یومِ آزادی مبارک۔ 14 اگست کی صبح دوستوں کو بھی پہلا پیغام یہی لکھا‘ اور شام چند دوستوں کو اپنے جنگل میں جشنِ آزادی منانے کے لیے کھانے کی دعوت پر مدعو کیا۔ ہم جہاں بھی رہے‘ کسی نہ کسی انداز میں یومِ آزادی ضرور منایا ہے۔ کبھی نئے کپڑے پہن کر‘ اچھا کھانا کھلا کر اور کبھی پارکوں‘ جنگلوں‘ پہاڑوں اور دریاؤں کے کنارے کوسوں میل پیدل چل کر۔ کچھ برس پہلے ایک بڑے انگریزی اخبار کے ایڈیٹر کہتے تو اس دن کی مناسبت سے ایک مضمون لکھنا بھی ہمارے یومِ آزادی کا حصہ تھا۔ یہ کالم میں 14اگست‘ بدھ کے دن‘ صبح چھ کلو میٹر واک‘ کچھ معمول کی ورزش‘ تین گلاس لیموں پانی اور ایک کپ چائے کا پینے کے بعد لکھ رہا ہوں۔ یہ آزادی ہم روزانہ مناتے ہیں۔ یہ میرے سیاسی ایمان کا حصہ ہے کہ اگر یہ ملک آزاد نہ ہوتا تو میں وہ نہ ہوتا جو آج ہوں۔ حقیقت تو یہ ہے کہ آپ بھی وہ نہ ہوتے جو آپ بن پائے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ میں اپنے والد بزرگوار کے ساتھ مقامی سطح پر کوئی کاروبار کر رہا ہوتا‘ یہ بھی ممکن تھا کہ نانا جی‘ جن سے بہت محبت تھی‘ کی بھیڑوں کا چرواہا ہوتا۔ ویسے کبھی کبھار دل کرتا ہے کہ بھیڑوں کا گلہ میرے آگے ہو اور میں دریائے سندھ کے کنارے دھول کے بادلوں میں سرمائی سورج کی آخری شعاعوں کو بل کھاتے پانیوں کے آئینے میں دیکھتا رہوں۔ آج بھی جب بھیڑوں کے ریوڑ کو اپنے علاقے میں دیکھتا ہوں تو اندر کا دیہاتی گڈریا کتابوں کے صفحات کو پھاڑ کر اپنا چہرہ دکھانا شروع کر دیتا ہے۔ چرواہا بھی صبحِ آزادی کی علامت ہے۔ کلاسیکی موسیقی میں سے جیمز لاسٹ کا ''لونلی شیفرڈ‘‘ میرے پسندیدہ فن پاروں میں سے ہے۔ اس موضوع پر پھر کبھی کہ ہم ایک گڈریے کو روحانی پیشوا اور رہبر کے طور پر بھی لیتے ہیں۔
تحریک آزادی کے بارے میں ان صفحات پر لکھنا شاید میرے نزدیک تاریخ نہیں‘ ذاتی رائے ہی خیال کی جائے گی۔ تاریخ کے قواعد و ضوابط‘ ماخذ‘ تحقیقی مواد اور اہلیت کے تقاضے کچھ اور ہیں۔ مختلف آرا آزادی سے پہلے بھی موجود تھیں‘ ہمیشہ رہی ہیں اور کبھی ختم نہ ہوں گی۔ میرے نزدیک یہ بحث عبث ہے کہ ہمارے بانی اکابرین کس نوع کا ملک بنانا چاہتے تھے۔ وہ کیوں نہ بن سکا اور ہم کیوں اندھیری فضاؤں میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیں۔ اس دور کی غالب مسلم اشرافیہ اور مسلمانوں میں کہیں کم اور کہیں زیادہ اتفاق آزاد مملکت پر تھا۔ ایسے بھی مسلم رہنما تھے جو سیاست‘ معاشرے اور استعمار کے خلاف جدوجہد میں اعلیٰ مقام رکھتے ہیں‘ جو متحدہ ہندوستان کے حامی تھے۔ اب بھی ایسے دانشور موجود ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر سب کی آرا کا احترام ہے‘ اور ہر ایک کے مؤقف میں ان حالات کے مخصوص تناظر میں وزن ہے۔ زمینی حقیقت یہ ہے کہ ہم آزاد ریاست ہیں۔ کتنے آزاد ہیں‘ اس بحث میں سیاسی رنگوں کی بھرمار ہے۔ اور اس پر بھی اَن تھک دائمی بحث جاری رہے گی کہ حقیقی آزادی کیا ہے‘ جس کا مفہوم ہر سماجی گروہ اور شخصی افتادِ طبع کے نزدیک بالکل مختلف ہے۔ سیاسی مفادات اور نظریاتی رجحانات کا اس بحث میں عمل دخل کہیں زیادہ ہے۔ جمہوریت‘ آئین کی بالادستی‘ قانون کی حکمرانی اور انصاف جدید دور کی ہر ریاست کے استحکام کی ضمانت ہیں۔ اور بھی کچھ راستے ہیں جن کے تجربات سے ہم چار دفعہ گزرے ہیں۔ اب ایک عرصہ سے مہروں کے کھیل تماشوں میں ہماری قومی زندگی کے شب و روز جیسے بھی گزر رہے ہیں‘ بس گزر رہے ہیں ۔ آزاد تو ہیں‘ بس یہ بھی بڑی بات ہے۔ یہ سمجھ لیں کہ اسباب و وسائل تو ہیں‘ کاررواں بھی پُرعزم‘ محنت کار‘ مٹی سے جڑا ہوا اور قربانیوں کے جذبے سے لبریز‘ مسئلہ تو میرِ کارواں کا ہے کہ صورتیں تو ادھر کی لگتی ہیں مگر یہ ملک تو ان کے لیے چراگاہ ہے۔ کھا پی کر وہیں جائیں گے جہاں سرمائے محفوظ ہیں۔ ہم ابھی مایوس نہیں‘ موروثیوں سے بھی آزادی ہمیں تو کوئی دور نہیں لگتی۔ وقت کا جبر ہمارے اوپر ہے تو وہ بھی اس کی زد سے محفوظ نہیں رہیں گے۔ کہاں ہیں وہ ماضی کے بت جو ہمارے جیسے ملکوں میں مشرقی یورپ‘ مشرقِ وسطیٰ‘ افریقہ اور لاطینی امریکہ میں تراشے گئے تھے؟ سماجی حرکیات کو دیکھیں‘ ذرا تاریخ کا جائزہ لیں اور کچھ بدلتے ہوئے زمانے کے رنگ ڈھنگ پر نظر ڈالیں تو وہ صبحِ آزادی‘ جس کا آپ کو انتظار ہے‘ کوئی زیادہ دور نہیں۔
یومِ آزادی کا رنگ بھی اب تبدیل ہو چکا ہے۔ اوائل کے عشروں میں عوامی سطح پر یومِ آزادی منانے کا رواج نہیں تھا۔ یہ دن پرانے اراکین‘ نظریۂ پاکستان سے جڑے ادیب‘ دانشور اور صحافی تقاریب اور سیمیناروں کا انعقاد کرکے مناتے۔ سرکاری لوگ آج کی طرح سرکاری کھیل تماشے منعقد کرتے‘ کہیں پرچم کشائی ہوتی اور شیروانیوں میں تقاریر کے ساتھ قوم کو آزادی کی مبارک باد دینے کے بعد آزادی کی جدوجہد کی روح کو پامال کرنے کی روز کی مصروفیات میں گم ہو جاتے۔ مجھے اپنے حافظے پر اتنا ہی یقین ہے جتنا ممکن ہو سکتا ہے۔ عوامی یومِ آزادی کا رواج ضیا الحق کے دور میں شروع ہوا‘ تو اس ''فساد‘‘ کی جڑ بھی اگر آپ تلاش کرنا چاہتے ہیں تو وہیں پہ ہے۔ اس سے قبل کے ''عوامی دور‘‘ میں صرف عوامی دور ہی تھا۔ سماجی حرکیات‘ خطے میں ہونے والی تبدیلیوں اور عالمی حالات اور بڑھتی ہوئی آگاہی اس خوش گوار تبدیلی کے ذمہ دار ہیں۔ لوگوں نے محسوس کرنا شروع کیا کہ باہر کی دنیا تو دھوم دھام سے اپنے یومِ آزادی مناتی ہے‘ ہم کیوں پیچھے رہیں۔ یہ جذبہ نوجوان نسل میں‘ سکول کے بچوں میں کہیں زیادہ دیکھا۔ قومی ترانوں اور اس میں پاکستان ٹیلی ویژن کا ذکر نہ کیا تو بات ادھوری رہ جائے گی۔ اکثر گھروں پر یکم اگست سے جھنڈا لہرانے کا رواج پڑ گیا۔ موٹر سائیکل بڑی تعداد میں آگئے اور جلوس نکالنے کی روش بھی چل نکلی۔ یومِ پاکستان کی شام نوجوانوں کے مشعل بردار جلوس کی بنیاد جماعت اسلامی سے وابستہ لاہور کے طلبہ نے80ء کی دہائی میں رکھی تھی۔ اب ہر شہر‘ ہر قصبے میں‘ دھواں دھار‘ کانوں کے پردے پھاڑ دینے والے جلوس قومی ثقافت کا حصہ بن چکے ہیں۔ یومِ آزادی کی سہ پہر ہم گھروں سے باہر نہیں نکل سکتے۔ ہم خوش ہیں کہ آزادی منانے کے لیے دن اور رات کے ایک حصے میں نوجوان سڑکوں پر قبضہ ہی کر لیں تو کوئی حرج نہیں۔ ہم کئی سالوں سے جنگلوں کا رُخ کر لیتے ہیں۔ کئی رنگوں کے پرندوں اور تتلیوں کی فضا میں آزاد پرواز اور کچھ پرندوں کے سریلے نغمے ہمیں درختوں کی چھاؤں میں بھی آزادی کا احساس دلاتے ہیں کہ یہ ہے تو سب کچھ ہے‘ اور اگر یہ نہیں تو کچھ بھی نہیں۔
خوش گوار حیرت تو یہ ہے کہ ہمارے سرائیکی وسیب کے دور دراز کے دیہات میں بھی لوگ جلوس نکالتے ہیں‘ چندہ اکٹھا کرکے دیگیں پکتی ہیں‘ مقامی معتبر حضرات تقاریر اور پر چم کشائی کرتے ہیں ۔ آزادی کا اصل مفہوم یہی ہے کہ آزاد فکر ہوں اور ہر حالت میں اپنا راستہ خود بنانے کا ڈھنگ ایسا ہو کہ ہمیں غلامی کی زنجیروں میں جکڑنے کی کوشش کرنے والے گروہوں اور طاقتوں کے ہاتھ مایوسی کے سوا کچھ نہ آئے۔ ان دگرگوں حالات میں ہماری خوشی اور یومِ آزادی کا جنگل میں عوامی جشن ہمیں مایوسیوں کے اندھیروں میں دھکیلنے والوں کے خلاف مزاحمت کا اعلان سمجھا جائے۔ ویسے تو ہم بہت اداس اور دکھی ہیں کہ غزہ اور فلسطینیوں کی حالت زار دل کو گھائل کررہی ہے۔ ان سے پوچھیں کہ آزادی کیا ہوتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved