیں۔ ان چیلنجز سے نمٹنے کے لیے اکثر عملی فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو کہ عوام کے مفاد میں تو ہوتے ہیں لیکن بعض اوقات ناپسندیدہ بھی ہو سکتے ہیں۔ اس دوران برسراقتدار جماعت اپنی پالیسیوں کو عملی جامہ پہنانے کی کوشش کرتی ہے اور اس عمل میں بعض اوقات اپنے انتخابی وعدوں سے بھی روگرداں ہو سکتی ہے۔ دوسری جانب جب یہی جماعت اپوزیشن میں ہوتی ہے تو اس کا نقطۂ نظر بالکل مختلف ہوتا ہے۔ اس وقت اس کا بنیادی کام حکومت کے اقدامات پر تنقید کرنا اور عوام کو بتانا ہوتا ہے کہ وہ کیسے بہتر کام کر سکتی تھی۔ اپوزیشن میں ہونے کی وجہ سے اس پر عملی اقدامات کا دباؤ کم ہوتا ہے اور وہ زیادہ تر نظریاتی باتیں کرنے لگتی ہے۔ اس دوران وہ اکثر انتخابی وعدوں کو یاد دلاتی ہے اور حکومت پر عوام سے کیے وعدوں پر عمل نہ کرنے کا الزام لگاتی ہے۔ یہ تبدیلی کے دو رُخ ہیں جنہیں اکثر سیاسی ناقدین تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ اس تناظر میں ایک طرف تو حکومت کو عملی مشکلات کا سامنا ہوتا ہے جس کی وجہ سے وہ اپنے وعدوں پر پورا نہیں اتر سکتی ہے اور دوسری طرف اپوزیشن کے پاس تنقید کا آسان ہتھیار ہوتا ہے۔ اپوزیشن کہتی ہے کہ اصل حکومت کسی اور کی ہے اور فرنٹ پر کوئی اور ہے۔
آج جو کہا جا رہا ہے ماضی قریب میں پی ٹی آئی کی حکومت کے بارے اس سے زیادہ کہا گیا۔ اس لحاظ سے یہ کوئی نئی بات نہیں ‘ برسوں سے یہی پریکٹس جاری ہے۔ اس طرح کی روایات کو ترک کر کے آگے بڑھنا ہی دانشمندی کہلائے گا‘ سو اہلِ سیاست کو تمام سٹیک ہولڈرز کے اشتراک سے ایک طویل المدتی میکانزم بنانا ہو گا جس میں معاشی ترقی اور اصلاحاتی ایجنڈے پر سب کا اتفاق ہو‘ کیونکہ جب مختلف مفادات رکھنے والے افراد یا گروہ ایک ہی منزل کی طرف دیکھتے ہیں تو اس سے مثبت توانائی پیدا ہوتی ہے۔ یہ توانائی مسئلے کے حل کی سمت میں کام کرنے کے لیے ایک مشترکہ پلیٹ فارم فراہم کرتی ہے۔ جب تمام فریق ایک ہی مقصد کے لیے متحد ہوتے ہیں تو ان کی صلاحیتوں اور وسائل کا مجموعی استعمال ممکن ہوتا ہے۔ اس طرح مشکل سے مشکل مسئلہ بھی حل کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔
اس وقت حکومت اور اپوزیشن کے علاوہ چھوٹی بڑی سیاسی جماعتیں بھی ملک کے وسیع تر مفاد کیلئے میثاقِ معیشت کو ضروری قرار دے رہی ہیں۔ جب سبھی ایک ہی آواز بلند کر رہے ہیں تو پھر اس راہ میں رکاوٹ کیا ہے؟ اس رکاوٹ کا کھوج لگانا اہلِ سیاست کا کام ہے اور اہلِ سیاست ہی یہ فریضہ انجام دے سکتے ہیں۔ تمام فریقوں کو ایک مشترکہ پلیٹ فارم پر لانے کے لیے کوشش اور مفاہمت کی ضرورت ہوتی ہے۔ یہ عمل بظاہر آسان نہیں‘ اس میں بعض اوقات کافی وقت بھی لگ سکتا ہے لیکن اس کے باوجود یہ ایسا قدم ہے جسے آج یا کل اٹھانا ہی پڑے گا۔ اب یہ اہلِ سیاست پر منحصر ہے کہ برسوں کی منفی روایات کو جاری رکھتے ہیں یا تلخیوں کو کم کرکے مل بیٹھتے ہیں۔ قومی اتفاقِ رائے پیدا کرنے میں جلدی کریں گے تو بحران ختم ہونے کے امکانات بھی روشن ہوں گے‘ تاخیر کریں گے تو مصیبت کے گہرے بادل ہمارے سروں پر یونہی منڈلاتے رہیں گے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved