چکوال کی جانی پہچانی شخصیت‘ جس کے حوالے سے میڈیا پر اس وقت بخار طاری ہے‘ اس میں ایک بات کا دھیان رکھنا چاہیے۔ ہماری مملکت میں اگر کسی بڑے کو کٹہرے میں لایا جاتا ہے تو اس کے مبینہ گناہوں کی وجہ سے نہیں۔ عتاب نازل ہوتا ہے تو اور وجوہ کی بنا پر۔ نواب محمد احمد خان قتل تو ہوئے اور ذوالفقارعلی بھٹو پر یہ الزام بھی لگا لیکن ان کے پھانسی چڑھنے کے پیچھے اصل محرکات اور تھے۔ تب کے حکمران‘ جنہوں نے بھٹو کو ہٹا کر اقتدار پر قبضہ کیا‘ ان کو یہ خوف تھا کہ بھٹو آزاد رہے اور الیکشن ہوتے ہیں اور بھٹو جیت جاتے ہیں تو پھر ان کی خیر نہ ہو گی۔ جنرل ضیاالحق نے صورتحال اور واضح کر دی تھی جب ایک موقع پر انہوں نے کہا کہ قبر ایک ہے اور بندے دو اور کسی ایک کو ہی قبر میں جانا ہے۔ دنیا جہاں سے بھٹو کی سزا بخشی کی اپیلیں آئیں لیکن جنرل ضیا کے سامنے وہ قبر کا ہی منظر تھا۔
12 اکتوبر 1999ء کو نواز شریف نے ایک جوا کھیلنا چاہا۔ توجہ ہٹانے کیلئے شجاع آباد میں جلسہ رکھا جس سے خطاب کیا اور پھر چکلالہ واپس آتے ہوئے لیفٹیننٹ جنرل افتخار علی خان (چودھری نثار کے بھائی‘ جو تب سیکرٹری دفاع تھے) کو پیغام بھیجا کہ ایئر پورٹ پر آئیں۔ گاڑی میں بیٹھے تو وزیراعظم نے اپنا ارادہ ظاہر کیا کہ جنرل مشرف کو ہٹانا ہے۔ جنرل افتخار مرحوم نے مجھے خود بتایا کہ انہوں نے بڑی سمجھانے کی کوشش کی کہ ایسا نہ کریں اور جنرل مشرف‘ جو شام کو کولمبو سے واپس آرہے ہیں‘ ان سے معاملات سلجھانے کیلئے بات کر لیں۔ نواز شریف نے ان کی ٹانگ پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا کہ بات چیت کا وقت گزر چکا ہے۔
تقریباً ساڑھے چار بجے وزیراعظم ہاؤس سے اعلان ہوا کہ لیفٹیننٹ جنرل ضیا الدین بٹ‘ جو تب مقتدر ادارے کے سربراہ تھے‘ کو آرمی چیف نامزد کیا گیا ہے۔ عہدے کے سٹار بھی انہیں پہنا دیے گئے لیکن جیسا کہ ہم جانتے ہیں‘ حالات نے پلٹاکھایا اور شام ڈھلے نواز شریف اقتدار سے محروم تھے اور جنرل مشرف سیاہ و سفید کے مالک۔ جنرل ضیا الدین بٹ نے اپنی کمان کیا سنبھالنی تھی‘ تحویل میں لے لیے گئے اور اگلے کئی سال قیدِ تنہائی میں گزارے۔ لیفٹیننٹ جنرل سلیم حیدر مرحوم نے مجھے ایک دلچسپ واقعہ سنایا ۔ انہیں دس کور کا کمانڈر مقررکیا گیا تھا ۔ وزیراعظم ہاؤس آئے تو گیٹ پر ایک کپتان نے روکا۔ تعارف کرانے پر کپتان نے سیلوٹ کیا لیکن اندر نہ جانے دیا۔ جنرل سلیم حیدر نے کہا میں وہیں سمجھ گیا کہ کھیل ختم ہو گیا ہے۔
نواز شریف بازی جیت جاتے تو صورتحال یکسر مختلف ہوتی۔ پرویز مشرف اور ان کے ساتھی اندر ہوتے اور قانون اور ڈسپلن کے رکھوالے جنرل ضیاالدین ہوتے۔ قسمت نے پرویز مشرف کا ساتھ دیا تو اگلے ساڑھے آٹھ سال وہ مدبر اور عقلِ کل ٹھہرے۔ قسمت نواز شریف کا ساتھ دیتی تو کارگل پر ایک کمیشن بیٹھتا اور شاید بہتوں کو سزا ہوتی۔ پھر بھی نواز شریف کو قسمت کا دھنی ہی سمجھنا چاہیے کہ بہت کچھ ہونے کے باوجود پھر بھی نسبتاً مزے میں سروائیو کر رہے ہیں۔ سیاسی لحاظ سے ان کی وہ بات نہیں رہی جو ایک زمانے میں ہوا کرتی تھی لیکن پھر بھی آگے پیچھے گاڑیاں چلتی ہیں اور ذاتی رہائش گاہوں پر سرکاری پہریدار مامور ہیں۔ اقتدار کا اصل ان کے پاس نہیں لیکن دکھاوا تو ہے۔ پاکستان میں اسی کو رعب و دبدبہ سمجھا جاتا ہے۔
جسے پی ٹی آئی والے رجیم چینج کہتے ہیں‘ اس وقت اور اس سے کچھ پہلے پاکستان میں ایک پاورسَٹرگل (Power Struggle) یا طاقت کی جنگ جاری تھی۔ عمران خان کو ہٹانا مقصود تھا اور دیگر جماعتیں جو پارلیمنٹ میں تھیں اور جو پی ڈی ایم کے جھنڈے تلے اکٹھی ہوئیں انہیں مہروں کے طور پر استعمال کیا گیا۔ پیچھے قمر باجوہ دھاگوں کو کھینچ رہے تھے۔ اس پاورسَٹرگل میں پی ٹی آئی تنہا رہ گئی۔ ادارے وغیرہ دوسری طرف کھڑے تھے اور قومی اسمبلی میں جب وزیراعظم کو ہٹانے کا موشن پیش ہوا تو شاہراہ آئین پر مختلف محکموں کی گاڑیاں کھڑی ہو چکی تھیں جس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ ہوائیں کس طرف چل رہی ہیں اور کیا ہونے والا ہے۔ پی ٹی آئی نے ہاتھ پیر مارے لیکن وہ پہلا راؤنڈ ہار گئی اور سیاست کی بساط پلٹ گئی۔ لیکن ساتھ ہی ایک عجوبہ ہوا۔ عمران خان کی بطور وزیراعظم چھٹی تو ہو گئی لیکن خلافِ توقع پی ٹی آئی ختم نہ ہوئی۔ یہی وجہ ہے کہ جو پاورسَٹرگل تب شروع ہوئی تھی‘ کسی نہ کسی شکل میں اب تک جاری ہے اور چونکہ اس کشمکش کا واضح حل ابھی تک نہیں ہوا‘ پاکستانی سیاست ایک ہی جگہ کھڑی ہے اور ساری مملکت اس صورتحال کی یرغمال بنی ہوئی ہے۔ بنیادی نکتہ البتہ یہی ہے کہ آسمان کا رنگ بدلے تو ہماری مملکت میں انصاف کے تقاضے بھی بدل جاتے ہیں۔
یہی جو چکوال کی شخصیت ہیں‘ کل تک کتنے طاقتور تھی۔ بہت سے معاملات میں ان کا عمل دخل رہتا تھا‘ سینیٹ کی چیئرمینی کا الیکشن ہو یا بلوچستان کے چیف منسٹر کا چناؤ‘ اُن کی بات چلتی تھی۔ عمران خان کے دستِ راست تھے اور جنرل باجوہ کے بھی بہت قریب‘ بلکہ ان کے چہیتے ۔ پنوں عاقل ڈویژن کمانڈ کر رہے تھے لیکن جب باجوہ چیف بنے تو پنوں عاقل سے انہیں سیکشن 'سی‘ کا سربراہ بنا دیا۔ وہیں سے بیٹھ کر ان کا مختلف سیاسی معاملات میں عمل دخل شروع ہوا۔ اب یہ جو کہا گیا ہے کہ فلاں ہاؤسنگ سکیم کے سربراہ کو اٹھایا گیا اور اس کے ساتھ یہ اور وہ کیا‘ اٹھانا اور اٹھوانا کب سے مملکتِ خداداد میں اتنے بڑے جرم ٹھہرے ہیں؟ ہمارے تھانوں میں یہ ہر روز کی کارروائی ہے‘ ناجائز طور پر لوگوں کو اٹھایا جاتا ہے اور پیسے بٹورے جاتے ہیں۔ یہ تو تھانوں کا ذکر ہوا حالانکہ اٹھانے اٹھوانے کی بات ہو تو بہت دور تلک چلی جاتی ہے۔ اصلی جرم تو ہماری شخصیت کا کچھ اور ہے کہ وہ جاری پاور سٹرگل میں غلط سائیڈ کے طرفدار کے طور پر دیکھے جا رہے تھے۔ آج کا سب سے بڑا گناہ یہی ہے کہ آپ فلاں کے طرفدار ہیں۔ یہاں یہ بات واضح تھی کہ آسمانوں کا رنگ بدل گیا ہو گا لیکن ہماری چکوال کی شخصیت نے اپنا رنگ نہیں بدلا۔ ان کا اصل قصور یہ ہے۔ لیکن اس وقت ان کا تحویل میں لیا جانا ایک دو چیزوں کی نشاندہی کرتا ہے۔ ایک تو اس سے حلقۂ مقتدرہ کا یہ اعتماد ظاہر ہوتا ہے کہ اس وقت ایسا قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ دوم‘ اس سے یہ معنی بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان معاملات میں حلقۂ مقتدرہ سے کسی لچک کی امید نہیں رکھی جا سکتی۔ یعنی یہ جو وقتاً فوقتاً غبارے اڑائے جاتے ہیں کہ بات چیت کا کوئی امکان ہے‘ یہ سب بے بنیاد ہیں۔
میڈیا میں بہت سی بے تکی باتیں ہو رہی ہیں مثلاً یہ کہ جنرل فیض کا مئی کی فلاں تاریخ کے معاملات سے کچھ تعلق ہے۔ ایسی بے سروپا باتیں بھی کی جا رہی ہیں کہ اپنے تجربے کے بل بوتے پر انہوں نے ٹارگٹوں کی نشاندہی کی ہو گی اور پی ٹی آئی کے اسلام آباد دفتر پر چھاپہ پڑا تو کمپیوٹروں سے پتا نہیں کیا کچھ مواد حاصل ہوا۔ اصل بات تو ان کی طرفداری کی ہے اور یہ بھی کہ بڑے عہدے کے وہ بھی امیدوارتھے۔ تب تک حالات بدل چکے تھے‘ عمران خان کی چھٹی ہو گئی تھی اور جنرل باجوہ کی وہ بات نہیں رہی تھی۔ نومبر 2022ء میں جب بڑے عہدے کا فیصلہ ہونا تھا جنرل باجوہ کا سورج ڈھل رہا تھا اور فیصلہ شریفوں کے ہاتھوں میں آچکا تھا۔ قسمت جن کا ساتھ نہ دے‘ ان کے ساتھ پھر وہی ہوتا ہے جو ضیاالدین بٹ کے ساتھ ہوا‘ یا جیسے عرض کیا نواز شریف کے ساتھ ہوا‘ پرویزمشرف کے ہاتھوں۔ ایسے کاموں میں ایسا ہی ہوتا ہے لیکن میڈیا میں کچھ زیادہ ہی رنگسازی ہو رہی ہے۔
جہاں تک طرفداری کی بات ہے موصوف اور ان کا سارا خاندان الیکشن میں میرے ساتھ کھل کے تھا۔ ان کے گاؤں لطیفال میں میرا جلسہ خاندانی گھر میں ہوا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved