تحریر : رؤف کلاسرا تاریخ اشاعت     18-08-2024

بینظیر/ لغاری کو کیوں نکالا؟

نواز شریف صاحب کا غم ختم نہیں ہو رہا کہ انہیں اقتدار سے کیوں نکالا گیا۔
میں 2007ء میں لندن میں تھا۔ نواز شریف صاحب سے تب دیگر صحافیوں کی طرح میری بھی ڈیوک سٹریٹ میں ملاقاتیں رہتی تھیں۔ وہ اُس وقت بھی یہی کہتے تھے کہ انہیں 12اکتوبر کو کیوں ہٹایا گیا؟ اب سترہ سال بعد‘ 2024ء میں بھی پوچھ رہے ہیں کہ انہیں 2017ء میں کیوں ہٹایا گیا؟ مزے کی بات ہے کہ اُن کے اس سوال پر اُن سے کوئی نہیں پوچھتا کہ آپ نے محمد خان جونیجو اور پھر بینظیر بھٹو اور صدر لغاری کو کیوں ہٹوایا تھا؟ یہ انسانی مزاج ہے کہ ہم جو کچھ اپنے بھلے کیلئے کرتے ہیں اسے جائز سمجھتے ہیں لیکن اگر وہ کام کوئی دوسرا ہمارے خلاف کرے تو وہ دھوکا اور بدنیتی اور ملک دشمنی ہے۔
میں پہلے Karma پر یقین نہیں رکھتا تھا لیکن پھر دھیرے دھیرے مجھے اس پر یقین آنا شروع ہو گیا کہ ہم اپنے کارناموں کا صلہ اسی دنیا میں پا لیتے ہیں۔ چاہے آپ کتنے ہی چالاک اور ہوشیار کیوں نہ ہوں‘ ایک نہ ایک دن اونٹ پہاڑ تلے ضرور آتا ہے۔ اُس وقت آپ مظلومیت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ خود بھی روتے ہیں اور مجمع کو بھی رُلاتے ہیں۔ یہ فن ہر سیاستدان کو آتا ہے‘ ورنہ دھندہ نہیں چل سکتا۔ جمعہ کی تقریر میں نواز شریف صاحب کے وہی پرانے شکوے شکایتیں سن کر مجھے سابق وزیر عابدہ حسین اور اُن کی کتاب Power Failure: The Political Odyssey of a Pakistani Woman کا ایک باب یاد آیا۔ اس میں وہ لکھتی ہیں کہ ایک دن وہ گورنر پنجاب جنرل جیلانی سے ملنے گئیں تواُن کے دفتر کے باہر ایک نوجوان مٹھائی کا ڈبہ لے کر بیٹھا ان سے ملنے کا انتظارکر رہا تھا۔ عابدہ نے کسی سے پوچھا کہ یہ کون ہے اور مٹھائی لے کر کیوں بیٹھا ہے؟ انہیں بتایا گیا کہ اس نوجوان کا نام نواز شریف ہے اور یہ لاہور کے ایک بزنس مین کا بیٹا ہے اور گورنر سے ملاقات کا انتظار کر رہا ہے۔ عابدہ حسین آگے لکھتی ہیں کہ 1996ء میں بینظیر بھٹو وزیراعظم تھیں‘ صدر فاروق لغاری اور ان کے درمیان اختلافات کی خبریں چل رہی تھیں‘ ایک دن عابدہ حسین کو پیغام ملا کہ اُن سے میاں محمد شریف مری میں لنچ پر ملنا چاہتے ہیں۔ ضروری باتیں کرنی ہیں۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ جب وہ مری پہنچیں تو پورچ میں میاں محمد شریف اپنے دونوں بیٹوں‘ نواز شریف اور شہباز شریف کے ساتھ ان کا انتظار کررہے تھے تاکہ ان کا شایانِ شان استقبال کر کے انہیں بتایا جائے کہ وہ ان سب کیلئے کتنی اہم ہیں۔
عابدہ حسین کے مطابق وہ کچھ حیران ہوئیں کہ بھلا آج کیسا دن ہے کہ پورا خاندان ان کے آگے پیچھے بچھا جا رہا ہے۔ خیر لنچ کے بعد میاں محمد شریف اپنی زبان پر وہ مدعا لے آئے جس کیلئے عابدہ حسین کو اسلام آباد سے مری بلایا گیا تھا۔ انہوں نے عابدہ حسین کو بتایا کہ اُن کے والد سے اِن کے اچھے تعلقات تھے کہ ان کی زمینوں پر اتفاق ٹیوب ویل لگائے گئے تھے۔ فاروق لغاری کی خاندانی زمینوں پر بھی یہی ٹیوب ویل نصب کیے گئے تھے۔ میاں محمد شریف کہنے لگے کہ ان کا دونوں کے بزرگوں سے اچھا تعلق رہا لیکن اب صدر فاروق لغاری سے تعلقات اچھے نہیں ہیں۔ تعلقات خراب ہونے کی دو تین وجوہات تھیں۔ ایک تو اسمبلی میں جب لغاری صاحب خطاب کرنے آئے تھے تو (ن) لیگ نے ان پر بہت ہُوٹنگ کی تھی۔ ان کے خلاف نعرے مارے گئے۔ تقریر کے دوران مسلسل شور شرابا ہوتا رہا۔ رہی سہی کسر اس وقت پوری ہو گئی جب صدر لغاری کے خلاف رضی فارم کا سکینڈل نواز شریف سامنے لائے کہ ان کے ایک فارم کی زمین ایک بینکر یونس حبیب کو بہت مہنگی بکوائی گئی تھی۔ نواز شریف باقاعدہ ایک جلوس لے کر ڈیرہ غازی خان گئے تاکہ لغاری سردار کو اس کے گھر میں بے عزت کر کے آئیں۔ یوں لغاری اور نواز شریف کیمپ میں تعلقات بہت خراب تھے۔
میاں محمد شریف نے عابدہ حسین سے کہا کہ انہیں پتا چلا ہے کہ صدر لغاری اور عابدہ کے والد کے بہت پرانے تعلقات ہیں جس کا صدر لغاری بہت لحاظ کرتے ہیں۔ اسی بنا پر وہ عابدہ حسین کو بہن سمجھتے ہیں۔ اگر کسی طریقے سے عابدہ حسین نواز شریف اور صدر لغاری کی صلح کرا دیں تو وہ سب ان کے عمر بھر کیلئے شکر گزار رہیں گے۔ میاں محمد شریف نے کہا کہ نہ صرف وہ ان کے احسان مند رہیں گے بلکہ ان کے دونوں بچے نواز شریف اور شہباز شریف بھی ان کا یہ احسان عمر بھر نہیں بھولیں گے۔ عابدہ حسین نے اتنے پروٹوکول اور پُرتکلف لنچ کے دباؤ میں میاں محمد شریف کی دی گئی وہ میٹھی گولی نگل لی اور انہوں نے وعدہ کر لیا کہ وہ بریک تھرو کرائیں گی۔ عابدہ حسین نے صدر لغاری سے رابطہ کیا اور آخرکار انہیںنواز شریف سے ملاقات کرنے اور پرانے گلے شکوے دور کرنے پر راضی کر لیا۔ شاید صدر لغاری بھی اس وقت بینظیر بھٹو اور آصف علی زرداری سے نالاں تھے۔ وہ ان سے کچھ الگ سوچ رہے تھے۔ یوں نواز شریف اور صدر لغاری کے درمیان ایک ملاقات طے ہوئی جو کہ ایوانِ صدر میں ہونی تھی۔ جب ان ملاقاتوں اور رابطوں کی خبر فاروق لغاری کی بیگم صاحبہ تک پہنچی تو انہوں نے عابدہ حسین کو کہا کہ ایسا مت کرو۔ فاروق سے یہ کام مت کراؤ۔ جو بھی ہو‘ انہیں بینظیر بھٹو نے صدر بنوایا ہے۔ بینظیر کے خلاف ان سے کچھ نہ کراؤ۔
عابدہ حسین کا بینظیر بھٹو سے اپنا بھی Personality clashچلتا رہتا تھا لہٰذا وہ خود بھی دل و جان سے بینظیر بھٹو سے کچھ سکور سیٹل کرنا چاہتی تھیں۔ عابدہ نے نواز شریف پر احسان تو کرنا ہی تھا لیکن ساتھ اپنی Ego massage بھی کرنا تھی۔ یوں صدر لغاری اور نواز شریف کی ایوانِ صدر میں ملاقات کرائی گئی۔ دونوں فریق تیار ہو گئے کہ بینظیر بھٹو حکومت توڑ کر نئے الیکشن کرائے جائیں گے۔ نواز شریف نے عمر بھر کیلئے فاروق لغاری کا احسان مند ہونے کی قسمیں کھائیں کہ وہ بس بینظیر بھٹو کی حکومت توڑ کر نئے الیکشن کرا کے انہیں جلدی سے وزیراعظم بنوا دیں۔ لغاری صاحب کی بھی کچھ شرائط تھیں جو فوراً مان لی گئیں۔
عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ 1997ء کے الیکشن کے بعد نواز شریف کو دو تہائی اکثریت مل چکی تھی۔ وہ نواز شریف سے ماڈل ٹاؤن لاہور ملنے گئیں۔ ان کے ساتھ فخر امام بھی تھے۔ انہیں وہاں پہنچ کر پتا چلا کہ نواز شریف وہاں بیٹھے اپنی نئی کابینہ کے وزیروں کے نام فائنل کررہے تھے۔ دورانِ گفتگو عابدہ حسین نے مشورہ دیا کہ بہتر ہوگا کہ صدر لغاری سے بھی کابینہ اراکین کے ناموں پر مشورہ کر لیا جائے۔ عابدہ حسین لکھتی ہیں کہ اس بات پر جس طرح کا ردِعمل نواز شریف نے دیا وہ حیران رہ گئیں۔ صدر لغاری کے نام پر ان کے چہرے پر جو تاثرات ابھرے انہوں نے عابدہ کو ششدر کر دیا۔ چند ہفتے پہلے تک پورا خاندان عمر بھر کیلئے فاروق لغاری کا احسان مند رہنے کی قسمیں کھا رہا تھا‘ ضمانتیں دے رہا تھا اور اب الیکشن جیتتے ساتھ ہی ان سب نے آنکھیں پھیر لی تھیں۔ اور پھر کچھ عرصے بعد اسی فاروق لغاری کو پیغام بھیجا کہ آپ خود استعفیٰ دیں گے یا ہم پارلیمنٹ کے ذریعے آپ کو صدارت کے عہدے سے ہٹا دیں۔ صدر لغاری کے مشیر شاہد حامد نے مذاکرات کرائے اور صدر لغاری کا استعفیٰ لے کر نواز شریف کو پیش کیا اور انعام کے طور پر گورنر پنجاب بنائے گئے۔ یوں نواز شریف نے پہلے صدر لغاری کے ذریعے بینظیر بھٹو کو وزیراعظم ہاؤس سے نکلوایا اور پھر شاہد حامد کو فاروق لغاری کے پاس بھیجا کہ جاؤ ان سے استعفیٰ لے کر آؤ۔
آج وہی نواز شریف پوچھتے ہیں کہ مجھے کیوں نکالا۔ میرا کیا قصور تھا؟ ہم انسان اپنے قصور بھول جاتے ہیں لیکن کہتے ہیں تقدیر نہیں بھولتی۔ جو کچھ نواز شریف نے بینظیر بھٹو اور صدر لغاری کے ساتھ کیا تھا وہ سب کچھ تقدیر نے انہیں سود سمیت واپس کیا ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved