ہمارے معاشرے میں حسد کی بیماری عام ہے۔ عمومی طور پر لوگ کسی کے پاس کسی نعمت یا خوبی کو دیکھ کر خوش ہونے کے بجائے اس بات کی تمنا شروع کر دیتے ہیں کہ وہ نعمت یا خوبی اس سے چھن جائے اور زائل ہو جائے۔ حسد کئی مرتبہ انسان کو اس سطح تک لے جاتی ہے کہ جہاں وہ ہر وقت جلن کی کیفیت میں مبتلا رہتا ہے اور محسود کو ملنے والی نعمت اور خوبی کے زوال کے بغیر اسے کسی بھی طور چین نہیں پڑتا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب حضرت آدم علیہ السلام کو تخلیق کیا اور ان کو صفتِ علم سے متصف کیا تو اللہ تبارک وتعالیٰ نے فرشتوں کو ان کے سامنے جھکنے کا حکم دیا۔ ان فرشتوں کی جماعت میں عزازیل نامی ایک جن بھی موجود تھا‘ جو کثرتِ ریاضت کی وجہ سے فرشتوں کا ہم نشین ہو گیا تھا۔ اس نے حضرت آدم علیہ السلام کی فضیلت کا اعتراف کرنے کے بجائے اپنے آپ کو بہتر گردانا اور آدم علیہ السلام کے سامنے جھکنے سے انکار کر دیا۔ اللہ تعالیٰ نے اس کو اس نافرمانی کی وجہ سے مردود قرار دے کر راندۂ درگاہ بنا دیا۔ اس وقت سے لے کر آج تک ابلیس اور اس کی ذریت اولادِ آدم کو بھٹکانے میں مشغول ہے۔
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآن مجید میں حضرت آدم علیہ السلام کے دو بیٹوں کا واقعہ بھی بیان فرمایا ہے‘ جس میں سے ایک بیٹے کی قربانی کے قبول ہونے کی وجہ سے دوسرا بیٹا حسد کا شکار ہو گیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ المائدہ کی آیات 27 تا 30 میں اس واقعہ کو کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''آدم کے دونوں بیٹوں کا کھرا کھرا حال بھی انہیں سنا دو۔ ان دونوں نے ایک نذرانہ پیش کیا‘ ان میں سے ایک کی نذر تو قبول ہوگئی اور دوسرے کی مقبول نہ ہوئی تو وہ کہنے لگا کہ میں تجھے مار ہی ڈالوں گا۔ اس (پہلے) نے کہا: اللہ تقویٰ والوں کا ہی عمل قبول کرتا ہے۔ گو تو میرے قتل کے لیے دست درازی کرے لیکن میں تیرے قتل کی طرف ہرگز اپنے ہاتھ نہ بڑھائوں گا۔ میں تو اللہ پروردگارِ عالم سے خوف کھاتا ہوں۔ میں تو چاہتا ہوں کہ تُو میرا گناہ اور اپنے گناہ اپنے سر پر رکھ لے اور دوزخیوں میں شامل ہو جائے (اور) ظالموں کا یہی بدلہ ہے۔ پس اسے اس کے نفس نے اپنے بھائی کے قتل پر آمادہ کر دیا اور اس نے اسے قتل کر ڈالا‘ جس سے نقصان پانے والوں میں سے ہو گیا‘‘۔
اللہ تبارک وتعالیٰ جہاں قاتل کے خسارے کا ذکر کرتے ہیں وہیں سورۃ المائدہ کی اگلی آنے والی آیت میں اس بات کا بھی ذکر کرتے ہیں کہ قاتل کو اپنے جرم پر پردہ ڈالنے اور اپنے بھائی کی موت کے بعد اس کو دفن کرنے کا طریقہ بھی نہیں آتا تھا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ایک کوے کے ذریعے قاتل کو یہ بات سجھائی کہ اپنے بھائی کی لاش کو کیسے سپردِ خاک کرنا ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس بات کو سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 31 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''پھر اللہ نے ایک کوے کو بھیجا جو زمین کھود رہا تھا تاکہ اسے دکھائے کہ وہ کس طرح اپنے بھائی کی نعش کو چھپا دے۔ وہ کہنے لگا: ہائے افسوس! کیا میں ایسا کرنے سے بھی گیا گزرا ہوگیا کہ اس کوے کی طرح اپنے بھائی کی نعش کو دفنا دیتا؟ پھر تو (بڑا ہی) پشیمان اور شرمندہ ہو گیا‘‘۔
اللہ نے قرآن مجید میں اس بات کا بھی ذکر کیا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے حضرت ابراہیم علیہ السلام اور ان کی آل کو اپنے فضل سے خصوصی مقام عطا کیا لیکن بہت سے لوگ اللہ تبارک وتعالیٰ کی اس عطا پر ان سے اور ان کی آل سے حسد کرتے رہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ النساء کی آیت 54 میں ارشاد فرماتے ہیں ' 'یا یہ لوگوں سے حسد کرتے ہیں اس پر جو اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا ہے‘ پس ہم نے تو آلِ ابراہیم کو کتاب اور حکمت بھی دی ہے اور بڑی سلطنت بھی عطا فرمائی ہے‘‘۔
نبی کریمﷺ کی ذاتِ اقدس پر اللہ تبارک وتعالیٰ نے جب وحی کا نزول فرما کر آپﷺ کے سر پہ تاجِ نبوت و رسالت کو رکھا تو بہت سے لوگ آپﷺ سے بلاوجہ حسد کا شکار ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے ابوجہل کی اس بات کو قرآنِ مجید کا حصہ بنایا کہ اس نے اللہ تبارک وتعالیٰ سے ہدایت طلب کرنے کے بجائے آپﷺ پر نزولِ وحی کے بعد عذاب کی دعا مانگی تھی۔ اللہ تبارک وتعالیٰ سورۃ الانفال کی آیت 32 میں ارشاد فرماتے ہیں: ''اور جبکہ ان لوگوں نے کہا کہ اے اللہ! اگر یہ قرآن تیری طرف سے واقعی (حق) ہے تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا ہم پر کوئی دردناک عذاب واقع کر دے‘‘۔
یہود آخری نبی کے انتظار میں یثرب میں آ کر آباد ہوئے لیکن جب ان کو اس بات کا علم ہوا کہ نبی کریمﷺ آلِ اسحاق کے بجائے آلِ اسماعیل میں سے ہیں تو انہوں نے آپﷺ سے بغض اور عداوت کا اظہار کرنا شروع کر دیا اور یہاں تلک کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے بارے میں بھی عداوت میں مبتلا ہو گئے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ اس حقیقت کو سورۃ البقرہ کی آیات 97 تا 99 میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں ''(اے نبی!) آپ کہہ دیجئے! جو شخص جبرائیل کا دشمن ہے‘ تو بے شک اس نے اس (قرآن) کو آپ کے دل پر اللہ کے حکم سے اتارا ہے‘ جو اپنے سے پہلے کی (آسمانی) کتب کی تصدیق کرنے والا اور مومنوں کو ہدایت اور خوشخبری دینے والا ہے (تو اللہ بھی اس کا دشمن ہے)۔ جو شخص اللہ کا اور اس کے فرشتوں اور اس کے رسولوں اور جبرائیل اور میکائیل کا دشمن ہو‘ ایسے کافروں کا دشمن خود اللہ ہے۔ اور یقینا ہم نے آپ کی طرف روشن دلیلیں بھیجی ہیں جن کا انکار سوائے بدکاروں کے کوئی نہیں کرتا‘‘۔
آیاتِ مذکورہ سے اس بات کو جاننا کچھ مشکل نہیں کہ اللہ کی عطا کردہ نعمتوں پر کس انداز سے حسد کیا جاتا رہا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ کے حبیب علیہ الصلوٰۃ والسلام نے اہلِ ایمان کو ایک دوسرے کے ساتھ حسد کرنے سے منع کیا ہے۔ اس حوالے سے بعض اہم احادیث درج ذیل ہیں:
صحیح بخاری میں حضرت عقبہ بن عامرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک دن مدینہ سے باہر نکلے اور شہدائے احد پر نماز پڑھی‘ جیسے میت پر پڑھتے ہیں (یعنی نمازِ جنازہ)۔ اس کے بعد آپﷺ منبر پر تشریف لائے اور فرمایا ''میں (حوضِ کوثر پر) تم سے پہلے پہنچوں گا اور قیامت کے دن تمہارے لیے میر سامان بنوں گا۔ میں تم پر گواہی دوں گا اور اللہ کی قسم میں اپنے حوضِ کوثر کو اس وقت بھی دیکھ رہا ہوں‘ مجھے روئے زمین کے خزانوں کی کنجیاں دی گئی ہیں اور قسم اللہ کی مجھے تمہارے بارے میں یہ خوف نہیں کہ تم شرک کرنے لگو گے۔ میں تو اس سے ڈرتا ہوں کہ کہیں دنیا داری میں پڑ کر ایک دوسرے سے رشک وحسد نہ کرنے لگو۔
صحیح بخاری میں حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا ''بدگمانی سے بچتے رہو کیونکہ بدگمانی کی باتیں اکثر جھوٹ ہوتی ہیں ‘ لوگوں کے عیوب تلاش کرنے کے پیچھے نہ پڑو‘ آپس میں حسد نہ کرو‘ کسی کی پیٹھ پیچھے برائی نہ کرو‘ بغض نہ رکھو بلکہ سب اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو‘‘۔
صحیح بخاری میں حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا ''آپس میں بغض نہ رکھو‘ حسد نہ کرو‘ پیٹھ پیچھے کسی کی برائی نہ کرو بلکہ اللہ کے بندو! آپس میں بھائی بھائی بن کر رہو اور کسی مسلمان کے لیے جائز نہیں کہ ایک بھائی کسی بھائی سے تین دن سے زیادہ سلام کلام چھوڑ کر رہے‘‘۔
حسد اور بغض کے اثراتِ بد سے بچنے کے لیے انسان کو کثرت سے معوذتین (آخری دوسورتوں) کی تلاوت کرنی چاہیے اور احادیث میں مذکور اذکارِ مسنونہ کا وِرد کرنا چاہیے۔ جب انسان صدقِ دل سے اللہ تبارک وتعالیٰ سے پناہ طلب کرتا ہے تو اللہ تبارک وتعالیٰ اس کو پناہ عطا فرما دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہم سب کو حسد کرنے سے بچائے اور حاسدین کے حسد اور شر سے محفوظ فرمائے‘ آمین!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved