ایران کا ایک بڑا سوداگر تجارت کی غرض سے ہندوستان کے سفر پر روانہ ہونے کو تھا۔ گھر بھر میں ملازموں سے لے کر بیوی تک اسے اپنی اپنی پسندیدہ چیزیں لکھوا رہے تھے جو اسے ہندوستان سے لے کر آنا تھیں۔ اچانک اسے اپنے اس خوش نوا طوطی کا خیال آیا جو اس کے گھر کی اصل شان تھا۔ وہ اٹھا اورقوت گویائی رکھنے والے اس پرندے کے پنجرے کے پاس جا کر اس سے پوچھا کہ تمہیں کیا چاہیے۔ اس کے جواب میں پرندے نے اپنی مترنم آواز میں عرض گزاری، ’’آقا، میرا اصل وطن ہندوستان ہی ہے، آپ کووہاں سے میرے لیے کچھ لانے کی ضرورت نہیں، بس ہو سکے تو وہاں میرے جیسے کسی پرندے کو میری حالت کی خبر دے دیجیے گا، اسے کہیے گا کہ تمہارا ایک دوست ہمارا قیدی ہے جو بظاہر تو خوش رہتا ہے لیکن اصل میں اداسی اس کی جان لے رہی ہے، ہر وقت اپنے پنجرے میں تڑپتا ہے اور کھلی فضاؤں کو یاد کرتا ہے۔ یوں تو اس کے گیت ہزار مغنیوں کو شرماتے ہیں لیکن اس کے آنسو ہیں کہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔ میرے آقا‘ آپ بس میرا یہ پیغام وہاں کے طوطی کو دے دیجیے گا، میری بس یہی فرمائش ہے‘‘۔ تاجر کو اپنے اس پرندے سے اتنی محبت تھی کہ اس نے فوراً ہامی بھر لی کہ وہ اس کی خواہش کو ہر صورت میں پورا کرے گا۔ اپنے دل میں طوطی اور ہاتھ میں خاندان والوں کی فرمائشیں لیے یہ ایرانی تاجرہندوستان کے جس شہر جانا چاہتا تھا وہاں کا راستہ جنگل سے ہوکر گزرتا تھا۔ جنگل سے گزرتے ہوئے اس نے دیکھا کہ بہت سے خوشنما پرندے درختوں پر اٹکھیلیاں کررہے ہیں۔ تاجر ان پرندوں کی حرکتیں دیکھ رہا تھا کہ اس کی نظر چند ایسے پرندوں پر پڑی جو ہو بہو اس کے طوطی کی تصویر تھے۔ انہیں دیکھ کر اُسے اپنے طوطی کا پیغام یاد آیا؛ چنانچہ اُس نے انہیں اپنی طرف متوجہ کیا اور اپنے طوطی کا پیغام کہہ سنایا۔ ایک طوطی پر پیغام سنتے ہی لرزہ طاری ہوگیا اور دیکھتے ہی دیکھتے وہ درخت سے گرا اور جان دے دی۔ ایک خوبصورت پرندے کی ناگہانی موت دیکھ کر تاجر کا دل کٹ کر رہ گیا۔ وہ خود کو اس کی موت کا ذمہ دار سمجھنے لگا۔ سینے پر بوجھ لیے اس نے اپنا سفر جاری رکھا ، ہندوستان میں اپنی خریدو فروخت مکمل کرکے وطن واپس ہوگیا۔ وطن پہنچ کر جیسے ہی وہ گھر میں داخل ہوا تو سارے خاندان نے اپنی اپنی فرمائشوں کی بابت پوچھنا شروع کردیا۔ وہ خندہ پیشانی سے ہر ایک کو اس کے لیے لائے ہوئے تحائف سونپتا رہا۔ اس کام سے فارغ ہوکر وہ طوطی کی طرف گیا تو دل بوجھل اور آنکھیں جھکی تھیں۔ طوطی نے اپنی فرمائش کے بارے میں پوچھا تو اس نے وہ سب کچھ سنا دیا جو وہ اپنی آنکھوں سے دیکھ چکا تھا۔ جب ایک پرندے کے مرنے کا ذکرآیا تو اسے سن کر طوطی بھی لرزنے لگا اور چند ہی لمحوں بعد اس کا بے جان جسم پنجرے میں پڑا تھا۔ تاجر اپنے عزیز طوطی کی لاش دیکھ کر اداس ہو گیا اور اس نے اپنے ہاتھوں سے اس بے جان پنچھی کو پنجرے سے نکال کر ایک دیوار پر ڈال دیا ۔ ابھی وہ اپنے آنسو ہی پونچھ رہا تھا کہ دیوار پر پڑے پرندے میں جان آگئی اور وہ اڑ کر قریب ہی ایک درخت پر بیٹھ کر گانے لگا۔ اُسے زندہ دیکھ کر تاجر کو سمجھ آئی کہ کس طرح ایک خوبصورت پرندے نے اسے بے وقوف بنا کر رہائی حاصل کرلی ہے۔ سوداگر نے طوطی کو کہا کہ تم نے فریب دے کر آزادی تو خرید لی ہے اب مجھے کوئی نصیحت ہی کرتے جاؤ، پرندے نے کہا مجھے میرے ہندوستانی ساتھی نے مرکر یہ پیغام دیا تھا کہ میں تو اپنی خوبصورتی کی وجہ سے اسیر ہوا ہوں، جیسے ہی میری جان نکل جائے گی تو میں تم پر ایک بوجھ بن جاؤں گا جسے تم اتار پھینکو گے۔ میں نے اپنے اس انجان دوست کے مشورے پرعمل کیا تو دیکھ لو میں آزاد ہوں اور تم پچھتا رہے ہو۔ مولانا روم نے تاجرو طوطی کی یہ حکایت اپنی شہرۂ آفاق مثنوی میں بیان کی ہے کہ بعض اوقات معاملات کی ظاہری حالت ایسا دھوکا دیتی ہے جس کا انجام صرف پچھتاوا ہوتا ہے۔ تاجر کے طوطی کی جگہ اب ذرا ملالہ یوسف زئی کو رکھ کر دیکھیے۔ 9اکتوبر 2012ء کی سہ پہرسوات کی اس نوخیز مگر توانا آواز کو گولی مار کر خاموش کر دینے کی ایک ظالمانہ کوشش ہوتی ہے۔ پاکستان بھر کے ٹی وی چینل معمول کی نشریات روک کر اپنے تمام وسائل کر رُخ اس بچی کی ہر سانس کی خبر دینے کے لیے سوات کی طرف موڑ دیتے ہیں۔ پاک فوج کے ایک ہیلی کاپٹر کے ذریعے اسے پشاور لے جایا جاتا ہے۔ فوج کے بہترین ڈاکٹر اس کے علاج میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ گولی لگنے کے پانچویں دن ملالہ کو متحدہ عرب امارات کی طرف سے بھیجی ہوئی ایک ہوائی ایمبولینس میں ڈال کر برطانیہ منتقل کردیا جاتا ہے ۔ کچھ دنوں بعد سکیورٹی کی وجہ سے ملالہ کے والد کو برطانیہ میں پاکستانی سفارتخانے کا ملازم بنا کر بمع اہل و عیال ملک سے بحفاظت نکال دیا جاتا ہے۔ ہماری ملالہ جب برطانوی ہسپتال میں آنکھ کھولتی ہے تو ہم پاکستان میں جی اٹھتے ہیں۔ وہ اپنے والد سے فون پر بات کرتی ہے تو پاکستان میں ہر باپ کی آنکھیں نم ہوجاتی ہے۔ وہ ہاتھ ہلاتی ہے تو ٹی وی پر اس کا ہلتا ہوا ہاتھ دیکھ کر ہم اس کے آہنی عزم کے نغمے گانے لگتے ہیں۔ وہ اپنے پیروں پر کھڑی ہوتی ہے تو حوصلے ہمارے جوان ہوجاتے ہیں۔ اور پھر اقوام متحدہ، وہائٹ ہاؤس اور بکنگھم پیلیس کے دروازے اس پر کھل جاتے ہیں۔ لیکن جو بات نہیں کھلتی وہ یہ ہے کہ ملالہ پاکستان سے زیادہ ضیاء الدین یوسف زئی کی بیٹی ہے۔ وہ ضیاء الدین یوسف زئی جو سلمان رشدی کی کتاب پر پابندی کو نامناسب سمجھتا ہے، وہ ضیاء الدین یوسف زئی جو پاکستان کی پچاسویں سالگرہ پر ماتم کرتا ہے اور اس کی بیٹی وہی زبان بولتی ہے جو اس کا باپ بولتا ہے۔ہماری یہ خوش نوا مینا بولنے کے قابل ہوتی ہے تو کرسٹینا لیمب کو اپنی ترجمانی کے لیے منتخب کرتی ہے اور اسی کے ذریعے جب ’’میں ہوں ملالہ‘‘ (I am Malala) لکھ کر وہ پاکستان میں کیڑے نکالتی ہے تو اس کے ہر خیرخواہ کی حالت مولانا روم کی کی حکایت کے تاجر والی ہوجاتی ہے جو اپنے عزیز ترین طوطی کے فریب کو بھی نہیں سمجھ پاتا ۔ کرسٹینا لیمب خود بتاتی ہے کہ پچھلے مہینے ملالہ کو ڈبلن میں ایمنیسٹی انٹرنیشنل نے ضمیر کی سفیر کا جوا یوارڈ دیا، وہ آئرلینڈ کے نامور گلوکار و موسیقار بونو(Bono )کے ہاتھ سے دلوایا گیا۔ بونو نے ایوارڈ دیتے ہوئے ملالہ کا ہاتھ تھام لیا تو وہ گڑبڑا گئی۔ برطانیہ واپس آکر اس نے کرسٹینا کی موجودگی میں بونو کی طرف سے ہاتھ تھام لینے پر کچھ پریشانی کا اظہار کیا تو اس پر اس کے والد ضیاء الدین یوسف زئی نے قہقہہ لگایا اورکہا ’’ملالہ میں تمہیں طالبان سے تو بچا سکتا ہوں، بونو سے نہیں‘‘۔ ضیا ء الدین یوسف زئی نے ٹھیک کہا ہے، ملالہ طالبان سے تو بچ گئی لیکن ان سے نہ بچ سکی جو اس کی گلوبل برانڈنگ کرکے نہ جانے کیا کیا کہلوائیں گے۔ ہمارا طوطی ہمیں چھوڑ کر اس منڈیر پر جا بیٹھا ہے ، جہاں بونو کی شہرت، گورڈن براؤن کی سیاست، اس کے والد کی نوکری اور دنیا کی بہترین پبلک ریلیشننگ کمپنی (Edelman) اس کے مفادات کا تحفظ کریں گے۔ مولانا فضل الرحمٰن نے تو کہا تھا کہ ’’ملالہ ہمارا بھی تقدس ہے، اس کے خون پر شیش محل نہ تعمیر کیے جائیں‘‘۔ ہم نے مشورہ نہیں مانا اب شیش محل کرچی کرچی ہوکر سامنے پڑا ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved