بھارت میں حکمران کانگریس پارٹی کے نائب صدر راہو ل گاندھی کے اس انکشاف نے ،کہ ریاست اتر پردیش کے مظفرنگر ضلع میں حالیہ فسادات سے متاثر اور کیمپوں میں پناہ گزین مسلم نوجوان، پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی سے رابطے میںہیں ، تمام مسلمانوں کو کٹہرے میں لا کھڑا کیاہے۔ اگرچہ ان کی اس دلیل میں وزن ہے کہ فرقہ پرستی یا کسی قوم کومجبوربنانا دہشت گردی کو جنم دیتا ہے مگر جس طرح انہوں نے خفیہ محکمہ کے ایک افسر سے اپنی ملاقات کا ذکر کرکے مظفر نگر کے فسادزدگان کے کسی امکانی دہشت گردانہ کارروائی میں ملوث ہونے کا عندیہ دیا،وہ باعث تشویش ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسیاں اس مفروضے کی بنا پر فسادیوں کے خلاف کارروائی کرنے کے بجائے مسلم نوجوانوں کو دہشت گردی کے الزام میں حراست میں لینے اور ہراساں کرنے کا جواز پیدا کر رہی ہیں۔ اس سے قبل بابری مسجد کی شہادت اور 2002ء میںگجرات فسادات کی آڑ میں بھی لاتعداد مسلمان نوجوانوں کو گرفتار کیا گیاتھاجن میں سے کئی زندگی کے قیمتی سال سلاخوں کے پیچھے گزار کر عدالتوں سے بری ہوچکے ہیں۔ ان میں سے متعدد کو انکائونٹر کے نام پر اس شبے میں موت کے گھاٹ اتاردیا گیاکہ وہ فسادات کا بدلہ لینے کیلئے گجرات کے وزیراعلیٰ نریندر مودی کو قتل کرنا چاہتے تھے۔مسلم نوجوانوں کی تنظیم اسٹوڈنٹس اسلامک موومنٹ آف انڈیا (سیمی) پرپابندی عائد کردی گئی اورنوجوانوں کا قافیہ تنگ کیا گیا۔ مجموعی طور پر راہو ل گاندھی کے بیان نے ان طاقتوں کو تقویت پہنچائی ہے جو ایک منصوبے کے تحت مسلمانوں کو فساد اور فرقہ پرستی کی دہری مار کا شکار بنا رہے ہیں۔ گزشتہ برس جب ممبئی میں آل انڈیا مسلم پرسنل بورڈ کے ایک اہم اجلاس سے دو روز قبل مرکزی وزارت داخلہ نے عدالتی ٹریبونل میں حلف نامہ دائر کیا ‘ جس میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ سیمی پر پابندی عائد کردیے جانے کے باوجود یہ تنظیم 51مختلف تنظیموں اور اداروں کے ذریعہ اپنی سرگرمیوں کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہے۔اس حلف نامے کی بنیاد پر خیر امت ٹرسٹ نامی اس تنظیم کوبھی سیمی کی ذیلی تنظیم قرار دے دیا گیا جو ممبئی میں ہونے والے آل انڈیا مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاس کی میزبانی کرنے والی تنظیموں میں شامل تھی۔ اس حلف نامے پر ایک نظر ڈالنے سے محسوس ہوتا ہے کہ ملک میں مسلمانوں کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی چھوٹی بڑی تنظیموں کو سیمی سے وابستہ قرار دے کر اور میڈیا میں اس کے خلاف مہم چلا کر ان کے ارکان کو زیر عتاب لایا گیا۔حیرت کی انتہاہے کہ مدھیہ پردیش میںنوجوانوں میں اسپورٹس کو فروغ دینے والی تنظیم ’کروائی اسپورٹس ویلفیئر اکیڈمی ‘ کو بھی سیمی کا اتحادی قرار دے دیا گیا ۔اس تنظیم کا قصور یہ ہے کہ چند سال قبل جب پاکستان کے سابق سیکرٹری خارجہ شہریار خان بھوپال آئے تھے توانہیں اس تنظیم کی ایوارڈ تقسیم کرنے والی تقریب میں مدعو کیا گیا تھا۔ حکومت نے سیمی پر پابندی برقرار رکھنے کے لئے حلف نامے میں یہ بھی بتایا ہے کہ اس تنظیم نے مین اسٹریم سیاسی جماعتوںاور دیگر مسلم تنظیموں میں رسائی حاصل کرلی ہے تاکہ اس کے خلاف عائد پابندیوں کو ختم کرنے کے لئے رائے عامہ تیار کرکے حکومت پر دبائو ڈالا جاسکے۔ حکومت نے حلف نامے میں جن تنظیموں کو سیمی کی اتحادی قرار دیا ،قارئین بالخصوص مسلم قیادت کی آنکھیں کھولنے کے لئے اس کی فہرست پیش کی جارہی ہے :خزینتہ الکتب الاسلامیہ(کرناٹک)‘ جوہوپارہ یوتھ فیڈریشن(گجرات)‘ عوامی جمہوری محاذ اور تحریک تحفظ اسلام (اترپردیش)‘ اتحاد المسلمین ‘ انجمن نوجوانان اسلام او ر اسٹوڈنٹس اسلامک فیڈریشن (بہار)‘ اقبال گویشنا پریشد‘ فیڈریشن آف مسلم آرگنائزیشن‘ مسلم یوتھ فرنٹ‘ تحریک دعوت اسلام‘ آل بنگال اسلامک اسٹوڈنٹس کانفرنس‘ یونائٹیڈ فورم آ ف اسلامک آرگنائزیشن اور نبو پربھا(تمام مغربی بنگال )۔اس کے علاوہ مہاراشٹر کی آٹھ مسلم تنظیمیں خیرامت ٹرسٹ‘ ادارہ خیرامت ‘ تحریک حیات امت‘ سابق طلبہ کی تنظیم‘ اصلاح معاشرہ‘ فارغین جماعت‘ خدمت خلق اور قرآن فائونڈیشن شامل ہیں۔23 تنظیموں کا تعلق کیرالہ سے ہے جن کے نام یہ ہیں: فورم فار آئیڈیالوجیکل تھاٹ‘ کرونا فائونڈیشن‘ اسلامک یوتھ سینٹر‘ مانس فائونڈیشن‘ ایسوسی ایشن فار رورل ڈویلپمنٹ اینڈ ریسرچ‘ مسلم مونیٹا‘ سمسکاریکا سمیتی‘ درشن یوتھ موومنٹ‘ حرا چیریٹیبل ٹرسٹ‘ مسلم یوتھ کلچرل فورم‘ مسلم شوریدہ بیدی‘ دھیشانا‘ الجماعت‘ نیتھی ویدی(جسٹس فورم)‘ سینٹر فار انفارمیشن اینڈ سوشل ایکٹی ویٹرز‘ امیرالمسلمین‘ امام غزالی ٹرسٹ ‘ دارالقرآن‘ سہروردیہ لائبریری‘ انسٹی ٹیوٹ آف قرانک ریسرچ اینڈ انالسس(اقران) او ر مائناریٹی رائٹس واچ۔خیال رہے کہ کیرالہ ملک کی ایسی ریاست ہے جس میں مسلمانوں میں تعلیم کا تناسب ملک کی دیگر ریاستوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ ہے۔ اس حلف نامے میں حکومت نے عدالتی ٹریبونل کو بتایا ہے کہ سیمی پر مسلسل پابندیوں کے باوجود یہ تنظیم اپنے نیٹ ورک کو زندہ رکھنے اور غیرقانونی سرگرمیوں کو جاری رکھنے میں کامیاب رہی ہے اور وہ ملک بھر میں لٹریچر‘ کتابچوں‘ میگزین اور پوسٹر وغیرہ کے ذریعہ مذکورہ بالا تنظیموں کی مدد سے اپنی آئیڈیالوجی کو پھیلانے میں مصروف ہے۔حکومت نے اپنے حلف نامے میں اس بات پر زور دیا ہے کہ سیمی اپنے لٹریچر اور دیگر ذرائع کے ذریعہ اسلام کے نظام خلافت کی تشہیر کررہی ہے اور اسے ملک میں نافذ کرنے کی خواہش مند ہے۔سیمی پر یہ الزام بھی عائد کیا گیا ہے کہ یہ تنظیم مسلم نوجوانوں کو اسلام پر مکمل عمل کرنے اور غیرمسلموں کواسلام کی دعوت دینے پر بھی زور دیتی ہے۔حلف نامے میں اس سلسلے میں ایک کتاب کا بھی ذکر کیا گیا ہے جس کا نام ’خلافت تمام مسائل کا واحد حل ‘ ہے۔ حلف نامہ کے مطابق اس کتاب کو مہاراشٹر سے اس وقت ضبط کیا گیا جب سیمی کے کارکنان اسے مسلمانوں میں تقسیم کررہے تھے۔ اسلام کے نظریہ خلافت یا سیمی جس نظریہ خلافت کو پیش کرتی ہے اس سے اختلافات کی گنجائش تو موجود ہے لیکن مہاتما گاندھی کے اس خط کے بارے میں کیا کہیں گے جو انہوں نے جولائی 1937ء کو اس وقت کی صوبائی حکومتوں کے وزرائے اعلیٰ کے نام لکھا تھا۔گاندھی نے اس خط میں کانگریسی وزرائے اعلیٰ کوسادگی اور ایمانداری کے ساتھ حکومت کرنے کی نصیحت کرتے ہوئے لکھا کہ :’’میں آپ کے سامنے ابوبکرؓ اورعمرؓ کی مثال پیش کرنا چاہتا ہوں۔ رام اور کرشن تو ماقبل تاریخ کے کردار ہیں، میں ان کے نام مثال کے طور پرپیش نہیں کرسکتا۔ تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ مہارانا پرتاپ اور شیواجی بھی سادگی کا پیکر تھے لیکن جب وہ اقتدار میں آئے توانہوں نے جو کچھ کیا اس پر لوگوں کی رائیں مختلف ہیں،تاہم پیغمبرؐ اسلام اور ان کے خلفا حضرت ابوبکر ؓاور حضرت عمر ؓکے بارے میں آرا میں کوئی اختلاف نہیں ہے۔ د نیا بھر کی دولت ان کے قدموں میں تھی ،اس کے باوجود انہوں نے جس مشقت اور سادگی کی زندگی گزاری تاریخ میں اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔‘‘ مہاتما گاندھی نے مزید لکھاکہ ’’ اگر کانگریسی وزراء اسی طرح کی سادگی کا مظاہرہ کریں تو اس سے ملک کا ہزاروںروپیہ بچے گا اور غریبوں اور ناداروں کو امید کی کرن دکھائی دے سکتی ہے اور حکومت کے کام کاج پر بھی اس کا بہتر اثر پڑے گا۔‘‘مہاتما گاندھی کا یہ خط Collected Works of Mahatama Gandhi میں موجود ہے اور یہ 17جولائی 1937ء کو ان کے اخبار ’ہریجن ‘ میں بھی شائع ہوچکا ہے۔ سیمی کے خلاف پابندی کو برقرار رکھنے کے لئے دلائل اور ثبوت کے طورپر حکومت کی طرف سے عدالتی ٹریبونل میں پیش کیا گیا یہ حلف نامہ دراصل بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کی اس سوچ کی عکاس ہے ، جس کی بنا پر وہ ملک کے مختلف حصوں میں تعلیم کے فروغ کے لئے اسکالرشپ اور غریب و نادار بچوں کی پرورش کے لئے مختلف سطحوں پرسرگرم مسلم تنظیموں کو بھی سیمی کا اتحادی بتا کران کے خلاف کارروائی کررہی ہیں۔حد یہ ہے کہ اس حلف نامے میں اسلام کی بنیادی تعلیمات کے فروغ کو بھی انتہاپسندی قرار دینے کی کوشش کی گئی ہے۔ قرآن اور سنت کی بنیاد پر زندگی گزارنے اور اسلام کی تبلیغ و اشاعت کو بھی انتہا پسندی کے زمرے میں ڈال دیاگیاہے۔ اس حلف نامہ اور بھارتی سکیورٹی ایجنسیوں کے رویہ سے ظاہر ہے کہ راہول گاندھی کا یہ بیان کسی طوفان کا پیش خیمہ ہے۔لگتا ہے کہ یہ ایجنسیاںمظفر نگر فسادات کا بدلہ لینے کے لیے ایک سازش کے تحت گرفتاریوں کی تیاریاں کررہی ہیں۔ گزشتہ دس برسوں سے بھارت میں کانگریس کی حکومت ہے اور تمام تر ناراضگیوں کے باوجود مسلمانوں کی اکثریت اس پارٹی کو ووٹ دیتی ہے۔اس لیے اس پارٹی سے امید کی جاتی ہے کہ مسلمانوں کے حق میں ذمہ دارانہ رویہ اختیار کرے گی اور انہیں مجبور و مقہور نہیں بننے دے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved