تحریر : شمشاد احمد تاریخ اشاعت     29-10-2013

پاک امریکہ تعلقات کو نئی جہت دینے کی جستجو

وزیراعظم نوازشریف کا حالیہ دورہ واشنگٹن،پاکستان اور امریکہ کے تعلقات میں بگاڑ کو درست کرنے اور دونوں ملکوں کے مابین تعلق کا نیاورق پلٹنے کی جستجو کا حصہ تھا۔ دورے کے اختتام پر اچھی یا بُری ،کوئی حیران کن بات سامنے نہیں آئی۔ملک کے اندر میڈیا کے غیر ضروری شوروغل کے باوجود اس دورے میں معمول کی ملاقاتیں اور تقاریر ہوئیں۔ محض یہ حقیقت کہ دورہ ہوا جس کی بدولت نوازشریف اور صدر اوباما کی ملاقات ہوئی، بذاتِ خود ان تعلقات کے ضمن میں ایک مثبت پیشرفت سمجھی گئی جو حالیہ برسوں کے دوران عموماً اچھے نہیں رہے۔ ایک ایسا دورہ جس کا اہتمام عجلت میں کیاگیا اور جس کے لیے مناسب تیاری بھی نہیں کی گئی تھی، اس سے بہتر نتائج کا حامل نہیں ہوسکتا تھا۔ وزیراعظم نوازشریف نے یقینا پاک امریکہ تعلقات کے تقریباً ہرپہلو کا احاطہ کرتے ہوئے معمول سے طویل مشترکہ اعلامیہ کے چھ ورق پلٹ ڈالے۔مختصر اوربامعنی اعلامیہ زیادہ بہتر ہوتا۔ مشترکہ بیان کے متن کا زیادہ تر حصہ غیر نتیجہ خیز قسم کے خیرسگالی جملوں پر مشتمل تھا جن میں علاقائی استحکام کو فروغ دینے کے لیے ایک دوسرے کے کردار اور مفادات کی تحسین اور دہشت گردی کے خلاف مشترکہ اقدامات کا عزم ظاہر کیاگیا ۔ اس بیان میں موجود فاش غلطیوں میں سے ایک نمایاں غلطی یہ ہے کہ ’’ ہمارا دیرپا اشتراک باہمی احترام ، خود مختاری اور جغرافیائی سلامتی کے اصولوں پر استوار ہے۔‘‘ حقیقت یہ ہے کہ ہمارے باہمی تعلقات کی سب سے بڑی کمزوری اقوام متحدہ کے چارٹر میں درج بین الریاستی ضوابط سے متعلق اصولوں ہی کی عدم موجودگی رہی ہے۔گزشتہ چند برسوں کے دوران ان اصولوں اور عالمی طور پر مسلمہ اقدار کو مکمل طور پر پس پشت ڈالا گیا۔ پاکستان نہ صرف ڈرون حملوں بلکہ فوجی مداخلت کی شکل میں جغرافیائی خود مختاری کی بدترین خلاف ورزیوں کا نشانہ بنتا چلا آرہا ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ مشترکہ بیان میں پاک امریکہ سٹریٹیجک ڈائیلاگ کی بحالی کا خیر مقدم کرتے ہوئے اسے ’’ دوطرفہ تعلقات کی رہنمائی کے لیے مناسب فریم ورک‘‘ قرار دیاگیا۔ جنرل مشرف کے دور سے جس ’’ سٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کا عمل شروع ہوا تھا اس کے نتائج کا ابھی تک انتظار ہے۔ اس کے برعکس امریکہ نے 2005ء میں بھارت کے ساتھ اصل ’’ سٹریٹیجک پارٹنر شپ ‘‘ قائم کرلی تھی جبکہ ہمارے منہ میں ’’ سٹریٹیجک ڈائیلاگ‘‘ کا لالی پاپ ٹھونسا جارہا ہے۔ سٹریٹیجک تعلق کے پانچ شعبوں کی نشاندہی کے سوا ’’ بہروں کے ڈائیلاگ‘‘ میں حقیقی ’’ سٹریٹیجک پارٹنر شپ ‘‘ کی جانب کسی واضح اور نتیجہ خیز عملی پیشرفت کے کوئی آثار نظر نہیں آتے۔ دوسری جانب بھارت امریکہ جوہری معاہدہ پاکستان کے جائز سکیورٹی خدشات میں سنگین اضافے کا سبب بن رہا ہے۔ جوہری ہتھیاروں کے حامل دونوں ہمسایوں کے درمیان تزویراتی عدم توازن پیدا کرنے والے اقدامات اس خطے کے امن واستحکام کے لیے کسی طور مفید ثابت نہیں ہوسکتے۔ نائن الیون کے بعد پاکستان کا امریکہ کے ساتھ اتحاد پاکستان کی تاریخ میں ایک درد ناک دور کا نقطہ آغاز تھا۔ پلک جھپکتے ہی ہم دہشت گردی کے خلاف امریکی جنگ کا میدان کارزار بن گئے اور اس وقت سے ہم مسلسل جانی اور مالی نقصان کی صورت میں اس کی قیمت ادا کرتے چلے آرہے ہیں اور یہ حالت تشدد ، تجارت و صنعت کے سلوڈائون ، سرمایہ کاری میں کمی اور امن وامان کی ابتر صورت حال کے باعث پیدا ہوئی۔ اس کے باوجود دوست اور اتحادی پاکستان کو کافی اقدامات نہ کرنے کا مورد الزام ٹھہراتے ہیں۔ حالیہ برسوں کے دوران ہمیں قبائلی علاقوں میں فوجی مداخلت اور ڈرون حملوں کا نشانہ بنایا گیا۔ یہ وقت اس روش کو درست کرنے کا ہے۔بڑا پارٹنر اور اتحادی ہونے کے باوصف پاکستان کے ساتھ عزت و وقار اور خود مختارانہ مساوات سے پیش آنا چاہیے۔ نوازشریف کو چاہیے تھا کہ وہ پرانے دکھوں کا رونا رونے اور اپنے میزبانوں سے ادنیٰ عنایات طلب کرنے کے بجائے پاکستان کے اس حقیقی تزویراتی تناظر کو اجاگر کرتے جو خطے میں واشنگٹن کی امتیازی پالیسیوں کے باعث اس کے لیے تکلیف کا سبب بنا ہوا ہے۔ انہیں افغانستان میں بھارت کے بڑھتے ہوئے کردار کا سوال بھی اٹھانا چاہیے تھا جو پاکستان کے سکیورٹی مفادات کے لیے سنگین تشویش کا باعث ہے۔ لیکن بظاہر وہ (نوازشریف) حقیقی ایشوز کے بجائے بیماری کی علامات پر زور دیتے رہے۔ یہ تو وقت ہی بتائے گا کہ وزیراعظم نوازشریف کے دورہ واشنگٹن سے پاک امریکہ تعلقات میں کیا فرق پڑا؛تاہم ایک بات واضح ہے اور یہ واشنگٹن میں ان کے قیام کے دوران بھی عیاں تھی۔فریقین کو اپنے بگڑے ہوئے تعلقات کا ازسرنو تعین کرنے اور ایک دوسرے کے جائز شکوے دور کرنے کا پورا احساس ہے۔ اس کے لیے عمیق تر’’ سٹریٹیجک پارٹنر شپ‘‘ کی ضرورت ہے جو طویل مدتی مشترکہ جیوپولیٹیکل مقاصد اور مفادات پر مبنی ہو۔ مسئلہ یہ ہے کہ دونوں طرف سے فرسودہ قسم کی روایتی بیان بازی کے باوجود اس نوعیت کے تعلقات میں تسلسل ، وسیع تر نظری فریم ورک اور مشترکہ وژن عنقا رہا اور ہر فریق ’’ تنگ نظر اور مبہم ‘‘ قسم کے متعین ایشو پر مبنی ترجیحات سے آگے نہ جاسکا۔اگرچہ ان میں مفادات کا تضاد پیدا نہ ہوا، پھر بھی وہ مفادات میں حقیقی اشتراک سے تہی دامن رہے۔ اس پیچیدہ صورت حال میں اشتراک کی یہ صورت رہی کہ کسی ایک مہم میں ہر فریق اپنے اپنے مقاصد کے حصول کی خاطر مل کر کام کرتا رہا ۔بدقسمتی سے حالیہ برسوں میں ایک دوسرے پر عدم اعتماد کے علاوہ دونوں ملک تعلقات خراب کرنے والے عوامل کو کنٹرول نہ کرسکے حالانکہ وہ اپنے تعلقات میں مفادات کی یکسانیت کے تصور کے تحت ان سے بچ سکتے تھے۔ پاک امریکہ تعلقات کی عملی صورت حال کسی ایک واقعے یا فرد یا کسی ناخوشگوار عامل کی وجہ سے نہیں ہے۔ ہمیں دیانتداری سے کام لینا چاہیے۔ اصل مسئلہ تعلقات کا نہیں بلکہ دونوں طرف سے مسئلے کی ناقص تفہیم اور اس سے صحیح طور پر نہ نمٹنا ہے۔ واشنگٹن کے نقطہ نظر سے دونوں ملکوں کے تعلقات ایک متعین ایشو اور کاروباری نوعیت کے رہے ہیں۔ وہ ہمیں کام دیتے اور ہم اس کا معاوضہ وصول کرتے رہے۔ ہمارے نقطہ نظر سے ان تعلقات کا انحصار ہمارے ان حکمرانوں پر رہا جو اپنے اقتدار اور مفادات کو مقدم رکھتے تھے۔ ہماری تاریخ میں پہلی مرتبہ ہمیں ایک ایسا وزیراعظم ملا ہے جسے اقتدار میں رہنے کے لیے بیرونی سہارے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ ان کی سیاسی جڑیں گہری ہیں اور وہ عوام سے ووٹ لے کربرسراقتدار آئے ہیں۔اپنے پیش روئوں کے برعکس نوازشریف اتنا زائد وزن لے کر واشنگٹن نہیں جاتے جس کی وجہ سے وہ اپنے امریکی رابطہ کاروں کے زیربار ہوجائیں۔ پروٹوکول میں کچھ سنجیدہ خامیوں کے علاوہ وزیراعظم شرپوں(کوہ پیمائوں کا سازو سامان اٹھانے والے مزدور) کی طرح وزن اٹھائے صدر اوباما سے ملاقات کے منتظر رہے، پھر بھی عوامی اجتماعات میں انہوں نے اپنے آپ کو مختلف انداز سے پیش کیا۔ انہوں نے کا سۂِ گدائی پھیلانے کی بجائے ’’ ٹریڈ ناٹ ایڈ‘‘ (امداد نہیں ، تجارت) کی بات کی اور بیرونی سرمایہ کاری کے لیے اپنے ملک کی دلکش تصویر پیش کی۔وہ انہیں آج کے پاکستان میں سرمایہ کاری یا تجارت کرنے کے لیے قائل نہ کرسکے ۔اگر امریکہ ہمیں اپنی مارکیٹ تک رسائی دے بھی دے تو ہم تولیے اور انڈر ویئر کے سوا برآمد ہی کیا کرسکتے ہیں۔ عملاً نوازشریف کی ’’ اقتصادی سفارت کاری ‘‘ اس وقت تک بے ثمر رہے گی جب تک ان کی حکومت اس مقصد کے لیے درکار بنیادی تقاضے پورے نہیں کرلیتی جن میں دیرپا پالیسیاں ، امن وامان کی مستحکم صورت حال اور انفراسٹرکچر اہم ہیں جو فی الوقت ہمارے ملک میں مفقود ہیں ۔ تانگے کو گھوڑے کے آگے جوتنے کی بجائے انہیں ملک کے اندر رہ کر حکمرانی کے معاملات کو سدھارنا چاہیے تھا۔ اندرونی محاذ پر کچھ بہتری ہوجائے تو ہم امریکہ کے ساتھ حقیقی دوطرفہ تعلقات کا مطالبہ کرسکتے ہیں۔ یقینا ہمیں اس اہم تعلق کو کسی صورت میں کمزور نہیں ہونے دینا چاہیے بلکہ اسے پہلے سے زیادہ سیاسی ، اقتصادی اور تزویراتی عوامل سے مضبوط بنانا چاہیے۔ (کالم نگار سابق سیکرٹری خارجہ ہیں)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved