تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     17-08-2024

یادش بخیر … (2)

میونسپل پرائمری سکول چوک شہیداں سے گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت چلے جانا گویا ایک نئی دنیا میں پہنچ جانے کے مترادف تھا۔ یونیفارم شلوار قمیص کے بجائے پینٹ شرٹ تھا۔ ٹاٹ سے اُٹھ کر ڈیسک پر آ گئے۔ سرکنڈے کی قلم سے ایگل پن پر ترقی ہو گئی۔ تختی سے جان چھوٹ گئی۔ اور تختی سے جان چھوٹنا کوئی عام چیز نہیں تھی‘یہ پورے ایک پراسس سے خلاصی تھی۔ گاچنی مٹی لانا‘ اسے بھگونا‘ تختی کو دھو کر اس پر گاچنی مٹی کا لیپ کرنا اور اسے سکھانا۔ ایمرجنسی کی صورت میں تختی کو ہاتھ میں پکڑ کر مسلسل اُس وقت تک ہلانا جب تک وہ سوکھ نہ جائے‘ یہ ایک علیحدہ مشقت طلب مرحلہ تھا۔ گلگشت ہائی سکول میں آکر چار خانوں والے رومال میں بندھی ہوئی کتابوں والے نام نہاد بستے کی جگہ پر خاکی رنگ کا کندھے پر لٹکانے والا سکول بیگ مل گیا تھا۔ گویا سکول کے بدلتے ہی سارا ماحول ایک دم سے اَپ گریڈ ہو گیا ۔ اوپر سے ایمرسن کالج کی ہمسائیگی گویا سونے پر سہاگے والا معاملہ تھا۔
سکول میں داخل ہونے کے فوراً بعد ہی الیکشن کا رونق میلہ دیکھا۔ ابھی تھوڑا ہی عرصہ گزرا تھا کہ ایوب خان کی حکومت کے خلاف جلسہ جلوس اور ہنگامہ آرائی شروع ہو گئی۔ ایمرسن کالج جنوبی پنجاب کا سب سے بڑا کالج ہونے کے ناتے طلبہ تحریکوں میں سدا سے ہراول دستہ رہا تھا۔ اوپر سے فخر بلوچ جیسا نڈر اور بے خوف طالبعلم اس کی یونین کا صدر تھا۔ ملک میں ایوب خان کے خلاف شروع ہونیوالی تحریک میں طلبہ بھی فرنٹ لائن پر تھے اور یہ ممکن نہ تھا کہ ایمرسن کالج اس معاملے میں پیچھے رہ جائے۔ جیسے ہی ملک بھر میں جلسے جلوسوں کا آغاز ہوا‘ ملتان میں بھی طلبہ سڑکوں پر آ گئے۔ ایمرسن کالج سے جیسے ہی جلوس روانہ ہوتا اس کی پہلی منزل گورنمنٹ ہائی سکول گلگشت کالونی ہوتی۔ ظاہر ہے ہمسائے کا حق سب سے بڑھ کر ہوتا ہے۔
اُس روز ہم دوسرا پیریڈ پڑھ رہے تھے اور ماسٹر گلزار‘ جو ہماری کلاس کے انچارج بھی تھے‘ کلاس لے رہے تھے کہ اچانک سکول کے برآمدے کی جانب سے بہت زیادہ شور سا سنائی دیا اور لگا کہ بہت سے لوگ نعرے مارتے ہوئے آ رہے ہیں۔ ہم سب بچے اس اچانک افتاد سے گھبرا گئے‘ بلکہ گھبرا کیا گئے‘ سہم گئے۔ ہمیں بالکل سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ یہ کیا ہو رہا ہے۔ اسی اثنا میں درجنوں نوجوان ہماری کلاس میں داخل ہو گئے اور کہنے لگے کہ چلو کلاس سے باہر نکلو‘ ہمیں سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ ہم کیا کریں۔ ہم نے پریشان ہو کر ماسٹر گلزار کی طرف دیکھا۔ انہوں نے ہاتھ کے اشارے سے کلاس ختم کرنے کا اعلان کیا۔ ہم نے بستے اٹھائے اور گھبرائے ہوئے کلاس سے باہر آ گئے۔ سکول کا برآمدہ اور داخلی ہال کالج کے لڑکوں سے بھرا پڑا تھا‘ جو زور زور سے نعرے لگا رہے تھے۔ ہمیں زیادہ تو سمجھ نہ آئی تاہم اتنا ضرور پتا چل گیا کہ کالج کے لڑکوں پر مشتمل جلوس نے سکول بند کروا دیا ہے۔ یہ ہمارا کسی جلوس سے براہِ راست پہلا تعارف تھا۔ بعد میں تو ہم خود اس کام میں نہایت اعلیٰ مقام پر فائز ہو گئے۔
اگلے روز پھر دوسرے پیریڈ کے شروع میں وہی شور شرابا شروع ہوا تو میرے سے پچھلے ڈیسک پر بیٹھے ہوئے محمد افضل نے زور سے کہا کہ ''کالجی‘‘ آ گئے۔ یہ سنتے ہی ماسٹر گلزار صاحب نے کالج طلبہ کے کلاس میں داخل ہونے سے پہلے ہی ہمیں چھٹی دے دی۔ ہمارے لیے بھلا اس سے بڑھ کر خوشی کی کیا بات تھی کہ ہمیں دوسرے پیریڈ ہی میں چھٹی مل گئی تھی۔ میں سکول سے نکل کر چند قدم تک تو جلوس کیساتھ چلا مگر جلوس جیسے ہی بوسن روڈ پر پہنچا‘ میں ابا جی کے پاس لائبریری میں آ گیا۔ کالج سنسان تھا تاہم لائبریری میں کافی سارے پڑھاکو اور کتاب دوست طالبعلم موجود تھے۔ میں گزشتہ روز بھی گھبرایا ہوا لائبریری آ گیا تھا لیکن آج میں نسبتاً نہ صرف پُرسکون تھا بلکہ اب مجھے اس جلوس جلسے والے معاملے میں لطف آنے لگ گیا تھا۔ یہ اس عمر میں ایک طرح کا ایڈونچر تھا جو ہمیں پہلی بار دکھائی پڑا تھا۔
بڑے بھائی طارق محمود خان مرحوم ایمرسن کالج میں ہی پڑھتے تھے۔ میں تو روزانہ ابا جی کے ساتھ سکوٹر پر آتا جاتا تھا مگر بھائی طارق اپنے سائیکل پر کالج جاتے تھے۔ بھائی طارق جلوس نکلتے ہی بظاہر گھر روانہ ہو جاتے جبکہ میں ابا جی کے ساتھ لائبریری میں بیٹھا رہتا تھا۔ دو تین دن کے بعد ابا جی نے فیصلہ کیا کہ وہ مجھے بھی بھائی کے ساتھ واپس گھر بھیج دیا کریں گے۔ انہوں نے بھائی کو کہا کہ جلوس کی صورت میں وہ مجھے سکول سے سیدھا واپس گھر لے جایا کرے۔ مجھے تو اس میں کوئی خاص اعتراض نہیں تھا لیکن بھائی طارق نے اس پر پہلے کافی جز بز کیا مگر ابا جان نے سختی سے کہا تو وہ بادل نخواستہ مجھے اپنے ساتھ واپس لانے پر تیار ہو گئے۔ اسی اثنا میں تیسرے چوتھے دن تو یہ ہوا کہ جیسے ہی دور سے کالج کے طلبہ کی نعرے بازی کی آواز آئی کسی نے زور سے کہا کالجی آ گئے اور ہم نے ماسٹر گلزار صاحب کی طرف دیکھے بغیر بستے اٹھائے اور باہر دوڑ لگا دی۔ یہ دن تب زندگی کے سب سے شاندار دن لگتے تھے کہ پہلے پیریڈ کے اختتام یا دوسرے پیریڈ کے شروع میں ہی چھٹی مل جاتی تھی۔تیسرے چوتھے دن کالج کا جلوس آیا تو میں نے اس جلوس میں بھائی طارق کو تلاش کیا اور ان کیساتھ ہو لیا۔ بھائی طارق نے مجھے ایک طرف لے جا کر کہا کہ تم ابا جی کو نہ بتانا اور ہم گھر جانے کے بجائے اس جلوس کے ساتھ چوک کچہری تک جائیں گے۔ میرا تو خود دل کرتا تھا کہ میں گھر جانے کے بجائے اس جلوس کے ساتھ جاؤں۔ بھائی کی اس آفر سے تو میری باچھیں کھل اٹھیں۔ بھائی طارق نے مزید ہدایت دیتے ہوئے کہا کہ میں یہ بات ابا جی کو نہ بتاؤں۔ میں نے فوراً ہامی بھر لی اور ان کے ساتھ جلوس میں شامل ہو کر چل پڑا۔ جلوس آمریت اور ایوب خان کے خلاف اور لاٹھی گولی کی سرکار نہیں چلے گی‘ نہیں چلے گی وغیرہ جیسے نعرے لگاتا ہوا چوک کچہری کی طرف رواں تھا۔ درمیان میں لاسال ہائی سکول کی چھٹی کروائی گئی۔ دوسری اطراف میں واقع کالج کے طلبہ بھی اپنا اپنا جلوس لے کر چوک کچہری آ گئے تاہم زیادہ تعداد ایمرسن کالج کے طلبہ ہی کی تھی۔ دو چار روز بعد جلوس میں سے کسی نے پولیس پر پتھراؤ کردیا۔ جوابی طور پر پولیس نے لاٹھی چارج کردیا۔ بڑی بُری طرح بھگدڑ مچی اور میں اس افراتفری اور بھاگ دوڑ میں بھائی طارق سے بچھڑ گیا۔
مجھے اس قسم کے حالات سے پہلے کوئی سابقہ نہیں پڑا تھا اسلئے میں بہت زیادہ گھبرا گیا اور منہ اٹھا کر بگٹٹ ایک طرف بھاگ کھڑا ہوا۔ اللہ جانے بھائی اپنے سائیکل سمیت کس طرف کو گئے تاہم میں چوک سے گھنٹہ گھر کی طرف نکل گیا۔ گرلز کالج کے تھوڑا آگے گیا تھا کہ بھائی طارق بھی مل گئے۔ میں ان کیلئے اور وہ میرے بارے میں سخت پریشان تھے۔ مجھے تو صرف کھو جانے کی پریشانی تھی‘ انہیں دہری پریشانی تھی کہ وہ گھر جا کر کیا بتائیں گے اور ابا جی کی سخت ہدایات کے باوجود جلوس میں جانے کی پوچھ گچھ اور ڈانٹ ڈپٹ کا علیحدہ خوف تھا۔ خیر سے ہم دونوں بھائی جلد ہی مل گئے۔ راستے میں بھائی نے پھر تاکید کی کہ اس واقعے کا گھر ذکر نہ کروں۔ میں بھلا کیوں کرتا؟ جلوس میں شامل ہونے‘ نعرے لگانے اور راستے میں دوسرے سکولوں کو چھٹی کروانے جیسے کام باقاعدہ مہم جوئی محسوس ہوتے تھے اور ان سارے کاموں میں جو Thrillسا محسوس ہوتا وہ الفاظ میں بیان کرناممکن نہیں۔ جلوس میں کالج کے طلبہ کے ساتھ ہم آواز ہو کر نعرے مارتے ہوئے میں اپنے آپ کو اپنی عمر سے کافی بڑا‘ بہادر اور تھوڑا غیر معمولی سا محسوس کرتا تھا۔ یہ ایسا احساس تھا کہ اگلے روز دوبارہ جلوس میں جانے کا سوچتا تو دل متوقع ایڈونچر کا سوچ کر ہی دھڑک اٹھتا تھا۔ سچی بات ہے کہ اگر اس چھوٹی سی عمر میں بھائی طارق کی معیت میں ایمرسن کالج کے جلوسوں میں شرکت نہ کی ہوتی تو اس قسم کی ہمت پکڑنا بعد میں شاید اتنا آسان نہ رہتا۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved