تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     17-08-2024

دوحہ میں ایک رات

ایک صدی سے زیادہ وقت گزر گیا۔ جب (غالباً) سجاد ظہیر کی ایک تحریر نے اُردو ادب میں گراں قدر اضافہ کیا‘ جس کا عنوان تھا ''لندن میں ایک رات‘‘ ۔اس کالم کیلئے اتنا بلند بانگ دعویٰ نہیں کیا جا سکتا۔ ماہِ اپریل کے وسط میں کالم نگار پاکستان جاتے ہوئے قطر کے دارالحکومت دوحہ میں ایک رات کیلئے رُکا‘ جو قیام اتنا یادگار تھا او ربجا طور پر اتنا دلچسپ اور معلوماتی کہ اس پر کم از کم ایک کالم لکھنا وہاں جانے والے کیلئے فرض بن گیا۔ آج وہ فرض تین ماہ کی تاخیر سے ادا کیا جا رہا ہے۔ بقول غالب ؔ:
ہوئی تاخیر تو کچھ باعثِ تاخیر بھی تھا
دوحہ میں ایک رات کے قیام کے بعد ایک ماہ پاکستان گزرا۔ واپس آیا تو پہلے فرانس پھر جرمنی اور اس کے بعد ڈنمارک جانا پڑا۔ پھر برطانیہ میں 5 جولائی کو ہونے والے انتخا بات میں ملک کے طول و عرض میں (چھ کے قریب) اُمیدواروں کی انتخابی مہم میں حصہ لیا۔ صبح سے لے کر شام تک دوڑ بھاگ کرکے۔ یہ کاوش مساجد سے لے کر ہر شہر میں مجھے دیے گئے رہائشی علاقہ میں دردر دستک دینے‘ اسرائیلی مظالم کے خلاف اور فلسطینیوں کی حمایت میں شائع کردہ Leaflets کی تقسیم کرنے اور آزاد اُمیدوار کیلئے ووٹ مانگنے کی درخواست پر مشتمل تھی۔ چھ جولائی کی صبح نتائج کا اعلان ہواتو ہمارے دس میں سے پانچ امیدوار (فلسطین کے حقِ خود ارادیت کی حمایت کا پرچم بند کرنے والے) کامیاب ہوگئے۔ مشرقی لندن کی ایک نشست پر ایک بہادر اور اعلیٰ تعلیم یافتہ فلسطینی نوجوان خاتون کی صرف500 ووٹوں کے فرق سے الیکشن میں ناکامی نے ہماری خوشیوں پر پانی پھیر دیا۔ جب اس صدمہ سے سنبھلا اور مڑ کر دیکھا تو دوحہ نظر آیا اور وہاں گزری ہوئی رات اور دن یاد آئے۔ میں نے دوحہ میں پہلی بار جانے اور وہاں ایک دن اتنا کچھ دیکھنے کا موقع ملنے پر اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کیا اور دعامانگی کہ مجھے ایک بار اور وہاں جانے کا موقع ملے۔
متحدہ عرب امارات‘ کویت اور بحرین کی طرح (عمان کے برعکس) قطر بھی خلیج فارس کی ایک چھوٹی سی ریاست ہے۔ آپ یقینا جانتے ہوں گے کہ قطر کی بے پناہ آمدنی کا راز وہاں قدرتی گیس کے بہت بڑے ذخائر ہیں۔ یوں سمجھیں کہ وہاں رہنے والوں کی لاٹری نکل آئی مگر جو بات ہم اکثر یاد نہیں رکھتے کہ قطر کے حکمرانوں نے کمال فراست اور دیانت سے کام لے کر قدرت کی طرف سے ملنے والی دولت کا بہترین استعمال کیا۔ ہر معاملہ میں (شہری منصوبہ بندی اور تعمیرات سے لے کر خارجہ پالیسی تک)توازن‘ عقلمندی اور حُسنِ کارکردگی کا بہترین مظاہرہ کیا۔ خارجہ پالیسی میں مکمل غیر جانبداری کے تنی ہوئی رسی پر اتنی سوجھ بوجھ سے اتنے سال چلتے رہے اور چل رہے ہیں کہ ایک بار بھی بلندی سے پستی کی طرف نہیں گرے۔ ایک طرف ایران اور ترکیہ کے ساتھ خصوصی دوستانہ تعلقات اور دوسری طرف حزب اللہ اور حماس سے بھی اتنی گاڑھی چھنتی ہے کہ فلسطینی حکومت اور تحریک آزادی (غزہ کے حوالے سے) دونوں کے ساتھ سفارتی تعلقات ہیں۔ دونوں کے وہاں دفاتر ہیں۔ دونوں قطر کو نہ صرف اسرائیل اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کیلئے بطورMiddleman بلکہ نازک معاملات میں ثالث کا درجہ دیتے ہیں۔ آپ کیلئے شاید اندازہ کرنا مشکل ہو کہ قطر نے الجزیرہ چینل شروع کر کے اسرائیل اور اس کے سب سے بڑے سرپرست (امریکہ) کے سینے پر (محاورے کے مطابق) کتنے مونگ دَلے ہیں‘ کتنے ناکوں چنے چبوائے ہیں‘ کتنی بار چھٹی کا دودھ یاد دلایا ہے۔ یہ عرب چینل امریکہ اور اُس کے حواریوں کو ایک نوکیلا کانٹا بن کر چبھتا ہے۔ یہ ہر رو ز اور ہر لمحہ ہمیں باور کراتا ہے کہ اُسے حکم اذاں ملا ہے اور وہ بڑی مہارت اور پیشہ ورانہ قابلیت سے اس حکم کو مانتا رہے گا اور یہ ثابت کرتا رہے گا کہ وہ حکم اذاں کی تعمیل کرنے کا فرض بخوبی سرانجام دینے کیلئے اہلیت‘ ہمت‘استقامت اور جرأت جیسی نایاب خوبیوں کا مالک ہے۔ اقبال نے بجا طور پر فرمایا تھا کہ وہ افراد یا قومیں صداقت‘ عدالت اور شجاعت کا سبق پڑھ کر اُسے یاد کر لیتی ہیں اور اس سبق کے مطابق اپنے اعمال اور افعال کو ڈھال لیتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا نہ نظر آنے والا مگر ہر جگہ کار فرما ہاتھ اُنہیں اقوامِ عالم کی امامت کی گدّی پر بٹھا دیتا ہے۔
دوحہ عالمی معیار کی درسگا ہوں اور عجائب گھروں کا مرکز ہے۔ اب آپ بتایئے کہ میں ایک دن میں یا زیادہ سے زیادہ ڈیڑھ دن میں کیا کیا دیکھتا؟ ظاہر ہے کہ اس کالم نگار نے بلا توقف فیصلہ کیا کہ اسلامی عجائب گھر کو تمام پُر کشش عمارتوں اور سیرگاہوں پر ترجیح دی جائے۔ خلیج فارس میں صدیوں سے چلنے والی رواجی اور تاریخی کشتی (Dhow) میں سفر ‘قطر کے ساحلی علاقوں کی سیر اور اپنی دیرینہ خواہش کی تکمیل کو بھی میں نے دوسرے نمبر پر کر دیا۔ دوحہ میں اسلامی فنون لطیفہ (مصوری‘ خطاطی‘ طر وف سازی اور قالین بافی) کی رنگا رنگ اور بے حد دلفریب تاریخ 1400 سال پر پھیلی ہوئی ہے۔ بقول مختار مسعود (مرحوم) ہر قوم کے عروج میں جلال و جمال دونوں اکٹھے سفر کرتے ہیں۔ عجائب گھر کی عمارت بذات خود آرٹ کا نادر نمونہ ہے۔ سنگ مر مر کی بنی ہوئی‘ ساحل سمندر پر چین نژاد امریکی ماہر تعمیرات I. M. Pei کی تخلیقی صلاحیت کا قابل صد تعریف شاہکار۔ اس عجائب گھر کا افتتاح 2008 ء میں ہوا تھا۔اس عمارت کو پانچ منزلوں اور پندرہ گیلریوں میں کئی ہزار نوادرات کو نمائش کیلئے رکھا گیا ہے مگر ان میں سے ایک کو سب پر فوقیت حاصل ہے۔ اور وہ ہے 600 پارچہ جات (Parchments) پر لکھا ہوا قرآن پاک کا قدیم ترین نسخوں میں سے ایک نسخہ۔ ساری نمائش گاہ میں سرزمین اندلس کے فنکاروں کی تخلیقات ہیرے کی طرح جگمگا رہی تھیں۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ جب 897 ھ (1492 ء) میں غرناطہ میں ناصری حکومت کے خاتمے کے بعد بھی اُس شہر اور اُس کے مضافات میں رہنے والے مسلم دستکاروں اور فنکاروں کی بڑی تعداد وہیں مقیم رہی۔ نئی حکومت (جو مسیحی تھی) نے اُن کی سرپرستی جاری رکھی اور وہ فنکار اپنے روایتی کام میں حسبِ معمول مصروف رہے۔ ان کی بنائی ہوئی خوبصورت چیزوں کے ایک نمونہ کو بھی اس عجائب گھر میں جگہ دی گئی ہے۔ اُن فن پاروں کی تعداد سینکڑوں میں نہیں ہزاروں میں ہے ‘جن کو ایک بار دیکھیں تو ان سے نظر نہیں ہٹتی۔ سیف الدین سیف کا ایک شعر بار بار یاد آیا:
پھر پلٹ کر نگہ نہیں آئی ؍ تجھ پہ قربان ہو گئی ہو گی
اس کالم نگار نے اپنے آبائی وطن سے یورپ کا پہلا سفر 1967 ء میں کیا اور اُس کے بعد قریباًہر سال میں ایک‘ دو بار میں نے تمام خلیجی ریاستوں کو اُس وقت دیکھا جب وہ (ایک پنجابی محاورے کے مطابق) اجاڑ منڈی تھیں۔ چہار سو ریت کے ٹیلے اور شہر ایسے جیسے ہمارے پسماندہ قصبات ہوتے ہیں۔ وہاں جا کر رہنا کسی عذاب سے کم نہ تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ان ریاستوں کی کایا پلٹ گئی۔ وہ فرش سے عرش تک جا پہنچیں۔ اُن کے پاس قدرتی وسائل (تیل اور گیس) تو تھے مگر افرادی قوت نہ تھی۔ وہ انہوں نے جنوبی ایشیا سے لاکھوں کی تعداد میں بھرتی کرلی۔ اگر ان ریاستوں کا حکمران طبقہ بھی نالائق‘ نااہل‘ بے ایمان اور وطن دشمن ہوتا تو ان کا بھی یقینا وہی حال ہوتا جو ہمارا ہوا۔ ہمارے پاس تیل اور گیس سے زیادہ قیمتی قدرتی وسیلہ تھا اور وہ تھی کروڑوں کی آبادی۔ محنتی ‘ باہمت‘ بہادر‘تعلیم یافتہ اور ہنر مند افراد کی فوج ظفر موج مگر بدقسمتی سے ہم نے اپنے ہاتھ کی تلوار کو ہتھکڑی بنا لیا۔ سب سے بڑے Asset کو Liability میں تبدیل کر دیا۔ نوحہ خوانی اور مرثیہ پڑھنے کا مقام ہے۔
ایک ہم ہیں کہ لیا اپنی ہی صورت کو بگاڑ
ایک وہ ہیں جنہیں تصویر بنا آتی ہے
آیئے ہم مل کر عہد کریں کہ ہم قوتِ اُخوتِ عوام کی بدولت اپنی بگڑی ہوئی صورت کو پھر سنوارلیں گے ۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved