وطن اور ریاست ایک نہیں ہیں۔ وطن سے ہمارا تعلق جذباتی اور ریاست سے مفاداتی ہے۔ جذبات کا معاملہ یہ ہے کہ ان کی مصنوعی پیدائش ممکن ہے نہ افزائش۔
وطن سے ہمارا تعلق وہی ہے جو ماں باپ اور آباؤ اجداد سے ہوتا ہے۔ اس میں انتخاب کا حق ہمارے پاس نہیں ہوتا۔ یہ ہمارا فیصلہ نہیں ہے کہ ہم نے کہاں اور کس گھر میں پیدا ہونا ہے۔ ہم لیکن جہاں اور جس گھر میں پیدا ہوتے ہیں‘ اس جگہ اور اس گھر کے مکینوں سے ہمارا رشتہ اٹوٹ انگ ہوتا ہے‘ محبت سے لبریز۔ وطن سے رشتہ پیدائش کے ساتھ وجود میں آ جاتا ہے اور تادمِ مرگ قائم رہتا ہے۔
ریاست (ملک) ایک جدید ادارہ ہے اور اس سے ہمارا تعلق مفاداتی ہے۔ یہ انسان کی ضروریات ہیں جنہوں نے ریاست کو وجود بخشا۔ عام آدمی کے جان و مال اور عزت و آبرو‘ طاقتور کے ہاتھوں ہمیشہ خطرات میں گھرے رہے ہیں۔ اسے ایک ایسے اجتماعی نظام کی حاجت رہی ہے جو اس کے جان‘ مال اور آبرو کی حفاظت کر سکے۔ جیسے ایک گھر کو ایک چوکیدار کی ضرورت ہوتی ہے‘ ایسے ہی سماج کو بھی ایک محافظ چاہیے۔ ریاست دراصل سماج کی محافظ ہے۔ انسان نے اپنی بعض آزادیوں سے رضاکارانہ طور پر دست برداری اختیار کرتے ہوئے انہیں ریاست کو تفویض کر دیا۔ اس نے ریاست کو ٹیکس لگانے کا حق دیا۔ اسے یہ حق بھی دیا کہ وہ چاہے تو اس کی آزادی پر قدغن لگائے اور اجتماعی مفاد کے لیے اسے سزا بھی دے۔ ریاست کو طاقتور بنانے کے ساتھ‘ انسان نے اس کی آزادیوں پر قانون کا پہرہ بھی بٹھا دیا تاکہ 'ریاست‘ بھی اپنی حدود سے تجاوز نہ کرے۔ یہ سب اس لیے تھا کہ عام آدمی کے جان و مال کی حفاظت ہو۔
یہ قانون یا آئین کیا ہیں؟ آئین شہری اور ریاست کے درمیان ایک معاہدہ ہے۔ اس میں دونوں کے حقوق و فرائض طے ہیں۔ یہ ایک رضا کارانہ معاہدہ ہے۔ اگر ایک فریق یہ سمجھتا ہے کہ دوسرا معاہدے کی شرائط پوری نہیں کر رہا ہے تو وہ اس معاہدے سے الگ ہو سکتا ہے۔ یہ معاہدہ کسی وقت بھی وجود میں آ سکتا ہے۔ وطن کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ جس طرح والدین سے تعلق توڑا نہیں جا سکتا‘ اسی طرح وطن سے بھی تعلق ختم نہیں کیا جا سکتا۔ یوں سمجھیے کہ انسان‘ وطن کی تخلیق ہے اور ریاست انسان کی۔
بہت سے پاکستانی ہیں جن کا وطن پاکستان ہے مگر ملک امریکہ‘ برطانیہ یا کوئی اور ریاست ہے۔ انہوں نے ان ممالک میں سے کسی ایک کی شہریت لے رکھی ہے۔ اب وہ اس ملک کو ٹیکس دیتے اور اس کے ساتھ اس عہد کی پاسداری کرتے ہیں جو انہوں نے اس ریاست کے ساتھ کیا ہے۔ اسے شہریت کہتے ہیں۔ اس کے لیے وہ حلف اٹھاتے ہیں۔ بالکل ایسے ہی جیسے ہم کسی ادارے کی ملازمت کرتے اور اس کے ساتھ ایک معاہدہ کرتے ہیں۔ اس معاہدے کے تحت وہ اس ملک کے شہری قرار پاتے ہیں۔
میں بہت سے پاکستانیوں کو جانتا ہوں جو رہتے امریکہ میں ہیں مگر پاکستان سے محبت اور امریکہ سے نفرت کرتے ہیں۔ انہوں نے بے شمار جائز اور ناجائز حربے استعمال کر کے امریکہ کی شہریت لی۔ آج بھی ان کی شدید خواہش ہے کہ ان کی نسل میں کوئی ایک ایسا نہ ہو جو امریکہ نہ پہنچے اور وہ مسلسل اسی تگ و دو میں رہتے ہیں۔ اس کے باوصف وہ ہر وقت امریکہ کو گالی دیتے اور پاکستان کے گیت گاتے ہیں۔ ایسا کیوں ہے؟ پاکستان ان کا وطن ہے جس سے ان کا تعلق جذباتی ہے۔ امریکہ ان کا ملک ہے جس سے تعلق مفاداتی ہے۔ امریکہ کا کھانا اور اس کو گالی دینا‘ کیا اخلاقاً ایک درست عمل ہے؟ میں اس بحث میں پڑے بغیر اس وقت اپنی توجہ اس نکتے پر مرتکز رکھنا چاہتا ہوں کہ وطن اور ملک میں فرق ہوتا ہے۔
جن لوگوں کا وطن اور ملک ایک ہے‘ ان کے لیے یہ فرق زیادہ اہم نہیں ہوتا۔ ان کے نزدیک وطن اور ملک سے بیک وقت محبت کی جا سکتی ہے اور دونوں کے ساتھ تعلقات میں کوئی تضاد نہیں۔ مثال کے طور ایک پنجابی کے لیے یہ فرق قابلِ ذکر نہیں ہے۔ اس کے آباؤ اجداد بھی یہیں کے تھے اور جدید حالات نے بھی اسی خطے کو اس کا ملک بنا دیا ہے۔ دوسری طرف یو پی سے پاکستان آ کر آباد ہو نے والے کا معاملہ یہ نہیں ہے۔ وہ اسی کشمکش میں جیتا ہے جس میں ایک پاکستانی امریکی مبتلا رہتا ہے۔ یہی معاملہ ایک بلوچ اور پختون یا سندھی کا بھی ہے۔
آج یہاں بسنے والوں کو پاکستان سے شکایت ہوتی ہے لیکن کسی پنجابی کو پنجاب سے یا کسی سندھی کو سندھ سے اور کسی بلوچ کو بلوچستان سے کوئی شکایت نہیں۔ کوئی یہ سوال نہیں اٹھاتا کہ بلوچستان نے مجھے کیا دیا یا سندھ نے مجھے کیا دیا؟ وہ یہ سوال اٹھاتا ہے کہ پاکستان نے مجھے کیا دیا؟ ہم اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے بجائے اس کی حب الوطنی پر سوالات اٹھاتے اور اسے غدار قرار دے کر اس کی آواز کو بند کرنا چاہتے ہیں۔ ہم یہ حرکت اس لیے کرتے ہیں کہ ہم وطن اور ریاست کے فرق کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ پاکستان اس کا وطن ہے‘ درآں حالیکہ پاکستان ان کا ملک ہے۔
پاکستان ایک ریاست ہے جو 14 اگست 1947ء کو وجود میں آئی۔ یہ اسی اصول کے تحت قائم ہوئی جس کے تحت بیسویں صد ی کی دوسری ریاستیں قائم ہوئیں۔ اس کی بنیاد بھی آئین ہے۔ ہم آج بھی رونا روتے ہیں کہ کئی برس تک ہم پاکستان کو آئین نہیں دے سکے اور اس بے آئینی نے ریاست کے لیے پیچیدگیوں میں اضافہ کیا۔ ہم یہ اس لیے کہتے ہیں کہ پاکستان بننے کے بعد ریاست کے لیے‘ یہاں بسنے والوں کے ساتھ ایک معاہدہ کرنا لازم تھا تاکہ 'پاکستان‘ کے ساتھ ان کا تعلق طے ہو جاتا۔ پنجاب کے ساتھ اپنا تعلق واضح کرنے کے لیے ایک پنجابی کو کسی آئین کی ضرورت نہیں لیکن پاکستان کے ساتھ تعلق کے لیے ضروری ہے۔ یہ اتنا اہم معاملہ تھا کہ آج جب ہم مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے اسباب تلاش کرتے ہیں تو بے آئینی کو اس کی ایک وجہ قرار دیتے ہیں۔ جب ریاست اکائیوں کے حقوق ہی طے نہ کر سکی تو ان میں اضطراب کا پیدا ہونا یقینی تھا۔
ہم آج بھی اس فرق کو نہیں سمجھتے۔ ہم بضد ہیں کہ لوگ پاکستان کو وطن مانیں۔ وہ اس سے کوئی مطالبہ کریں اور نہ اسے کسی محرومی کا ذمہ دار ٹھہرائیں۔ یہ ایک غیر فطری مطالبہ ہے۔ پاکستان کے ساتھ عوام کا رشتہ اسی وقت مضبوط ہو گا جب ریاست شہریوں کے مفادات کا تحفظ کرے گی۔ جب وہ ایسا نہیں کرے گی تو محض نغمے سنا کر پاکستان سے شہری کا تعلق مضبوط نہیں کیا جا سکتا۔ ریاست کے لیے لازم ہے کہ وہ عام شہری کے جان و مال اور اس کو عزت کی حفاظت کرے۔ اس کے بنیادی حقوق کا احترام کرے اور کروائے۔ آج ایک آدمی‘ جس کا وطن پنجاب یا سندھ ہے اور وہ امریکہ یا یورپ کے کسی ملک کا شہری ہے‘ اگر پاکستان نام کے 'ملک‘ میں کسی مسئلے سے دوچار ہوتا ہے تو اس ملک کا سفارت خانہ اس کے حق میں فوراً متحرک ہو جاتاہے‘ وہ جس کا شہری ہے۔ ایک ریاست دوسری ریاست کو یہ اجازت نہیں دیتی کہ وہ اس کے شہری کے مفادات کو نقصان پہنچائے‘ چاہے یہ 'دوسری ریاست‘ اس علاقے پر مشتمل ہو جو اس کا آبائی وطن ہے۔
پاکستان کو مضبوط بنانے کے لیے ضروری ہے کہ پالیسی سازی کی سطح پر لوگ وطن اور ریاست کے فرق کو جانیں۔ ریاست سے شہریوں کی شکایتیں دور کریں۔ انہیں جواب میں ملی نغمے سنا کر ان کا جذباتی استحصال نہ کریں۔ جذبات کی مصنوعی پیدائش ممکن ہے نہ افزائش۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved