گزشتہ دنوں تحفظ پاکستان آرڈی نینس جاری ہوا‘ اس کے تحت دہشت گردوں اور ریاست کے دشمنوں کے خلاف سخت کارروائی کے لئے الگ عدالتیں‘ تھانے اور جیلیں قائم ہوں گی۔مجرموںکو پکڑنے کے لئے سکیورٹی ایجنسیز اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی مشترکہ ٹیمیں بنیں گی۔ جرائم کے مقدمات کے فوری اندراج اور تحقیقات کے لئے الگ پولیس اسٹیشن قائم ہوں گے۔ مقدمات کی پیروی اور تحقیقات کے لئے وفاقی پراسیکیوٹرز تعینات کئے جائیں گے۔ یہ درست ہے کہ ملک میں امن و امان کی صورتحال تشویشناک حد تک خراب ہو چکی ہے، لیکن کراچی میں جہاں قانون نافذ کرنے والے ادارے بے بس کر دیئے گئے تھے‘ وہاں پہلے سے موجود اداروں کے ذریعے ہی امن قائم کرنے کی مہم جاری ہے اور ابھی تک کی اطلاعات یہ ہیں کہ پولیس اور رینجرز کا مشترکہ آپریشن کامیاب جا رہا ہے۔ جہاں تک دہشت گردی کا تعلق ہے‘ اس کے بیشتر مراکز ختم کئے جا چکے ہیں۔ صرف شمالی وزیرستان ایک ایسا علاقہ ہے‘ جہاں دہشت گردوں نے مضبوطی سے قدم جما رکھے ہیں۔ باقی ایجنسیوں کے بارے میں یہ فیصلہ آ چکا ہے کہ وہاں پر موجود دہشت گردوں کے ساتھ مذاکرات نہیں ہوں گے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ پاک فوج نے بھرپور کارروائیوں میںدہشت گردوں کو عملاً شکست دے دی ہے اور اب وہ جان بچاتے پھر رہے ہیں۔ خیال یہی ہے کہ اگر مذاکرات ہوئے بھی تو وہ تحریک طالبان پاکستان تک محدود رہیں گے۔ اس کا امکان بھی زیادہ نہیں۔ اطلاعات یہ ہیں کہ ٹی ٹی پی میں شامل مختلف گروہ خود مذاکرات کے خواہش مند ہیں اور ان میں اتفاق رائے نہیں ہو رہا کہ سب کی طرف سے کونسی مذاکراتی ٹیم‘ حکومتی نمائندوں کے ساتھ بیٹھے گی؟ فاٹا میں دہشت گردوں کا زور مجموعی طور پر ٹوٹ چکا ہے اور وہاں پر سکیورٹی فورسز نے جتنی بھی کامیابیاں حاصل کی ہیں‘ وہ رائج الوقت قوانین کے تحت ہی ملیں۔ سوال یہ ہے کہ غیرمعمولی قوانین اور اضافی اداروں کی ضرورت کیوں آن پڑی؟ میں اس آرڈی نینس کو کسی اور انداز میں دیکھ رہا ہوں۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اس آرڈی نینس کا ہدف صرف دہشت گرد نہیں۔اسے عام شہریوں تک پھیلا دیا گیا ہے اور خصوصی اختیارات رکھنے والے نئے اداروں کو ‘ عام شہریوں کی آزادیاں سلب کرنے کے اختیارات بھی دے دیئے گئے ہیں۔ یہ آرڈی نینس پارلیمنٹ میں جائے گا‘ تو اراکین‘ یقینی طور پر اس کا بغور مطالعہ کریں گے۔ انہیں یہ بات پیش نظر رکھنا چاہیے کہ خصوصی اختیارات رکھنے والے یہ ادارے‘ شہریو ں کے آئینی حقوق پر ہاتھ نہ ڈال سکیں۔ پاکستان میں قانون نافذ کرنے والے اداروں کو پہلے ہی اختیارات کی کمی نہیں۔ وہ آج بھی جس شہری کو چاہیںاٹھا لیتے ہیں۔ تشدد کا نشانہ بناتے ہیں۔ اغوا کر کے غائب کر دیتے ہیں۔ عدلیہ ایک مدت سے لاپتہ افراد کی بازیابی کے احکامات جاری کر رہی ہے مگر ان پر عمل نہیں ہو رہا۔ آج بھی بلوچستان کے وزیراعلیٰ نے اپنی ناکامی کا اعتراف کرتے ہوئے بے بسی کا اظہار کیا کہ وہ لاپتہ افراد میں سے کسی کو واپس نہیں لا سکے۔ یہ عدلیہ اور سول انتظامیہ دونوں کی بے بسی ہے۔ ظاہر ہے‘ یہ سکیورٹی فورسز ہی کے اختیارات ہیں‘ جن کی وجہ سے لاپتہ افراد پر نہ مقدمے چلائے جا سکے اور نہ انہیں رہا کیا گیا۔ ریاست کو اس سے زیادہ اور کتنے اختیارات چاہئیں؟ اگر نئے آرڈی نینس کے اجرا کے وقت پر توجہ دیں‘ تو پتہ چلتا ہے کہ یہ کسی اور ہی کام کی تیاریاں ہیں۔ اگلے چند ماہ کے دوران پاکستان میں 68سرکاری اداروں کو نجی شعبے کے حوالے کیا جا رہا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ان میں سے بیشتر ادارے نفع کما رہے ہیں۔ سرکاری انتظام میں چلنے والے اداروں سے معاشرے کو دو فائدے پہنچتے ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں ہزاروں افراد کا روزگار لگا ہوا ہے اور دوسرے یہ کہ ان میں حکومتی محصولات کی چوری نہیں کی جاتی، جتنی چوری نجی اداروںمیں ہوتی ہے۔ ماضی کے تجربات شاہد ہیں کہ نجکاری کے اس عمل میں کھلی لوٹ مار کی جاتی ہے۔ 20 سے 30فیصد کے درمیان پیسے لے کر‘ پورے کا پورا ادارہ نجی شعبے کو دے دیا جاتا ہے اور عام طور پر دیکھنے میں آیا ہے کہ خریدنے والا جتنی رقم دے کر پورے ادارے پر قبضہ جما لیتا ہے‘ اتنی رقم اس ادارے کے بنکوں میں موجود ہوتی ہے یا اتنی مالیت کا سٹاک پڑا ہوتا ہے اور بیشتر حالات میں اس کے اثاثوں کی قیمت ادا شدہ رقم سے کئی گنا زیادہ ہوتی ہے۔ یہ عوامی اداروں کی کھلی لوٹ مار ہے۔ پیپلزپارٹی اس گناہ میں شامل ہونے سے گریزاں رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے دورمیں بیروزگاروں کو ملازمتیں تو ملی ہیں مگر اس نے لوگوں کو بڑی تعدادمیں بیروزگارنہیں کیا۔ یہ کام مسلم لیگ(ن) کے دور میں ہی ہواہے اور ان دونوں ادوار کی نجکاریوں کے قصے کہانیاں آج بھی زبان زدعام ہیں۔ اب 68بڑے بڑے اداروں کالوٹ سیل میں نجی اداروں کے ہاتھ لگ جانا‘ ریاست کی کمر توڑنے کے مترادف ہو گا۔حکومت کا دارومدار محض ٹیکسوں کی وصولی پر رہ جائے گا اور جتنا ٹیکس ہمارے محکمے وصول کرتے ہیں‘ اس میں ریاستی اخراجات پورے کرنامزید مشکل ہو جائے گا۔ حکومت پہلے ہی قرض اٹھانے اور نوٹ چھاپنے پر مجبور ہے۔ جو چند ادارے نقصان میں چل رہے ہیں‘ درحقیقت اس کی وجہ کرپشن اور بدانتظامی ہے۔ یہی اسٹیل ملز تھی جو جنرل قیوم کے زمانے میں نفع دینے لگی تھی۔ یہی پی آئی اے تھی‘ جو سائز میں چھوٹا ہونے کے باوجود بھاری نفع کماتی تھی۔ یہی ریلوے تھی‘ جو عوام کو سہولتیں دینے کے علاوہ فائدے میںتھی اور بہت سے ادارے‘ جنہیں لوٹ سیل پر لگا دیا گیا ہے‘ اب بھی نفع دے رہے ہیں۔ ان کی نجکاری کے نتیجے میں ہزاروں افراد بیروزگار ہو جائیں گے۔ بے چینی کی لہر ابھی سے پیدا ہونے لگی ہے۔ حکومت کو اس کا پورا اندازہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ لوٹ سیل شروع کرنے سے پہلے حکومت نے تحفظ پاکستان کے نام پر شہری آزادیاں سلب کرنے اور جیلیں بھرنے کے لئے تحفظ پاکستان آرڈی نینس جاری کر دیا ہے۔ اس میں آئینی تقاضوں کو نظرانداز کرتے ہوئے‘ ایسے ’’جرائم‘‘ بھی شامل کر دیئے گئے ہیں جن کا ارتکاب کرنا ضروری نہیں ہو گا۔ خصوصی پولیس اور سکیورٹی کے لوگ جسے چاہیں گے اٹھا کر قید خانوں میں ڈال دیں گے اور اس کے جرم کے بارے میں یہ کہنا کافی ہو گا کہ ’’وہ خوف و ہراس پھیلا رہا تھا۔‘‘ حالانکہ اس جرم کا ارتکاب خود اس آرڈی نینس کے نفاذ کی صورت میں ہو چکا ہے۔ کونسا شریف اور قانون پسند شہری ہے‘ جو اس آرڈی نینس کو دیکھ کر خوف و ہراس میں مبتلا نہیں ہوا۔ پاکستان میں پہلے سے جو قوانین اور فورسز کے اختیارات موجود ہیں‘ ان کے ہوتے ہوئے اگر دیانتداری سے کام کیا جائے‘ تو امن و امان کی صورتحال کنٹرول میں لائی جا سکتی ہے۔ دہشت گردوں کے خلاف فوج کو کارروائی کی کھلی چھٹی مل جائے‘ تو ان کے آخری مراکز بھی ختم ہو سکتے ہیں۔ فاٹا کی دیگر ایجنسیوں میں فوج یہ کام پہلے ہی کر چکی ہے۔ تحفظ پاکستان آرڈی نینس‘ درحقیقت مزدوروں کی آنے والی جدوجہد کو کچلنے کے لئے پیش بندی کے طور پر نافذ کیا گیا ہے۔ بے لگام ریاستی اختیارات اور دہشت گردی‘ دونوں ہی ایک حقیقت کے دو روپ ہیں۔ دہشت گردی معاشرے میں بے اطمینانی اور خوف و ہراس پیدا کرتی ہے، جس کا فائدہ حکمرانوں اور استحصالی طبقوں کو پہنچتا ہے۔ ریاست کے ہاتھوں میں بے لگام اختیارات بھی اسی مقصد کے تحت دیئے جاتے ہیںکہ سیاسی مخالفین اور اپنے حقوق کے لئے جدوجہد کرنے والوں کو آسانی سے جکڑا جا سکے۔ آپ نے 25اکتوبر کو روزنامہ ’’دنیا‘‘ کے صفحات پر ایک مضمون دیکھا ہو گا‘ جس میں بتایا گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں ‘ محنت کشوں کی تحریکیں کچلنے کے لئے کیا کچھ کرتی ہیں؟ یہ نسخے یورپ اور امریکہ میں آزمائے جا چکے ہیں۔ لیکن پاکستان میں جہاں محروم طبقوں کے پاس صبر کی گنجائش ہی نہیں اور لوگ ابھی سے مرنے مارنے پر تلے نظر آتے ہیں‘ نجکاری کے نتیجے میں بیروزگار ہونے والوں کی احتجاجی تحریک بارش کا پہلا قطرہ ثابت نہ ہو؟پاکستانی معاشرہ پہلے ہی ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے۔یہ بدامنی کی نئی لہروں کا دبائو برداشت کرنے کے قابل نہیں۔ نہ ریاست میں دم خم ہے۔ نہ معاشرے میں۔ موجودہ معاشی بحران‘ کرپشن اور لوٹ کھسوٹ کے نتیجے میں پیدا ہوا۔ اس کا حل مزید لوٹ کھسوٹ اور کرپشن نہیں‘ انہیں ختم کرنے میں ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved