تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     14-08-2024

حکومت عوام سے لاتعلق کیوں؟

سانحہ نو مئی کے حوالے سے حکومت اور فوج کا موقف واضح ہونے کے باوجود اس کے ذمہ داران کے خلاف عملی طور پر کچھ ہوتا دکھائی نہیں دے رہا۔ اس واقعہ کو سوا سال گزر جانے کے باوجود نو مئی کے کیسز کو صحیح طور سے ڈیل ہی نہیں کیا گیا۔ ذمہ داران کو فیئر ٹرائل کے ذریعے سزا دینے کے بجائے اس معاملہ کو سیاسی رنگ دے دیا گیا ہے۔ بانی تحریک انصاف آج بھی وہیں کھڑے ہیں جہاں نو اپریل 2022ء کو اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے وقت کھڑے تھے۔ بہرحال آنے والے دن بڑے اہم ہیں۔ بانی تحریک انصاف پر ملٹری کورٹ میں بغاوت کا مقدمہ چلائے جانے کا بھی امکان ہے‘ اور چونکہ ان کی جماعت اندرونی طور پر تقسیم کا شکار ہے اس لیے وہ اس صورتحال میں خان صاحب کیلئے کوئی بڑا کردار ادا کرتی نظر نہیں آ رہی۔ذوالفقار علی بھٹو کے کیس میں عدالتیں ٹرائل پر متفق تھیں لیکن اُس وقت پاکستان پیپلز پارٹی بھی اندرونی طور پر تقسیم ہو چکی تھی۔ کوثر نیازی‘ غلام مصطفی جتوئی‘ ممتاز بھٹو‘ حفیظ پیرزادہ اور غلام مصطفی کھر جیسے پیپلز پارٹی کے بیشتر سرکردہ رہنما مسٹر بھٹو سے لاتعلق ہو چکے تھے۔ نصرت بھٹو کی کمان کمزور ہوچکی تھی۔ یہی منظر اب تحریک انصاف میں نظر آ رہا ہے۔
اُدھر سپریم کورٹ کے سینئر جج اور مستقبل کے چیف جسٹس آف پاکستان جناب منصور علی شاہ کی سربراہی میں سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے کہا ہے کہ انفرادی شخصیات یا حکومت کے پاس عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔ سپریم کورٹ کے فیصلوں پر عملدرآمد ہر صورت یقینی بنانا ہوگا‘ فیصلوں کو نظر انداز کرنا یا عملدرآمد میں تاخیر آئینی ڈھانچے کو چیلنج کرنے کے مترادف ہے۔ سپریم کورٹ کے تحریری حکم میں مزید کہا گیا ہے کہ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد محض رسمی کارروائی نہیں آئین کا تقاضا ہے‘ عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد عدالتی نظام پر عوامی اعتماد برقرار رکھنے کے مترادف ہے۔اس تحریری حکم نامے سے بین السطور میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ حکومت مخصوص نشستوں کے فیصلے پر عملدرآمد روکنے کے لیے جو اقدامات کر رہی ہے وہ بے سود ثابت ہوں گے کیونکہ جسٹس منصور علی شاہ نے مذکورہ حکم نامے میں واضح کر دیا ہے کہ انفرادی شخصیات یا اداروں کے پاس عدالتی فیصلوں پر عملدرآمد کے سوا کوئی چارہ نہیں۔
سیاسی حالات اور عدالت میں چلنے والے اہم نوعیت کے مقدمات سے ہٹ کر اگر حکومتی کارکردگی کی بات کی جائے تو موجودہ حکومت عوام سے لاتعلق نظر آتی ہے۔ کم از کم حکومتی پالیسیوں سے تو یہی نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کیونکہ حکمرانوں نے اقتدار میں آنے سے لے کر اب تک کوئی ایک بھی پالیسی ایسی نہیں بنائی جس کا مقصد عوام کو ریلیف فراہم کرنا ہو‘ بلکہ حکومتی پالیسیوں سے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ وزرا زمینی حقائق سے لاعلم ہیں۔ اُنہیں عوام کی روز بروز کم ہوتی معاشی سکت اور دیگر مشکلات کا کوئی احساس نہیں۔ وزرا عوام کے درمیان جا کر دیکھیں کہ وہ اس وقت کن مشکلات سے دوچار ہیں۔ زمینی حقائق کیا ہیں۔ عوام کیا سوچ رہے ہیں اور وہ اشرافیہ سے کتنے تنگ ہیں۔ مہنگائی کے تدارک کے لیے ناکافی اقدامات کے باعث عوام کے اندر لاوا پک رہا ہے۔ عوام کے مسائل حل نہ ہونے کی صورت میں مَیں پاکستان میں خاموش انقلاب دیکھ رہا ہوں۔ تمام سیاسی جماعتیں بشمول پی ٹی آئی اور عمران خان بھی اس کی لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔عوامی مسائل سے چشم پوشی حکومت کے لیے ویسی ہی کوئی صورتحال پیدا کر سکتی ہے جیسی بنگلہ دیش میں پیدا ہوئی۔بہتر ہے کہ حکومت ایسی کوئی صورتحال پیدا ہونے سے پہلے ہی عوام کو درپیش مسائل کا دیرپا حل تلاش کرے۔
اب اگر بنگلہ دیش کا ذکر چل ہی نکلا ہے تو آئیے وہاں پیش آنے والے واقعات کے پس منظر پر بات کرتے ہیں۔بنگلہ دیش کا 2008ء کا الیکشن ماڈل ٹھیک تھا جس کے تحت حسینہ واجد اور خالدہ ضیا کے حامیوں کو ایک مخصوص ضابطہ اخلاق کا پابند بنا کر ملک میں 31 دسمبر 2008ء کو منعقد ہونے والے انتخابات میں شامل کیا گیا۔ اُس ماڈل کے تحت بیلٹ پیپر میں None of above کا کالم شامل کیا گیا تھا اور ووٹر کو یہ حق دیا گیاتھا کہ اگر وہ امیدواروں کی فہرست میں کسی کو پسند نہیں کرتا تو None of aboveکے کالم پر مہر لگا دے۔ اگر کسی حلقہ سے 30فیصد سے زائد ووٹروں نے None of above کے کالم پر مہر لگائی تو اس حلقہ میں ازسرنو انتخابات لازمی تھے۔ پولنگ سٹیشنز پر بڑے بڑے بینر آویزاں تھے کہ اگر کامیاب ہونے والے امیدوار نے کرپشن اور دیگر اخلاقی جرائم کیے ہیں تو اس کا گناہ ووٹرز کے کھاتے میں جائے گا‘اس لیے اپنے ووٹ کو سوچ سمجھ کر استعمال کریں۔ان انتخابات کے دوران وہاں بین الاقوامی مبصرین بھی موجود تھے۔ پاکستان کی نمائندگی میں نے کی تھی۔ اقوامِ متحدہ کے نمائندگان بھی وہاں موجود تھے۔ان انتخابات کے نتیجے میں جنوری 2009ء میں برسراقتدار آنے کے بعد حسینہ واجد نے تمام قوانین منسوخ کر دیے اور انتخابی اصلاحات کو کالعدم قرار دے دیا ‘اور عبوری حکومت کو آئین سے حذف کر کے آمریت کی بنیاد رکھی جس کا ہولناک نتیجہ پانچ اگست کو سامنے آیا اور حسینہ واجد کو بنگلہ دیش سے فرار ہونا پڑا۔
حسینہ واجد کے فرار اور استعفے کے بعد نوبیل انعام یافتہ ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کا حلف اٹھا لیا ہے۔ ڈاکٹر محمد یونس نے بنگلہ دیش میں گرامین بینک کی بنیاد رکھی اور بنگلہ دیش میں غریب عوام بالخصوص خواتین کیلئے قرضہ فراہم کر کے غربت کے خاتمے میں اہم کردار ادا کیا۔ میری ان سے 2001ء میں سویڈن میں ایک بین الاقوامی سیمینار کے موقع پر تفصیلی ملاقات ہوئی تھی۔ اُس ملاقات میں فن لینڈ کی ملکہ اور سویڈن کے لارڈ میئر بھی موجود تھے۔ اس ملاقات میں انہوں نے بنگلہ دیش کی خواتین کو موبائل فون دینے کے لیے سویڈن حکومت سے معاہدہ کیا تھا جبکہ ہمارے ہاں بے نظیر انکم سپورٹ اور بعد ازاں احساس پروگرام کے ذریعے اربوں روپے تقسیم کیے گئے جن کا کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ اگر یہی رقم ڈاکٹر محمد یونس کے ماڈل کے مطابق تقسیم کی جاتی تو ملک میں خواتین کو روزگار ملتا‘ لیکن پاکستان میں ایسے منصوبوں کی طرف توجہ نہیں دی جاتی۔ ہماری حکومت محض بیان بازی سے کام چلا رہی ہے‘ یا مخالفین پر تنقید کر رہی ہے۔
اُدھر وزیر اعظم شہباز شریف نے وزارتِ موسمیاتی تبدیلی سے اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ کا کنٹرول لے کر داخلہ ڈویژن کو سونپ دیا ہے۔ اس فیصلے کی وجہ مارگلہ ہلز پر کنٹرول کے حوالے سے اسلام آباد وائلڈ لائف بورڈ اور سی ڈی اے کے درمیان چلنے والا تنازع بتائی گئی ہے۔وزیر اعظم آفس نے وائلڈ لائف بورڈ کو داخلہ ڈویژن کے ماتحت کرنے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا ہے جبکہ وائلڈ لائف بورڈ کے اثاثے اور واجبات بھی داخلہ ڈویژن کو شفٹ کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ بورڈ کو داخلہ ڈویژن شفٹ کرنے کی تمام رسمی کارروائیاں ایک ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے‘لیکن اداروں کے درمیان چلنے والے اس تنازع کی وجہ سے قبضہ مافیا فائدہ اٹھا رہا ہے۔مارگلہ ہلز میں غیر قانونی طریقے سے بنائی گئی ہاؤسنگ سوسائٹیوں سے اربوں روپے بنائے گئے لیکن کوئی پوچھنے والا نہیں۔ اس معاملے کو اب مستقبل بنیادوں پر حل کرنے کی ضرورت ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved