بنگلہ دیش کی سیاسی‘ سماجی صورتحال ابھی اُس بہتے لاوے کی طرح ہے جو پگھلی چٹانوں کی شکل میں زمین کو بھسم کرتا چلا جاتا ہے اور جسے ٹھنڈا ہونے میں وقت لگتا ہے۔ اسے ذرا سا ہلائیں تو بہتی نارنجی آگ نمودار ہوتی ہے۔ عبوری حکومت بن چکی اور وزرا کے اقدامات اور بیانات بھی سامنے آنا شروع ہوچکے۔ تعلیمی ادارے کھل چکے‘ پولیس کی ہڑتال ختم ہوچکی اور چیف جسٹس سمیت سپریم کورٹ کے کئی ججز گھر بھیجے جاچکے۔ عوامی لیگ کے من پسند سرکاری عہدیدار بھاگ رہے ہیں یا انہیں نکالا جارہا ہے۔ یہ استعفے انتظامی رد و بدل نہیں بلکہ اُس عوامی دبائو کا نتیجہ ہیں جس نے حسینہ واجد سمیت عوامی لیگ کی حکومت اس طرح الٹا کر رکھ دی‘ جیسے کاغذی تخت ہوتے ہیں۔ لیکن جبر و استبداد‘ قتل و غارت کی جو بھیانک رات اس ملک پر گزری ہے‘اس میں سامنے کھڑا ہونے والا کوئی تھا ہی نہیں‘ اور اس کارنامے پر حسینہ واجد کو' آئرن لیڈی‘ کا خطاب دیا جاتا تھا۔ جسے 'فولادی عورت‘ کہا جاتا تھا‘ وہ اس طرح عجلت اور افراتفری میں فرار ہوئی کہ نہ کچھ کہنے کا موقع مل سکا نہ ذاتی سامان ساتھ لے جانے کا۔ وہ کوششیں بھی کامیاب نہ ہوئیں جو کوٹہ سسٹم کو پانچ فیصد تک محدود کرنے اور رضاکار کی تشریح سے متعلق تھیں۔ جان بچانے کیلئے آخری وقت میں ڈکٹیٹر جو کچھ کیا کرتے ہیں‘ وہ سب کیا گیا۔ سینکڑوں افراد کی جانیں لینے کے بعد مخالفین کے مطالبے مان لینے کی کوشش بھی کی گئی‘ لیکن وہ احسان دانش کا مصرع ہے نا:
وفا کی مہلت نہ مل سکے گی‘ جفا کے امکاں نہیں رہیں گے
ایک مرحلے پر یہ سب بے سود رہتے ہیں۔ اب حسینہ واجد پر نسل کشی کے مقدمے مقامی عدالتوں میں بھی قائم ہو رہے ہیں اور عالمی عدالت میں بھی۔ جوسیاسی درجہ حرات اور قوم کی جو کیفیت ہے‘ اس میں قرین قیاس ہے کہ حسینہ واجد عدالتی مجرم قرار پائیں اور ان کیلئے بنگلہ دیش واپسی‘جواس سے پہلے بھی لگ بھگ ناممکن تھی‘ سو فیصد ناممکن ہو جائے۔ حسینہ واجد اور شیخ مجیب الرحمن کے مجسمے اور تصویریں ہٹا دی گئی ہیں یا انہیں مسخ کردیا گیا ہے۔ صرف انہی دونوں کے نہیں بلکہ ملک بھر میں جو بھی مجسمہ نظر آتا ہے‘ گرادیاجاتا ہے۔ سپریم کورٹ میں نصب یونانی دیوی تھیمیس (Themis) کا وہ متنازع مجسمہ بھی‘ جس کی تنصیب پرمخالف تحریک اٹھی تھی اوربعد ازاں عمارت کے سامنے سے ہٹا کر اسے دوسری جگہ نصب کردیا گیا تھا۔ اب یہ مجسمہ توڑ دیا گیا ہے۔ یہی نہیں‘ 1971ء کی جنگ کی جو یادگاریں بنائی گئی تھیں انہیں بھی گرایا جا رہا یا توڑا پھوڑا جا رہا ہے۔ کیا یہ صرف حسینہ واجد اور عوامی لیگ سے نفرت کا اظہار ہے یا اس کے پس منظر میں اور بھی عوامل ہیں ؟یہ الگ بحث ہے! میں سمجھتا ہوں کہ اس توڑ پھوڑ کو حسینہ واجد کے جبر و استبداد تک محدود نہیں رکھا جاسکتا۔ اس کے پس منظر میں اور بھی بہت کچھ ہے۔ اس مجسمہ شکنی اور توڑ پھوڑ کے حق اور مخالفت میں دونوں طرح کی آوازیں بلند ہوئی ہیں۔ لیکن فی الحال ہمیں اس سے ہٹ کر اس صورتحال کے اسباب کا تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے۔
صورتحال ابھی سیال ہے اور روز بروز بدل رہی ہے‘ تاہم دو باتیں اس وقت تک بدیہی ہیں۔ ایک تو عوامی لیگ سے نفرت‘ دوسری بھارت مخالف جذبات۔ ایسے میں عبوری حکومت کیلئے عوامی جذبات کو سامنے رکھتے ہوئے بہت سنبھل کر چلنا ضروری ہے۔ حسینہ واجد پر جس طرح مقدمات قائم ہورہے ہیں‘ ممکن ہے کہ بھارت سے ان کی حوالگی کا مطالبہ بھی کیا جائے۔ خارجہ امور کے مشیر نے یہ امکان ظاہر کیا بھی ہے۔ لیکن یہ مطالبہ نہ بنگلہ دیش کیلئے آسان ہوگانہ اس پر عمل بھارت کیلئے۔ تین طرف سے بھارت سے گھرا ہوا اور بہت سی ضرورتوں کیلئے بھارت پر انحصار کرنے والا ملک محدود قدم ہی اٹھا سکتا ہے۔ لیکن اگر یہ مطالبہ کیا گیا تو یہ بھارت کیلئے بڑی آزمائش ہوگی۔ حسینہ واجد کو بنگلہ دیش کے سپرد کرنا بھی ناممکن ہو گا اوربنگلہ دیشیوں کی ناراضی مول لینا بھی مزید مسائل پیدا کرے گا۔ نیز عوامی لیگ بطور سیاسی جماعت کوئی کردار ادا کرنے کے قابل رہے گی یا نہیں‘ یہ بھی سوالیہ نشان ہے۔ جس طرح مقدمات قائم ہورہے ہیں‘ عوامی لیگ کے اہم لوگوں کیلئے اس وقت جان بچانا بھی مشکل ہو رہا ہے۔ اگر آئندہ چند ماہ میں انتخابات کا اعلان ہوتا ہے اور عوامی لیگ پابندی سے بچ جاتی ہے تب بھی کسی بڑے رہنما کی عدم موجودگی اور پھیلی ہوئی عوامی نفرت کے سامنے وہ ٹک نہیں سکے گی۔
حسینہ واجد کا تختہ الٹنے کے بعد بھی آگ بجھی نہیں۔ 15 اگست شیخ مجیب الرحمن کا یومِ وفات ہے۔ اس دن سرکاری چھٹی ہوتی اور بڑی ریلیاں نکالی جاتی تھیں۔ دھان منڈی کی شیخ مجیب کی رہائش گاہ کو میوزیم بنا دیا گیا تھا۔ حالیہ دنوں مظاہر ین نے اس میوزیم کو آگ لگا دی۔ حسینہ واجد نے بھارت سے ایک بیان میں اپنے لوگوں سے اپیل کی کہ وہ سوگ کا دن منائیں‘ مگر عبوری حکومت نے 15 اگست کی چھٹی منسوخ کردی۔ طالبعلموں نے ایک بڑے جلوس کی شکل میں اس رہائشگاہ کی طرف مارچ کیا اوروہاں موجود عوامی لیگ کے لوگوں سے مار پیٹ کی۔ طلبہ رہنمائوں نے کہا کہ ایک جوابی انقلاب کی کوشش کی جارہی ہے لیکن ہم لوگ اس انقلاب کے نتائج کو ضائع نہیں ہونے دیں گے۔ اس طرح عوامی لیگ کی سنبھلنے کی کوشش فی الحال ناکام ہوگئی ہے۔
عبوری حکومت کے ارکان کے نام اور ان کے تعارف سامنے آچکے مگر چونکہ آئین میں اس طرح کی حکومت کی کوئی گنجائش نہیں‘ اس لیے انہیں وزیروں کا نہیں‘ مشیروں کا نام دیا گیا ہے۔ سربراہ ڈاکٹر محمد یونس نوبیل انعام یافتہ ماہر معاشیات اور گرامین بینک کے بانی ہیں۔ ایک زمانے میں انہوں نے اپنی سیاسی پارٹی بھی بنائی تھی لیکن وہ چل نہیں پائی۔ وہ حسینہ واجد کے معتوب رہے ہیں اوران پربدعنوانی کا ایک مقدمہ قائم تھا جس سے اب وہ بری ہوگئے ہیں۔ حالیہ تحریک کے دو طالبعلم رہنمائوں‘ ناہد اسلام اور محمد آصف نذرل سمیت دو ریٹائرڈ فوجی افسر اور حفاظت اسلام تحریک کے نائب امیر ابوالفضل محمد خالد حسین بھی عبوری حکومت میں شامل ہیں۔ عبوری حکومت کی ذمہ داری ملکی انتظام و انصرام سنبھالنے کے ساتھ نئے انتخابات بھی ہیں۔ فی الحال حکومت میں طاقت کا مرکز طالبعلم رہنمانظر آتے ہیں۔ ان کی طاقت اسی سے جانیے کہ مشیر داخلہ جنرل سخاوت حسین نے ایک بیان میں عوامی لیگ کی تعریف کی تو اس کی پاداش میں ان کو داخلہ سے پٹ سن کی وزارت میں بھیج دیا گیا۔ نیز طلبہ تحریک اب اپنی الگ سیاسی پارٹی بنانے پر غور کر رہی ہے جو زیادہ بہتر راستہ ہوگا۔ بیشتر لوگوں کا احساس ہے کہ محمد یونس محض ایک چہرہ ہیں جن کے پاس قوت نہیں ہے۔
فوج ایک طاقت ضرور ہے لیکن وہ حسینہ واجد سے الگ ہونے پر دو وجوہ سے مجبور ہوئی۔ ایک تو نچلے‘متوسط افسران کا مظاہرین کے ساتھ مل جانا اور مزید طاقت کے استعمال سے انکار کرنا۔ دوسری‘ بہت طاقتور عوامی لہر۔ یہ ان دونوں عوامل کے سامنے اب بھی کمزور رہے گی۔ آپ کو یاد ہو گا کہ بنگلہ دیش رائفلز کے نچلے اور متوسط فوجی افسران نے سینئر فوجی افسروں کے خلاف فروری 2009ء میں جو بغاوت کی تھی اس میں 57سینئر افسران سمیت 74 لوگوں کو مار دیا گیا تھاجن میں بنگلہ دیش رائفلز کا چیف بھی شامل تھا۔ ان میں بہت سوں کو نہایت سفاکی سے مار اگیایا زندہ جلایا گیا۔ اس لیے نچلے اور متوسط افسران کی مسلح بغاوت کا خطرہ ہمیشہ موجود رہتا ہے۔ چنانچہ آرمی کو جب اندازہ ہوا کہ اب ماتحت افسر اور سپاہی ان کے احکامات کی تعمیل نہیں کریں گے تو حسینہ واجد سے الگ ہونا اس کی مجبوری تھی۔
بھرپورعوامی لہر کے بغیر یہ نتائج ممکن نہیں تھے۔ طاقت اس وقت بھی اسی لہر کے ہاتھ میں ہے۔ بنگلہ دیش کے اگلے انتخابی نتائج بھی بہت اہم ہیں۔ کیا تب تک یہ لہر قائم رہے گی ؟ ہر لہر کو ایک دن ختم ہونا ہوتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ طالبعلم اس لہر کی موجودگی میں کیا فائدے اٹھا سکتے ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved