تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     20-08-2024

یادش بخیر…(3)

روز دیہاڑی کے ان جلسے جلوسوں نے اُس زمانے میں خیر سے ہمارے سیاسی شعور کو کیا بلوغت بخشنا تھی‘ تاہم اس ساری ہنگامہ آرائی‘ لاٹھی چارج اور بھاگ دوڑ کا نتیجہ یہ نکلا کہ ہمارے دل سے اس قسم کی صورتحال کا رہا سہا خوف بھی نکل گیا اور جو کام کالج میں جا کر سیکھنا تھا وہ اس سے پانچ سال قبل ہی اپنے ہمسایوں کی کارگزاری اور بھائی طارق کی کمپنی کے طفیل سیکھ لیا۔ بعد میں جب کالج اور یونیورسٹی کے زمانے میں طلبہ سیاست کے سلسلے میں تھانہ‘ کچہری اور جیل آنا جانا شروع ہوا تو ابا جی تو اتنے خفا تھے کہ انہوں نے مکمل لاتعلقی کا رویہ اختیار کر لیا۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت نصیب کرے بھائی طارق مرحوم کو کہ انہوں نے ہر قسم کی پیروی بھی کی اور دیگر سہولتوں کا بندوبست بھی کرتے رہے۔ کبھی کبھار وہ مجھے ان کاموں سے دور رہنے کی نصیحت کرتے تو میں ہنس کر کہتا کہ میں نے ابھی تک ابا جی کو یہ نہیں بتایا کہ مجھے یہ ساری علت آپ کی صحبت کی وجہ سے لگی ہے اور اس ساری خرابی کے پیچھے آپ کا ہاتھ اور تربیت ہے۔ وہ ہنس پڑتے اور مجھے اپنے ساتھ لپٹا کر کہتے کہ مجھے تمہاری فکر رہتی ہے اور جلسے جلوسوں اور سٹوڈنٹس پالیٹکس سے زیادہ مجھے تمہاری لڑائی جھگڑے والی طبیعت سے خوف آتا ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ میری ساری بے خوفی‘ تھانے کچہری آمدورفت‘ جیل کے شب و روز اور لڑائی جھگڑوں کے پس منظر میں یہ ہوتا تھا کہ بھائی پیچھے موجود ہے۔ ابا جی سے تو صرف ڈانٹ ڈپٹ اور کان کھینچنے کے علاوہ اور کوئی امید نہیں ہوتی تھی۔ یہ یقین ہوتا تھا کہ بھائی طارق سب کچھ سنبھال لیں گے۔ پھر واقعی یوں ہوا کہ ان کے رخصت ہوتے ہی طبیعت میں عجب سی تبدیلی آئی اور سب کچھ تبدیل ہو گیا۔ پھر حوصلہ ہی نہ ہوا کہ ابا جی یہ پریشانیاں اکیلے برداشت کریں۔ بھائی طارق کی رحلت نے تو گویا زندگی کا دھارا ہی موڑ کر رکھ دیا۔
ایوب خان کے خلاف جاری تحریک روز بروز زیادہ پُرجوش ہوتی گئی۔ جلسے جلوس بھی پہلے سے زیادہ ہنگامہ خیز ہو گئے۔ طلبہ کی جانب سے پتھراؤ اور پولیس کی جانب سے لاٹھی چارج اور آنسو گیس تو تقریباً معمول کی سی صورتحال بن چکے تھے۔ اسی دوران ایک روز معاملہ آنسو گیس اور لاٹھی چارج سے بڑھ کر گولی چلنے تک پہنچ گیا اور اس میں ایمرسن کالج کا ایک طالبعلم جودت کامران جاں بحق ہو گیا۔ جودت کامران غالباً ملتان کے ایک بہت نیک نام اور قابل ڈاکٹر وانیا کا بیٹا تھا۔ مجھے ڈاکٹر وانیا کا نام اس لیے یاد رہ گیا ہے کہ اللہ بخشے ماں جی بتایا کرتی تھیں کہ مجھے بچپن میں ٹائیفائیڈ ہو گیا اور ایک ڈاکٹر کی غلط دوائی کا ری ایکشن ایسا شدید ہوا کہ میرا رنگ نیلا کالا ہو گیا(یہ ماں جی کی محبت تھی وگرنہ میرا رنگ بچپن میں بھی زیادہ صاف نہیں تھا)۔ میرے ہاتھ پاؤں مُڑ گئے اور آنکھیں بند ہو گئیں۔ صرف سانس تھا جو آہستہ آہستہ چل رہا تھا۔ جب ابا جی مجھے ڈاکٹر وانیا کے پاس لے کر گئے تو اس نے پہلے تو تاخیر سے آنے پر خفگی کا اظہار کیا اور پھر ایک پُڑیا بنا کر اس میں پانی ملایا اور سرنج کے ذریعے میرے منہ میں ڈال دی۔ بقول ماں جی میں نے چند منٹ بعد ہی آنکھیں کھول دیں۔ ماں جی تا عمر ڈاکٹر وانیا کو دعائیں دیتی رہیں۔ جودت کامران کی موت نے ملتان میں طلبہ تحریک میں زیادہ جوش و خروش پیدا کردیا۔ اللہ جانے اس میں کتنا سچ ہے اور کتنی مبالغہ آرائی مگر عینی شایدین کے مطابق (مبینہ طور پر) پولیس نے گولی تو طلبہ کی ٹانگوں پر چلائی تھی مگر جودت کامران اپنا گرا ہوا سائیکل اٹھانے کیلئے نیچے جھکا تو ٹانگوں کی سمت چلائی گئی گولی اس کے سر میں لگ گئی اور یوں وہ موت کے منہ میں چلا گیا۔ اس کے کچھ عرصہ بعد ایوب خان نے استعفیٰ دے کر اقتدار یحییٰ خان کے حوالے کردیا‘ اس کے بعد سب تاریخ کا حصہ ہے۔
سکول میں حسبِ معمول پڑھائی شروع ہو گئی۔ ہم کافی عرصہ تک پہلے اور دوسرے پیریڈ کے بعد کالج کے جلوس کے طفیل ہونے والی چھٹیوں کو یاد کرکے اداس ہوتے رہے۔ آہستہ آہستہ زندگی اور پڑھائی معمول پر آ گئی۔ ہم جلسے جلوس بھول گئے۔ اگلے سال پھر کالج کے الیکشن آئے تو کرش ہال کی ساری رونقیں گویا نئے سرے سے زندہ ہو گئیں۔ وہ دس پندرہ دن ہم دوبارہ اپنے سارے معمول چھوڑ کر ''آدھی چھٹی‘‘ کے وقت کالج کے کرش ہال میں آ جاتے تھے اور ساری انتخابی ہنگامہ آرائی سے لطف لیتے تھے۔ ان الیکشنوں کی دیکھا دیکھی بعد میں ہم نے اپنے ہیڈ ماسٹر فیض محمد خان صاحب سے سکول میں الیکشن کروانے کا مطالبہ کیا۔ جواب میں انہوں نے ایسی طبیعت صاف کی کہ پھر دوبارہ اس قسم کا مطالبہ کرنے کی ہمت نہ ہوئی۔ فیض محمد خان صاحب نے نہ صرف خود اچھی خاصی ڈانٹ ڈپٹ کی بلکہ ابا جی کو ماسٹر ظہور الحق صاحب کے ذریعے شکایت بھی بھجوائی۔ اس پر گھر میں علیحدہ سے کلاس لی گئی‘ تاہم اس ساری ناکامی نے ہماری طبیعت میں آزادیٔ اظہار اور اپنی بات کہنے کا حوصلہ ضرور پیدا کیا۔
راوی اس کے بعد چین لکھتا ہے‘ تاہم تھوڑے ہی عرصے کے بعد جودت کامران کی پہلی برسی آ گئی۔ ایمرسن کالج سے اُس روز بہت بڑا جلوس نکلا اور حسبِ معمول ہمیں چھٹی کروانے اور لاسال ہائی سکول کو بند کروانے کے بعد اپنے پرانے روٹ پر یعنی چوک کچہری کی طرف چل پڑا۔ ویسے بھی جودت کامران کی جائے شہادت اسی طرف تھی۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ جودت کامران کو جس جگہ گولی لگی تھی وہ ایمرسن کالج کی پرانی عمارت‘ جو اَب گرلز ڈگری کالج تھا‘ سے گھنٹہ گھر کی طرف جاتے ہوئے موجود ہیلتھ ڈیپارٹمنٹ کے دفتر سے تھوڑا پہلے تھی۔ اس جگہ پر سڑک کے بائیں طرف دو کوٹھیوں کے دروازوں کے درمیان میں چار پانچ فٹ کی خالی جگہ پر ایک سیمنٹ کے ستون پر بڑا سا سنگ مر مر کا کتبہ بھی لگا ہوتا تھا جس پر اس واقعے کی ساری تفصیل درج تھی۔ چند سال قبل میں نے یہ کتبہ تلاش کرنے کی کوشش کی مگر مجھے دکھائی نہیں دیا۔ اس جگہ واقع گھروں کی ساری ترتیب بدل چکی تھی۔ بہت سے گھر ختم ہو کر دکانوں میں تبدیل ہو چکے تھے۔ خدا جانے یہ کتبہ کہاں گیا اور وہ جگہ کس دکان کا حصہ بن گئی‘ مگر فٹ پاتھ کے ساتھ بالکل دیوار سے جڑا ہوا یہ کتبہ‘ جو کسی قسم کی رکاوٹ کا باعث بھی نہیں تھا‘ اپنی جگہ پر موجود نہ تھا۔
جودت کامران کی پہلی برسی پر نہ صرف ایمرسن کالج کے طلبہ بلکہ شہر کے دیگر کالجوں سے‘ جن میں ولایت حسین اسلامیہ کالج‘ عملدار حسین اسلامیہ کالج اور گورنمنٹ کالج سول لائنز کے طلبہ شامل تھے‘ اس جگہ پر پہنچے جہاں جودت کامران کو گولی لگی تھی۔ بڑا بھرپور جلسہ تھا اور میں حسبِ معمول ابا جی کی ہدایت پر بھائی طارق کے ساتھ 'سیدھا گھر جاتے ہوئے‘ باہمراہ جلوس اس جگہ پہنچا۔ بہت جذباتی اور زور دار تقاریر ہوئیں۔ اس دوران کسی لڑکے نے ایک نظم پڑھی۔ مجھے وہ نظم پوری طرح تو یاد نہیں مگر اس کے چند مصرعے اب بھی ذہن میں ہیں۔ جودت کامران کالج کی کرکٹ ٹیم کا کھلاڑی تھا اور بہت اچھا کرکٹر تھا۔ اس کے اسی پہلو کو مدنظر رکھتے ہوئے نظم میں کچھ مصرعے تھے‘ ممکن ہے ان میں کچھ اونچ نیچ ہو جائے مگر تقریباً ایسے ہی تھے:
گیند سیسے کا تھا وکٹیں ہڈیوں کی تھیں؍ بال جج نہ ہوئی وکٹیں ریزہ ہوئیں؍ کامراں گر گیا۔ بے زباں گر گیا... جلسے کے اختتام پر معاملہ نعرے بازی سے ہوتا ہوا پتھراؤ پر پہنچ گیا تو دوسری طرف سے اس کا جواب لاٹھی چارج اور آنسو گیس کی صورت میں دیا گیا۔ حسبِ معمول بھگدڑ مچی اور اس میں ہم دونوں بھائی پھر بچھڑ گئے مگر اب پہلے والی صورتحال نہ تھی اور ہم دونوں نے اس صورتحال سے گھبرانے کے بجائے ہینڈل کرنا سیکھ لیا تھا۔ ہم دونوں بھائی چوک شہیداں ریاض بوتلوں والے کی دکان پر اکٹھے ہوئے۔ ریاض بھائی سے مفت میں بوتلیں پیں اور ہنستے ہوئے گھر روانہ ہو گئے۔
کالج پہنچنے کے بعد جس پہلی طلبہ تحریک کا حصہ بنے وہ بنگلہ دیش نامنظور تحریک تھی۔ لیکن یہ سب کچھ تھوڑے وقفے کے بعد۔ (ختم)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved