جنرل عاصم منیر نے ایک تیر سے کئی شکار کر لیے ہیں۔ سب سے پہلے تو انہوں نے میڈیا اور سیاست میں ناقدین کے منہ بند کرا دیے ہیں جو ہر وقت کہتے تھے کہ احتساب صرف سیاستدانوں کا ہی کیوں ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاستدانوں کو ہی‘ چاہے وہ وزیراعظم ہوں یا وزرا‘ پھانسی کیوں چڑھایا جاتا ہے یا عمر قید یا پھر جلاوطنی کی سزا دی جاتی ہے۔ کوئی فوجی افسر بڑے سے بڑا جرم کر لے تو بھی کوئی اسے چھونے کی جرأت نہیں کر سکتا۔ اب کم از کم فوج کہہ سکتی ہے کہ اگر سیاسی حکمرانوں کا احتساب ہو سکتا ہے تو ہم نے بھی اپنے ٹاپ جنرلز کا احتساب شروع کر دیا ہے۔ جنرل فیض حمید کے علاوہ تین مزید ریٹائرڈ افسران بھی گرفتار کر لیے گئے ہیں۔ بہت کم لوگ جانتے ہوں گے کہ جنرل عاصم منیر پر بہت دباؤ تھا کہ وہ فیض حمید یا کسی اور ٹاپ جنرل کے احتساب کا دروازہ نہ کھولیں کیونکہ ایک دفعہ یہ روایت قائم ہو گئی تو پھر ہر فوجی جنرل کو دھڑکا لگا رہے گا کہ کسی روز‘ آدھی رات کو اس کے گھر کے دروازے پر بھی دستک ہو سکتی ہے‘ لیکن لگتا ہے کہ جنرل عاصم منیر اس دباؤ کا شکار نہیں ہوئے اور بڑا فیصلہ کر کے اسے اناؤنس بھی کر دیا۔
اگر آپ کو یاد ہو تو سپریم کورٹ نے 2012ء میں اس سے ملتا جلتا حکم دیا تھا جب ایئر مارشل (ر) اصغر خان کیس میں اس وقت کے آرمی چیف جنرل اشفاق پرویز کیانی کو ہدایت دی گئی تھی کہ وہ اپنے دو سابق جرنیلوں کا کورٹ مارشل کریں‘ لیکن جنرل کیانی نے ان کا کورٹ مارشل کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ ایک جنرل اسلم بیگ اور دوسرے جنرل اسد درانی تھے۔ ان پر الزام تھا کہ بینظیر بھٹو کو 1990ء کا الیکشن ہرانے کیلئے انہوں نے پاکستانی سیاستدانوں میں چودہ کروڑ روپے بانٹے تھے۔ لیکن جنرل کیانی نے انہیں بچا لیا تھا۔ وہی بات کہ ایک دفعہ راستہ کھل گیا تو کل کلاں کو جنرل کیانی پر بھی کوئی مقدمہ قائم ہو کر ان کا کورٹ مارشل ہو سکتا تھا۔ لیکن اس معاملے میں جنرل عاصم منیر نے اس نفسیاتی دباؤ کو خود پر حاوی نہیں ہونے دیا۔ اس فیصلے کے پیچھے وجوہات کچھ بھی ہوں لیکن یہ طے ہے کہ یہ بہت بڑا فیصلہ ہے جس نے ایک دفعہ تو سب کو ہلا دیا ہے۔
اس تیر کا دوسرا شکار عمران خان ہوئے ہیں جو بہت پُراعتماد تھے کہ مقتدرہ ان کے خلاف کوئی بڑی کارروائی نہیں کر سکے گی‘ خصوصاً نو مئی کے واقعات کے حوالے سے۔ اسی اعتماد کا نتیجہ تھا کہ وہ بار بار جنرل عاصم منیر اور دیگر دو اعلیٰ فوجی افسران کے نام لے کر ان سے بدلہ لینے کی باتیں کر رہے تھے۔ وہ تو اب اتنے پُراعتماد تھے کہ اگلے دو ماہ میں حکومت کے خاتمے کی باتیں کر نے لگے تھے۔ وہ یوں تاثر دے رہے تھے جیسے ان کی مقتدرہ سے ڈیل ہوگئی ہو۔ تاہم جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری سے پی ٹی آئی کو بہت بڑا پیغام ملا ہے کہ اگر وہ اپنے سابق ڈی جی آئی ایس آئی کا ٹرائل کر کے سزا دے سکتے ہیں تو پھر چھوڑا کسی کو بھی نہیں جائے گا۔ جہاں تک سزا کی بات ہے تو ذرائع کہہ رہے ہیں کہ جنرل فیض حمید کے خلاف جتنے ثبوت موجود ہیں وہ انہیں تختے تک پہنچا سکتے ہیں۔ بتایا جارہا ہے کہ انہیں ایسی سزا ہو سکتی ہے جو اس سے پہلے کسی جنرل کو نہیں دی گئی۔ ذرائع کے مطابق جنرل (ر) فیض حمید کے خلاف چند گرفتار افسران اور سویلین بہت جلد وعدہ معاف گواہ بن کر سامنے آنے والے ہیں جس سے کورٹ مارشل سماعت کے بعد انہیں سخت سزا سنائی جا سکتی ہے۔ فیض حمید کی گرفتاری سے یہ سوال بھی پیدا ہوا ہے کہ ہر دفعہ ڈی جی آئی ایس آئی وزیراعظم کے ساتھ ہی کیوں مل جاتا ہے؟ وہ اچانک آرمی چیف کے بجائے وزیراعظم کا وفادار کیوں ہو جاتا ہے؟ کیا اُس پر آرمی چیف بننے کا خبط سوار ہو جاتا ہے؟
مجھے اس وقت دو لوگ یاد آ رہے ہیں جنہوں نے بطور ڈی جی آئی ایس آئی‘ جی ایچ کیو اور وزیراعظم ہاؤس کی لڑائی میں وزیراعظم آفس کا ساتھ دیا تھا‘ یہ دونوں ناکام ہوئے اور بعد ازاں مقدمات بھگتے۔ پہلے جنرل ضیا الدین بٹ ہیں‘ جو 12 اکتوبر 1999ء کو ڈی جی آئی ایس آئی تھے۔ وہ نواز شریف کے ساتھ مل گئے اور جنرل پرویز مشرف کو برطرف کرانے کے بعد خود آرمی چیف بن بیٹھے۔ اس وقت پورا جی ایچ کیو ایک طرف کھڑا تھا لیکن جنرل ضیا الدین بٹ آرمی چیف بن کر وزیراعظم کے ساتھ کھڑے تھے۔ پھر جنرل ضیاء الدین بٹ بھی گرفتار ہوئے کیونکہ انہیں باقی جرنیلوں کی سپورٹ نہیں ملی تھی اور یوں جنرل پرویز مشرف نے اقتدار پر قبضہ کر لیا۔ جس کی سزا میاں نواز شریف اور جنرل بٹ دونوں نے بھگتی۔
دوسرے جنرل (ر)فیض حمید ہیں جنہوں نے جنرل ضیا الدین بٹ والا رُوٹ لیا اور اپنے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے حکم اور پالیسی کے برعکس وزیراعظم عمران خان کے ساتھ وفاداری نبھانے کا فیصلہ کیا۔ وجہ وہی تھی کہ عمران خان انہیں آرمی چیف بنا سکتے تھے‘ جنرل باجوہ نہیں۔ اگر آپ کو یاد ہو تو چھ اکتوبر 2021ء کو آئی ایس پی آر نے جنرل باجوہ کے اس حکم کی پریس ریلیز جاری کی جس میں بتایا گیا تھا کہ ڈی جی آئی ایس آئی جنرل فیض حمید کو کورکمانڈر پشاور اور ان کی جگہ کورکمانڈر کراچی ندیم انجم کو نیا ڈی جی آئی ایس آئی لگا دیا گیا ہے‘ تاہم حیران کن طور پر وزیراعظم عمران خان نے یہ تبادلہ ماننے سے انکار کر دیا تھا۔ اس وقت یہ سمجھا گیا تھا کہ عمران خان کے اس انکار کے پیچھے بھی فیض حمید تھے جو ٹرانسفر نہیں چاہتے تھے۔ خود عمران خان ان کی ''پرفارمنس‘‘ کے بہت عادی ہو چکے تھے کیونکہ فیض حمید بھی ہمارے مرحوم وزیر داخلہ رحمن ملک کی طرح اس کلاس سے تعلق رکھتے تھے جو باس کو قانون قاعدہ سمجھانے کے بجائے کام کرکے رپورٹ کرنے پر یقین رکھتے تھے۔ باس کو ناں نہیں کرنی اور جیسا بھی کام ہو‘ اسے مکمل کرکے باس کو رپورٹ دینی ہے۔ عمران خان کو اس لیے فیض حمید پسند تھے کہ وہ انہیں جج‘ میڈیا‘ عدالتیں‘ مخالفین‘ نیب اور باقی سب مینج کرکے دے رہے تھے۔ عمران خان کے منہ سے بات نکلنے کی دیر ہوتی تھی اور ادھر کام ہو جاتا تھا۔ لیکن عمران خان بھی جنرل (ر)فیض حمید کو نہ بچا سکے جیسے نواز شریف اپنے جنرل ضیا الدین بٹ کو نہ بچا سکے تھے۔
اگرچہ جنرل ضیا الدین بٹ گرفتار ہو کر گھر پر قید رہے لیکن جنرل فیض ریٹائرمنٹ کے بعد بھی ایکٹو رہے۔ شاید وہ گھر بیٹھ کر اپنے زخم چاٹنے پر یقین نہیں رکھتے تھے۔ انہوں نے عمران خان کے ذریعے ہر ممکن کوشش کر کے دیکھ لی کہ کس طرح جنرل عاصم منیر کا راستہ روکا جائے۔ چاہے وہ لانگ مارچ ہوں‘ دھرنے ہوں‘ صدر علوی کے ذریعے سمری رکوانی ہو یا آخری لمحے پر جنرل باجوہ کو چھ ماہ کی مزید توسیع دینے کا اعلان کرانا ہو‘ آپ کو ہر جگہ فیض حمید کے پرنٹس نظر آئیں گے۔ فیض حمید جنرل رضوان کی طرح خاموش ہو کر گھر بیٹھنے والوں میں سے نہیں تھے جنہیں جنرل باجوہ نے چیف بنتے ہی ڈی جی آئی ایس آئی کے عہدے سے ہٹایا تھا کیونکہ انہیں شک تھا کہ وہ ان کو چیف بننے سے روکنے کیلئے مہم چلا رہے تھے۔
جنرل (ر)فیض حمید نے بھی اپنے سکور سیٹل کرنے کی ٹھان لی۔ وہ چاہتے تو خود کو سمجھا سکتے تھے کہ انہوں نے اپنے تئیں آرمی چیف بننے کیلئے ہر جتن کر کے دیکھ لیا۔ اب وہ قسمت کا لکھا مان کر دوسرے ریٹائرڈ افسران کے ساتھ گالف کھیلیں۔ لیکن وہ ریٹائرمنٹ کے بعد بھی سیاسی طور پر ایکٹو رہے اور ایسے ایکٹو رہے کہ ان کا اب کورٹ مارشل ہو رہا ہے۔ کچھ واقف کاروں کا کہنا ہے کہ جنرل (ر) فیض حمید آرمی چیف تو نہ بن سکے لیکن اقتدار اور حکمرانی کی دوڑ ہارنے کے بعد اب شاید فوجی عدالت سے ایسی سزا کا سامنا کریں جو پاکستانی تاریخ میں آج تک کسی جنرل کو نہیں دی گئی۔ وہی پرانی بات کہ اقتدار کی جنگ میں جان لینی بھی پڑتی ہے اور جان دینی بھی پڑتی ہے۔ باقی آپ سمجھدار ہیں کہ یہ جان لینے کا وقت ہے یا جان دینے کا۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved