وہ پاکستان کے شہر گوجرانوالہ میں پیدا ہوا۔ ماں باپ نے اس کا نام روشن رکھا تھا۔ یہ اس کے نام کی تاثیر تھی یا موسیقی کے لیے اس کا جنون کہ وہ موسیقی کے آسمان پر آفتاب بن کر چمکا۔ اس کے مدھر سُروں نے لوگوں کے دلوں پر راج کیا۔ کیسے کیسے گیت تھے جو روشن کی موسیقی میں امر ہو گئے۔ ''جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘، ''رہیں نہ رہیں ہم‘‘، ''تری دنیا میں دل لگتا نہیں واپس بلا لے‘‘۔ روشن کو بچپن ہی سے موسیقی سے دلچسپی تھی۔ اس چنگاری کو شعلہ بننے میں دیر نہ لگی۔ ہوا یوں کہ ایک دن اس نے ریڈیو پر سہگل کی آواز میں ایک بھجن سنا۔ اس دن کمسن روشن نے فیصلہ کر لیا کہ وہ ایک دن موسیقار بنے گا اور دنیا اس کی دھنوں کے سحر میں رہے گی۔ سازوں میں اسے سرود پسند تھا۔ اب وہ اپنے گھر سے نکل کر موسیقی کی دھنوں کی تلاش میں شہر در شہر گھوم رہا تھا۔ کسی نے اسے لکھنؤ میں Marris Collegeکا پتا دیا۔ یہ موسیقی کی تربیت کا تعلیمی ادارہ تھا جس کے پرنسپل ایس این رتن جانکار تھے جو خود موسیقی کے آگرہ گھرانے سے تعلق رکھتے تھے اور کلاسیکل ہندوستانی موسیقی کے ماہر استاد تھے۔ روشن نے موسیقی کے اَسرار و رموز یہاں سے سیکھے لیکن روشن کو سرود بجانے کا شوق تھا اور اس کی خواہش تھی کہ وہ استاد علاء الدین سے موسیقی سیکھے۔ وہ شاگردی کی درخواست لے کر استاد علاء الدین کی خدمت میں حاضر ہوا۔ استاد علاء الدین نے نووارد کو دیکھا اور آنے کا سبب پوچھا۔ روشن نے کہا: آپ کا بڑا نام سنا ہے۔ استاد نے دوبارہ اس کے چہرے کو دیکھا اور کہا :ایک شرط ہے میری۔ روشن نے التجا بھرے لہجے میں کہا کہ کیا شرط ہے آپ کی؟ استاد علا ء الدین نے کہا: تمہیں ہر روز آٹھ گھنٹے تک ریاض کرنا ہو گا۔ یوں روشن نے پوری محنت سے اپنے وقت کے مہان موسیقار استاد علاء الدین سے سیکھنا شروع کیا۔ انہی دنوں خواجہ خورشید انور کی نظر روشن پر پڑی۔ خواجہ آل انڈیا ریڈیو دہلی میں میوزک کے پروگرام کے انچارج تھے۔ انہوں نے نوجوان روشن کو دہلی ریڈیو میں سرود بجانے کے لیے رکھ لیا۔ ریڈیو میں ملازمت روشن کے لیے ایک نیا تجربہ تھا۔ یہاں اسے دوسرے فنکاروں سے ملنے کا موقع ملتا تھا یہ وہ زمانہ تھا جب ریڈیو پر موسیقی کے لائیو پروگرام ہوا کرتے تھے۔ ریڈیو پر ملازمت کا یہ عرصہ 1948ء تک جاری رہا۔
جب روشن نے فلمی دنیا میں قسمت آزمائی کا فیصلہ کیا تو خواجہ خورشید انور پہلے ہی فلمی دنیا کا سفر اختیار کر چکے تھے اور اُن دنوں فلم ''سنگھار‘‘ کی موسیقی ترتیب دے رہے تھے۔ انہوں نے روشن کو اپنے اسسٹنٹ کے طور پر رکھ لیا۔یہ فلمی دنیا سے روشن کی پہلی شناسائی تھی۔ انہی دنوں معروف فلم پروڈیوسر اور ڈائریکٹر کیدار شرما اپنی فلم ''نیکی بدی‘‘ بنا رہے تھے۔ انہوں نے روشن کو اپنی فلم میں موسیقی دینے کی آفر کی۔ روشن کے لیے یہ اس کے خواب کی تعبیر تھی۔ فلم 1948ء میں ریلیز ہوئی لیکن لوگوں کی توجہ حاصل نہ کر سکی۔ یہ صورتحال روشن کے لیے مایوس کن تھی۔ ادھر کیدار شرما اس ناکامی کو بھول کر اپنی اگلی فلم ''باورے نین‘‘ کی تیاری کر رہا تھا۔ کیدار شرما روشن کو ایک اور موقع دینا چاہتا تھا۔ فلم ڈسٹری بیوٹرز کو پتا چلا تو انہوں نے کیدار شرما کو مشورہ دیا کہ فلمی دنیا میں نووار د روشن کے بجائے کسی معروف موسیقار کو موقع دیا جائے۔ لیکن کیدار شرما کو روشن کی صلاحیتوں پر اعتماد تھا۔ اس نے سوچا اگر وہ اگلی فلم میں روشن کو موقع نہیں دے گا تو روشن کا کیریئر ہمیشہ کے لیے ختم ہو جائے گا۔ ادھر قدرت روشن کے مستقبل کا سامان کر چکی تھی۔ روشن کو وہ دن یاد آگیا جب وہ معروف گلوکار انیل بسواس کے پاس بیٹھا تھا۔ اس دن انیل بسواس ایک گانے ''کہاں تک ہم اُٹھائیں غم‘‘ کی دھن بنا رہے تھے۔ بعد میں یہ گیت ''آرزو‘‘ فلم میں استعمال ہوا جو 1950ء میں ریلیز ہوئی۔ انیل بسواس پورے انہماک سے دھن بجا رہے تھے کہ اچانک انہیں کسی کے سسکیاں لینے کی آواز آئی۔ انہوں نے مڑ کر دیکھا تو روشن بیٹھا تھا۔ انیل بسواس نے اسے دیکھا تو روشن انیل بسواس کی گود میں سر رکھ کر بلک بلک کر رونے لگا۔ وہ روتے ہوئے کہہ رہا تھا کہ میں ایسی دھن کب بناؤں گا؟
''باورے نین‘‘ فلم کی موسیقی نے روشن کو راتوں رات ہندوستان کا مقبول موسیقار بنا دیا۔ اس کے بعد روشن نے مڑ کر نہیں دیکھا۔ اگلی فلم 'ہم لوگ‘ (1951ء) تھی جس کے گیت ''سنو سنو دلدار جاؤ گے کہاں دل توڑ کے‘‘ اور ''اپنی نظر سے ان کی نظر تک‘‘ مقبول ہوئے۔ اسی سال روشن کی ایک فلم 'ملہار‘ ریلیز ہوئی جس کی کامیابی میں روشن کی مدھر موسیقی کا بنیادی کردار تھا۔ ملہار کے گیت ریلیز ہوتے ہی گلی کوچوں میں گونجنے لگے۔ ''دل تجھے دیا تھا رکھنے کو‘‘ (مکیش) ''تارا ٹوٹے دنیا دیکھے‘‘ (مکیش) ''کہاں ہو تم ذرا آواز دو‘‘ (مکیش، لتا) ''بڑے ارمانوں سے رکھا ہے قدم‘‘ (مکیش، لتا) ''محبت کی قسمت بنانے سے پہلے‘‘ (لتا) ''اک بار اگر تو کہہ دے‘‘ (مکیش، لتا)۔
روشن کے فنی سفر میں ایک اور سنگِ میل 1960ء میں ریلیز ہونے والی فلم ''برسات کی رات‘‘ تھی۔ اس فلم میں شاعری ساحر لدھیانوی اور موسیقی روشن کی تھی۔ یوں تو اس فلم کے سارے گانے ہی مشہور ہوئے لیکن میں دو گیتوں کا خاص طور پر ذکر کرنا چاہوں گا۔ وہ ''برسات کی رات‘‘ اور ''میں نے شاید تمہیں پہلے بھی کہیں دیکھا ہے‘‘ تھے۔ 1961ء میں ''بابر‘‘ فلم میں روشن کی موسیقی میں سدھا ملہوترا کا گیت ''سلامِ حسرت قبول کر لو‘‘ سدا بہار گیتوں کی فہرست میں شامل ہو گیا۔ 1962ء میں روشن کی فلم ''آرتی‘‘ آئی جس میں روشن کی خوبصورت موسیقی میں دل فریب گیت ''آپ نے یاد دلایا تو مجھے یاد آیا‘‘، ''نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے‘‘، ''لگا چنری میں داغ‘‘ شامل تھے۔ 1963ء میں فلم ''تاج محل‘‘ میں ایک بار پھر روشن کی موسیقی نے لوگوں کے دل موہ لیے۔ ان میں ''جو بات تجھ میں ہے تری تصویر میں نہیں‘‘، ''جو وعدہ کیا وہ نبھانا پڑے گا‘‘، ''پاؤں چھو لینے دو‘‘، ''جرمِ الفت پر ہمیں لوگ سزا دیتے ہیں‘‘ شامل تھے۔ 1964ء میں ریلیز ہونے والی فلم میں روشن کی موسیقی میں محمد رفیع کی آواز میں ''من رے تو کا ہے نہ دھیر دھرم‘‘ امر ہو گیا۔
اگلے چند برسوں میں روشن کی فلمیں بھیگی رات‘ دیور‘ ممتا‘ بہو بیگم اور انوکھی رات ریلیز ہوئیں۔ ان فلموں کے متعدد گیت ابھی تک لوگوں کے دلوں پر نقش ہیں مثلاً ''دل جو نہ کہہ سکا‘‘، ''آیا ہے مجھے پھر یاد وہ ظالم گزرا زمانہ بچپن کا‘‘، ''بہاروں نے مرا چمن لوٹ ڈالا‘‘، ''ان بہاروں میں اکیلے نہ پھر‘‘، ''ہم انتظار کریں گے ترا قیامت تک‘‘، ''کاجل والے نین جا کے‘‘، ''ملنے پر پھول تو کانٹوں سے دوستی کر لی‘‘۔ روشن نے جہاں لازوال گیتوں کو تخلیق کیا وہیں اسے فلموں میں قوالی کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔ چند مشہور قوالیوں میں ''نہ تو کارواں کی تلاش ہے‘‘، ''یہ ہے عشق عشق‘‘، ''نگاہیں ملانے کو جی چاہتا ہے‘‘، ''ڈھونڈ کے لاؤں کہاں سے میں‘‘، ''واقف ہوں خوب عشق کے طرزِ بیاں سے میں‘‘ شامل ہیں۔
روشن ساری عمر گوجرانوالہ کو نہیں بھولا۔ وہ کئی بار پاکستان آیا اور پاکستان سے اپنے رابطے برقرار رکھے۔ روشن کا فلمی دنیا کا سفر صرف 18سال پر محیط ہے۔ اسے دل کا عارضہ لاحق تھا۔ وہ 16نومبر 1967ء کو اس دنیا سے رخصت ہو گیا۔ گوجرانوالہ میں جنم لینے والا روشن اپنی محنت اور ریاضت سے بالی وُڈ میں شہرت کے آسمان پر پہنچا۔ اس کا نام روشن تھا‘ اپنے نام کی طرح اس کے روشن سُروں کی چاندنی بھی ہمیشہ زندہ رہے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved