ویسے تو زندگی میں کئی بار یہ خیال آیا لیکن عمر کی اس ڈھلوان پر تو اکثر یہ سوچتا ہوں کہ اگر واقعی اس نظام‘ اس کائنات کا کوئی خالق نہ ہوتا تو یہ کتنی لرزہ خیز اور جان نکال دینے والی صورتحال ہوتی۔اس کائنات میں کروڑوں اللہ کے بندے وہ ہیں جو سمجھتے ہیں کہ یہ کائنات کسی طرح‘ کسی بھی طرح ازخود پیدا ہوئی گئی۔ یہ پیچیدہ نظام کسی طرح‘ کسی بھی طرح ازخود چل رہا ہے۔ اس زندگی سے پہلے کوئی زندگی نہیں تھی اور اس کے بعد کوئی زندگی نہیں ہے۔ اگر آدمی اس کا یقین کر لے تو یہ انتہائی لرزا دینے والی بات ہے۔ بے حد ڈراؤنی اور جان نکال لینے والی بات۔ کیسا یکلخت بے سہارا کر دینے والا خیال۔ اس میں زندگی سے بھروسہ ختم کر دینے والا کیسا اکیلا پن ہے۔ جب غالب نے کہا تھا:
وائے گر تیرا مرا انصاف محشر میں نہ ہو
اب تلک تو یہ توقع ہے کہ واں ہو جائے گا
یا جب احمد ندیم قاسمی نے سوچا تھا:
مرا کوئی بھی نہیں کائنات بھر میں ندیمؔ
اگر خدا بھی نہ ہوتا تو میں کدھر جاتا
یا جب جون ایلیا نے لکھا تھا:
بڑا بے آسرا پن ہے‘ سو چپ رہ
نہیں ہے یہ کوئی مژدہ‘ خدا نئیں
تو ان کا یقین‘ عقیدہ کچھ بھی ہو‘ انہوں نے اس لمحے‘ اس اکیلے پن‘ اس تنہائی‘ اس بے سہارا زندگی کا ذائقہ چکھا ہوگا جو ایسے یقین کے لازمی نتائج ہیں۔ انہوں نے ایک لمحے کیلئے سہی اس بے چارگی‘ بے بسی اور ہولناک تنہائی کو اپنے وجود میں بھرتے دیکھا ہوگا۔
اُن لوگوں کی زندگیوں کا مشاہدہ کریں جو دل و جان سے اللہ کو خالق و مالک مانتے ہیں‘ خواہ کتنی ہی بے عمل زندگیاں ہوں۔ اور ان لوگوں سے موازنہ کریں جوکسی خالق کو نہیں مانتے تو دلوں کی کیفیت میں زمین آسمان کا فرق نظر آئے گا۔ بے یقین کی زندگی خواہ مال‘ تہذیب‘ تمدن‘ چکا چوند‘ کامیابیوں کے جلو میں بسر ہوئی ہو‘ وہ ہولناک خلا کبھی پُر نہیں کر سکتی جو ہمیشہ دل میں گونجتا اور کہتا رہتا ہے کہ جلد ہی تمہیں مرنا ہے اور پھر کبھی زندہ نہیں ہونا۔ یہ تو اس شخص کی بات ہے جو دنیاوی کامیابیوں سے بھرا ہوا ہو۔ ذرا اس بے یقین کا تصور کیجیے جس کے پاس یہ بھی نہیں۔ دنیا بھی نہیں‘ یہ بھی نہیں اور وہ بھی نہیں۔ اس سے زیادہ خسارے کی زندگی کس کی ہے؟
اللہ پر دل سے یقین رکھنے والے کا وصف یہ بھی ہے کہ اس کے دل سے حمد پھوٹتی اور زبان تک رسا ہوتی ہے۔ ضیا الدین نعیم بھی ایسے ہی صاحبِ یقین شاعر ہیں۔ میں نے ادبی زندگی میں جو متوازن‘ معتدل‘ پُریقین‘ دل و دماغ کی یکجائی والے شاعر دیکھے ہیں‘ ضیا الدین نعیم ان کی ایک مثال ہیں۔ قرارِ دل کی چھوٹ ان کے چہرے کے اطمینان اور سکون کی صورت نمودار ہوتی ہے۔ انہیں جاننے والے جانتے ہیں کہ ان کا شعر ان کے باطن کی تصویر ہوا کرتا ہے اور درون و برون کی ہم آہنگی کسی کسی صاحبِ نصیب کو ملا کرتی ہے۔ ایسے شاعر کے چہرے پر سکون کیوں لہریں نہ لے کہ اس کے جسم میں خون نہیں سکون دوڑتا ہے۔ ان کا حمدیہ مجموعے ''اللہ بس‘‘ کا مطالعہ ایسے ہی سکون کا مطالعہ ہے۔ یہ ایسے صاحبِ یقین کا حمدیہ مجموعہ ہے جس نے رسم نبھانے کیلئے حمد نہیں لکھی بلکہ اس کے دل سے اُبلتے چشمے نے مٹی سے باہر نکلنے کا راستہ تلاش کیا۔ آسان راستہ نہیں لیکن نعیم کہتے ہیں:
بظاہر راستہ تیرا بہت دشوار لگتا ہے
مگر جو چل پڑے اس کیلئے آسان ہے یا رب!
نعیمِ عاجز و بے مایہ پر اتنا کرم تیرا
نہایت مہربانی ہے‘ بہت احسان ہے یا رب!
اس حمدیہ کتاب سے قبل ضیا الدین نعیم کا ایک شعری مجموعہ شائع ہو چکا ہے۔ ان کی شاعری کی بات چلی ہے تو غزل کے یہ شعر بھی سن لیجیے:
آپ کے ذوقِ سماعت پہ گراں گزرے گا
کچھ کہیں گے تو شکایت کا گماں گزرے گا
شارعِ عام سے ہٹ کر کوئی گوشہ ہوتا
یہ تو رستہ ہے یہاں سے تو جہاں گزرے گا
کچھ لگے گا تو سہی وقت پہنچنے میں اُنہیں
اور یہ وقت‘ سہولت سے کہاں گزرے گا
.........
کسی سے داد کے طالب‘ نہ ہاؤ ہو والے
عجیب لوگ ہیں ہم لوگ‘ جستجو والے
یہاں یہ امر‘ یقینی بنایا جاتا ہے
کہ سکھ کا سانس نہ لیں‘ سکھ کی آرزو والے
سئیں گے کیسے مرے زخم زخم سینے کو
کہاں سے ایسا ہنر لائیں گے رفو والے؟
اُدھر تو ایک سمندر ہے بے اصولی کا
اِدھر ہیں‘ عدل کی چھوٹی سی آبجو والے
لیکن 'اللہ بس‘ کی حمدیہ شاعری میں ضیا الدین نعیم کے ہاں ایک طمانیت اور سکون ملتا ہے۔ ان کے بیان میں نہ ابہام ہے‘ نہ پیچیدگی اور نہ زبردستی کے فلسفے۔ ان کے ایمان و تیقن نے انہیں ژولیدہ بیانی سے بھی دور رکھا ہے۔
سراب کو وہ سمندر خیال کرتا ہے
ترے سوا جو کسی سے سوال کرتا ہے
کہیں حسیب‘ کہیں منتقم‘ کہیں تواب
ہر ایک پر تُو نظر حسبِ حال کرتا ہ
...... ......
وہ بھی ہوں گے جن کو ڈھونڈے سے خدا ملتا نہیں
وہ بھی ہیں‘ دل ہو گئے جن کا مکاں اللہ کا
ایک جانب حمد میں مصروف ہے ریگ رواں
ذکر کرتا ہے ادھر کوہِ گراں اللہ کا
...... ......
حضور جس کے ہے سجدہ روا‘ بس ایک ہی ہے
ہمارا مالک و فرماں روا بس ایک ہی ہے
بڑا جو خود کو سمجھتے ہیں سب فریب میں ہیں
بڑائی اس کیلئے ہے‘ بڑا بس ایک ہی ہے
ضیا الدین نعیم صاحب کی حمد میں مناجات اس طرح گھلی ہوئی ہے جیسے دودھ میں شہد مل کر یک رنگ ہو جائے اور الگ نہ کیا جا سکے۔ انہوں نے طویل ردیفوں میں بھی غزلیہ آہنگ کی حمدیں لکھی ہیں اور خوب لکھی ہیں۔ ان کی ریاضتِ کلام ان کے مصرعے کو چست اور بیان کو تعقید سے پاک رکھتی ہے۔ وہ شعری محاسن کا لحاظ رکھتے ہیں چنانچہ یہ محاسن بھی انہیں ملحوظ رکھتے ہیں۔ ان کا لیاقت پور کے سرائیکی علاقے سے تعلق ہے اور اس لہجے کی سرائیکی حمدیں بھی مجموعے میں بہت پُرکیف ہیں۔
ضیا الدین نعیم صاحب ! اس حمدیہ مجموعے پر آپ کے اپنے شعر سے بہترکیا تبصرہ ہو۔ آپ نے کہا ہے:
یوں جانیے کہ دولتِ کونین مل گئی
اللہ پر یقین کی دولت اگر ملے
آپ کو یہ دولت کونین مبارک! اس یقین کے پُرجمال اظہار کی داد الگ سے قبول کیجیے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved