تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     22-08-2024

شیخ سعدی کی حکایت اور حارث خلیق کی نظم

اللہ مجھے بدگمانی پر معاف فرمائے مگر میں نے جنرل (ر) فیض حمید کی گرفتاری سے جو نتیجہ اخذ کیا ہے وہ یہ ہے کہ بندہ دورانِ نوکری اس ملک میں جو چاہے کر لے‘ مگر اسے بہرحال ریٹائر ہونے کے بعد بندہ بن جانا چاہیے اور نوکری کے دوران والی حرکتوں سے نہ صرف پرہیز کرنا چاہیے بلکہ باقاعدہ باز آ جانا چاہیے۔ بصورت دیگر وہی ہوگا جو اَب فیض حمید کے ساتھ ہو رہا ہے۔
میرے بعض شرپسند دوست‘ جن میں شاہ جی بہرحال شامل نہیں ہیں‘ یہ سوال کرتے ہیں کہ جب فیض حمید 17مئی2017ء کو ملک کے دارالحکومت اسلام آباد کے پوش سیکٹر ایف الیون سی میں مسلح اہلکاروں سے بھری گاڑیاں اور ٹرک لے کر دھاوا بول رہے تھے‘ تب اس ملک کا انٹیلی جنس نظام کہاں سو رہا تھا؟ جب یہ لشکرِ جرار اصل ہدف سے ہٹ کر رمیش سنگھ اروڑہ‘ ممبر صوبائی اسمبلی کے گھر میں غلطی سے داخل ہوا تھا تب اس پر ایکشن کیوں نہ ہوا؟ پھر یہی لوگ غلطی کا احساس ہونے کے بعد دو گلیاں دور گھر میں‘ جو ان کا اصل ہدف تھا‘ داخل ہوئے اور ٹاپ سٹی کے مالک کو اٹھا لیا گیا‘ اسے کئی دن تک اپنی تحویل میں رکھ کر من مرضی کے کاغذات پر دستخط نہ کرنے کے جرم میں A780 دہشتگردی کا پرچہ کاٹ کر حوالۂ زنداں کر دیا گیا‘ تین سال کیس چلا اور ملزم باعزت بری ہوا‘ ان تین سالوں کے دوران سب سے زیادہ باخبر ہونے کے دعویداروں کو کسی قسم کی نہ تو کوئی بے اصولی دکھائی دی اور نہ ہی کسی بے قاعدگی کی خبر ملی۔ موٹروے سے اپنے لیے مصنوعی طور پر انٹر چینج منظور کروا لیا لیکن کسی کو کانوں کان خبر نہ ہوئی۔ یہ ساری کہانیاں زمانے بھر میں سینہ بہ سینہ چلتی رہیں لیکن جن کے کان تیز ہیں ان کو کچھ سنائی نہ دیا اور جن کی نگاہیں عقابی ہیں ان کو کچھ دکھائی نہ دیا۔ اب موصوف ریٹائر ہوئے تو بعد از ریٹائرمنٹ کی جانے والی ساری بے قاعدگیاں‘ بے اصولیاں اور غلط اقدامات کی خبر بھی شتابی سے ہو گئی اور ان کے خلاف کارروائی بھی ہو گئی۔ کیا قانون اور ضابطے صرف ریٹائر ہونے کے بعد لاگو ہوتے ہیں اور بے قاعدگیاں نوکری سے رخصت ہونے کے بعد دکھائی دیتی ہیں؟
مجھے ذاتی طور پر ایسے کسی بھی شخص سے کوئی ہمدردی نہیں جو اس ملک کے قانون اور ضابطوں کو اپنے پائوں کی جوتی سمجھتا ہے لیکن مصیبت یہ ہے کہ اس ملک کا ہر طاقتور‘ ہر زور آور اور ہر صاحبِ اختیار اپنے دورِ حکمرانی اور دورِ اقتدار میں اس ملک کے قانون کو اپنے جوتے کی نوک پر رکھتا ہے اور اپنے اختیار کو من چاہے انداز میں استعمال کرنا اپنے اقتدار کا لازمہ سمجھتا ہے۔ بقول ایک دوست کے اگر اقتدار اور حکمرانی میں آکر بھی مسکینوں کی مانند اس ملک کے قانون اور قواعد کی پابندی کرنی ہے تو پھر ایسے اقتدار اور طاقت کا بھلا کیا فائدہ؟ اقتدار اور طاقت اگر قانون کو گھر کی لونڈی نہ بنائے تو پھر عام آدمی اور صاحبِ اقتدار واختیار میں کیا فرق باقی رہ جاتا ہے؟ ہمارے ہاں اختیار کا پہلا مطلب ہی یہ ہے کہ اب صاحبِ اختیار ان عام قوانین سے بالاتر ہو گیا ہے جس سے اس ملک کے عام نام لوگوں کو واسطہ پڑتا ہے۔
ویسے بھی قانون جتنا مفلوک الحال اور بے چارگی کے عالم میں ہمارے ہاں زندگی گزار رہا ہے اس کی مثال کہیں اور مشکل ہے۔ دنیا بھر میں لاقانونیت اور زور آوری کے سر پر حکومتوں پر حکومت کرنے کیلئے بدنام لاطینی امریکہ کے ڈرگ لارڈز بھی اب اس طرح قانون سے بالاتر نہیں رہے جس طرح کبھی ہوتے تھے لیکن ہمارے والے صاحبانِ اقتدار واختیار بدنام ہوئے بغیر اس سے کہیں زیادہ بے لگام اور زور آور ہیں جتنے کہ کبھی لاطینی امریکہ کے ڈرگ لارڈز اور افریقہ کے وار لارڈز ہوا کرتے تھے۔ اس ملک میں قاعدے ضابطے کمزور کی گردن جبکہ طاقتور کے پائوں پکڑتے ہیں۔
جنرل (ر) فیض حمید کی بعد از ریٹائرمنٹ گرفتاری سے ایک حکایت یاد آ گئی۔ یہ حکایت شیخ سعدیؒ سے منسوب ہے۔ ویسے تو اس ملک میں ایک ایک روایت اور حکایت دس دس لوگوں سے منسوب ہو جاتی ہیں تاہم اس عاجز نے جہاں پڑھی تھی وہاں شیخ سعدی ہی سے روایت کی گئی تھی۔ شیخ سعدی نے اپنے وقت کے ایک مشہور پہلوان سے پوچھا کہ بطور پہلوان آخر اس میں ایسی کیا بات ہے جس نے اسے اتنی زیادہ شہرت اور دوسرے پہلوانوں پر فوقیت دے رکھی ہے؟ پہلوان نے جواب دیا کہ وہ اپنے سے طاقتور پہلوانوں کو پچھاڑ دیتا ہے۔ شیخ سعدی نے تعجب سے پوچھا کہ آخر وہ پہلوان اس سے زیادہ طاقتور اور زور آور کیسے ہو سکتا ہے جو اس سے پچھاڑا جائے۔ یہ سن کر پہلوان پہلے تو پریشان ہوا‘ پھر ذرا توقف سے کہنے لگا کہ وہ اپنے سے برابر والے پہلوان کو شکست دے دیتا ہے۔ شیخ سعدی نے پھر سوال جڑ دیا کہ وہ پہلوان تمہارے برابر اور تمہارا ہمسر کیسے ہو سکتا ہے جو تم سے شکست کھا جائے۔ پہلوان جزبز ہو کر کہنے لگا کہ وہ اپنے سے کمزور اور نسبتاً کم تر درجے کے پہلوان کو پچھاڑ دیتا ہے۔ شیخ سعدی کہنے لگے: تو اس میں آخر تمہاری خوبی یا بڑائی کیا ہے۔ اپنے سے کمزور اور کمتر کو تو میں بھی پچھاڑ سکتا ہوں۔ قارئین یہ حکایت بس ایسے ہی یاد آ گئی حالانکہ یاد نہ بھی آتی تو بھلا کیا فرق پڑ جاتا؟
آخر ہمیں ہمیشہ ''بعد از مرگ‘‘ واویلا ہی کیوں یاد آتا ہے؟ جو مسائل اور معاملات آج درپیش ہیں ان کا حل آج کیوں نہیں نکلتا؟ جب گاڑی گزر کر کہیں کی کہیں پہنچ چکی ہوتی ہے ہمیں اس وقت کیوں خیال آتا ہے کہ ہمارا سامان اس گاڑی میں رہ گیا ہے؟ اس ملک عزیز کو جو ایک اور اہم اور فوری حل طلب مسئلہ درپیش ہے وہ بہت سے لوگوں کا لاپتا ہو جانا ہے۔ دو عشرے قبل میں برطانیہ میں تھا تو جگہ جگہ ایک بچی کی گمشدگی کا اشتہار لگا ہوا تھا۔ اخبارات اس کی گمشدگی پر واویلا کر رہے تھے اور سارا ملک اس ایک بچی کے لیے پریشان تھا۔ کیا اخبارات اور کیا ٹی وی چینلز‘ ہر جگہ پر اس کو ڈھونڈ نکالنے کا کہرام مچا ہوا تھا۔ ادھر یہ عالم ہے کہ سینکڑوں لوگ برسوں سے لاپتا ہیں اور کسی کو ان کی فکر نہیں۔ میرا حقیقی چچا زاد بھائی منصور تیس سال پہلے گورنمنٹ کالج آف ٹیکنالوجی ملتان پڑھنے گیا اور پھر واپس نہیں آیا۔ چچی مرحومہ مرتے دم تک اس کی آس میں رہیں کہ مرے ہوئوں پر بندہ صبر کر لیتا ہے مگر لاپتا اور گمشدہ کے وارثان کو کبھی چین نہیں آتا۔ ان لاپتا اور گمشدہ لوگوں میں ممکن ہے بہت سے لوگ واقعتاً لاپتا اور گمشدہ نہ ہوں بلکہ اپنی مرضی سے زیر زمین کسی مشکوک سرگرمی میں مصروف ہوں مگر جو واقعتاً لاپتا اور غائب ہیں‘ ان کا جواب کون دے گا؟ اس پر مجھے حارث خلیق کی ایک نظم یاد آ گئی‘ آپ کی نذر کرتا ہوں......گمشدہ
وہ جب مجھ سے مخاطب ہوں تو کہتے ہیں؍چلو ہم مان لیتے ہیں ؍مہاجر اور پنجابی؍یا سندھی ہوں ؍کسی کو کچھ پتا جن کا نہیں ہے؍سرزنش کرنے کی خاطر ؍گر اٹھائے ہیں ؍چھپا کر پاس رکھے ہیں ؍تمہیں اچھا نہیں لگتا ؍مگر یہ بات سمجھائو ؍بلوچوں اور پشتونوں سے ؍گلگت اور بلتستان کے ان باسیوں سے کیا تعلق ہے ؍ تمہاری کیا قرابت ہے ؍کبھی سوچا؍کہ اپنی مملکت سے برسرپیکار ؍غداروں سے رشتہ جوڑتے ہو؍اور ہم سے توڑتے ہو ؍میں مخاطب ان سے ہوتا ہوں؍بتاتا ہوں مرا گر کوئی رشتہ ہے ؍شہیدوں اور عزاداروں سے رشتہ ہے؍بغاوت کے عَلم داروں سے رشتہ ہے؍جبینیں اپنی خم کرنے پر آمادہ نہیں ہیں جو؍مرا اُن سب قلم کاروں سے رشتہ ہے؍کبھی جب کوئی گم ہوتا ہے مجھ کو؍اپنی نانی یاد آتی ہے ؍خلا میں گھورتی وہ ملگجی آنکھیں؍کہ جن میں موت تک ؍اس شام کا منظر نہ دھندلایا؍وہ امرتسر کا خون آشام اسٹیشن ؍اور اک بچی کا گم ہونا؍مرا آنکھوں میں اٹکے ؍سب جگر پاروں سے رشتہ ہے؍کہیں کے ہوں ؍کہاں بھی ہوں ؍جو گم ہیں آج؍ان کے سارے غم خواروں سے رشتہ ہے

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved