کارپوریٹ ذرائع ابلاغ کے تمام تر پراپیگنڈے کے باوجود دنیا بھر میں امارت اور غربت کے درمیان خلیج بڑھتی چلی جارہی ہے۔ اقوام متحدہ سے لے کر آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک جیسے سامراج کے پروردہ ادارے غربت کے خاتمے کے لیے مختلف سرگرمیوں کا ناٹک کرتے نظر آتے ہیں۔ این جی اوز اور دوسرے کئی اداروں نے ’’غربت کے خاتمے‘‘ کی صنعت کا درجہ حاصل کرلیا ہے۔ لیکن اکیسویں صدی کے اس ترقی یافتہ عہد میں بھی یہ جدیدیت غربت اور پسماندگی کو ختم کرنے میں ناکام ہے بلکہ درحقیقت اس کی وجہ بھی بن رہی ہے اور ان کے خاتمے کی ہر جدوجہد کو میڈیا کے پراپیگنڈے کے ذریعے مجروح اور مسترد کیا جاتا ہے۔ مارکس نے اپنی شہرہ آفاق تصنیف داس کیپٹل میں لکھا تھا کہ ’’ایک طرف دولت کے ارتکاز کا مطلب عین اسی وقت دوسری طرف بدحالی، مشقت کی اذیت، غلامی، جہالت، ظلم اور ذہنی پسماندگی کاارتکاز ہے۔‘‘بورژوا ماہرین معیشت بات کو جتنا بھی گول کرنے کی کوشش کریں آج عالمی سطح پر زمینی حقائق مارکس کے اس تناظر کو درست ثابت کر رہے ہیں۔ ممالک یا خطوں کے لحاظ سے دنیا میں دولت کی تقسیم انتہائی غیر ہموار ہے۔کل عالمی دولت (کم و بیش 200ٹریلین ڈالر) میں سے افریقہ، بھارت، لاطینی امریکہ اور چین کا حصہ بالترتیب 1فیصد، 2فیصد، 4فیصد اور 8ٰٰٰٖٖٖ ٰٖٖٖٖٖٖٖٖٓٓفیصد ہے۔ یوں دنیا کی کل سات ارب آبادی میں سے 4.2ارب لوگ جن خطوں میں رہتے ہیں ان کے حصے میں کل عالمی دولت کا صرف 15فیصد آتا ہے۔دوسری طرف عالمی دولت میں صرف یورپ اور شمالی امریکہ کا مجموعی حصہ 63فیصد ہے جبکہ ان دو خطوں کی مجموعی آبادی تقریباً 1.3ارب ہے۔ عالمی سطح پر خطوں کے لحاظ سے دولت کی یہ تقسیم، تصویر کا صرف ایک رخ ہے۔ کسی بھی ایک ملک یا خطے کے اندر دولت کی تقسیم کہیں زیادہ غیر ہموار ہے۔ امیر ممالک کا ہر شخص امیریا غریب ممالک کا ہر شہری غریب نہیں ہے ، تاہم دونوں اقسام کے ممالک میں دولت کے چند ہاتھوں میں سمٹنے کا رجحان مشترکہ ہے۔ امریکہ معاشی اعتبار سے دنیا کے غیر مساوی ترین ممالک میں سے ایک ہے جہاں کل قومی دولت (تقریباً 57ٹریلین ڈالر) میں امیر ترین 1فیصد کا حصہ 35فیصد جبکہ امیر ترین 10فیصد کا حصہ 80فیصد ہے، نیچے کے 80فیصد امریکیوں کا قومی دولت میں حصہ صرف 7فیصد ہے۔اسی طرح بھارت کا شمار دنیا کے غریب ترین ممالک میں ہوتا ہے لیکن دنیا کے سو امیر ترین افراد میں سے تین (مکیش امبانی ، لکشمی متل اور اعظم پریم جی) کا تعلق بھارت سے ہے۔ تیسری دنیا کے ان امیر افراد کی دولت کا زیادہ تر حصہ بھی امیر ممالک کے آف شور بنکوں میں موجود ہے۔ دنیا میں دولت کی تقسیم کا مجموعی طور پر تجزیہ کیا جائے تو امیر ترین 1فیصد افراد 43فیصد جبکہ امیر ترین 10فیصد افراد عالمی دولت کے 83فیصد حصے پر قابض ہیں، جبکہ 50فیصد عالمی آبادی کے حصے میں 2فیصد جبکہ 80فیصد آبادی کے حصے میں صرف 6فیصد دولت آتی ہے۔امیر ترین 300افراد کے پاس غریب ترین 3ارب افراد سے زائد دولت ہے۔ ایک اور اندازے کے مطابق امیر ترین 200افراد کے کل اثاثے 2.7ٹریلین ڈالر ہیں جبکہ غریب ترین 3.5ارب افراد کی مشترکہ جمع پونجی صرف 2.2ٹریلین ڈالر ہے۔دنیا کے امیر ترین 1فیصد افراد کی آمدن میں پچھلے 20سال کے دوران 60فیصد کا اضافہ ہوا ہے اور 2008ء کے عالمی مالیاتی بحران کے بعد سے دولت کے ارتکاز کا یہ عمل اور بھی تیز ہوگیا ہے۔ موجودہ عہد کی سب سے بڑی اقتصادی خاصیت ایک خطے سے دوسرے خطے تک سرمائے کی بلا روک ٹوک منتقلی اور مسلسل حرکت ہے۔عالمی سطح پر مسلسل معاشی عدم استحکام اور انارکی میں سرمائے کی اس ’’آوارہ گردی‘‘ کا اہم کردار ہے جس کے سامنے قومی ریاستیں بے بس ہو کر رہ گئی ہیں۔ یہ صورتحال مارکس اور اینگلز کی اس پیش گوئی کے عین مطابق ہے جو انہوں نے 1848ء میں کمیونسٹ مینی فیسٹو میں کی تھی اور جس کے مطابق سرمایہ داری کے ارتقاء اور گلوبلائزیشن کے ساتھ قومی ریاست متروک ہو کے رہ جائے گی ۔دنیا بھر میں ریاستوں کے بڑھتے ہوئے قرضوں کی اہم وجہ سرمایہ داروں اور ملٹی نیشنل اجارہ داریوں پر ٹیکس لگانے کی نا اہلیت ہے جس کی وجہ سے ریاستوں کی آمدن گرتی چلی جارہی ہے اور وہ قرضے لینے پر مجبور ہیں۔ٹیکس یا ریاستی قوانین نافذ کرنے کی کوئی بھی کوشش ملک سے قانونی یا غیر قانونی طور پر سرمائے کی پرواز اور بیرونی سرمایہ کاری میں کمی پر منتج ہوتی ہے جس کے باعث معیشت زیادہ گہرے بحران کا شکار ہوجاتی ہے۔ٹیکس سے بچنے کے لئے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں دنیا کی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیاں سر فہرست ہیں اور دنیا کا کوئی بھی ملک اس لوٹ مار سے محفوظ نہیں ہے۔جنرل الیکٹرک 108ارب ڈالر، فائزر 73ارب ڈالر، مائیکرو سافٹ 60ارب ڈالر، ایپل 54ارب ڈالراور مرک 53ارب ڈالر ہر سال مختلف ممالک سے نکال کر آف شور ٹیکس ہیونز میں منتقل کرتی ہیں۔ صرف 60بڑی کمپنیاں ٹیکسوں سے بچنے کے لئے ہر سال ایک ہزار تین سو ارب ڈالر پیداواری شعبے سے نکال کر مختلف بینکوں میں جمع کرواتی ہیں۔ایک اندازے کے مطابق دنیا کے امیر افراد نے 32ہزار ارب ڈالر مختلف آف شور بینکوں میں چھپا رکھے ہیں۔یہ رقم تیسری دنیا کے مجموعی بیرونی قرضے (تقریباً 4000ارب روپے) سے آٹھ گنا زیادہ ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک میں کالے دھن کے سرمائے کی بیرون ملک منتقلی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔ فروری 2012ء میں بھارتی سی بی آئی کے چیف کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق بھارتی امرا ء نے اپنے 500ارب ڈالر سوئس بنکوں میں چھپا رکھے ہیں۔2اکتوبر 2013ء کوجاری ہونے والے سٹیٹ بینک آف پاکستان کے گورنر یاسین انور کے بیان کے مطابق ڈھائی کروڑ ڈالر ہر روز پاکستان سے باہر ’’سمگل‘‘ کیے جارہے ہیں، یہ رقم 9ارب ڈالر سالانہ بنتی ہے اور آئی ایم ایف کے حالیہ تین سالہ بیل آئوٹ پیکج سے ڈیڑھ گنا زیادہ ہے۔یوں تیسری دنیا کی بورژوازی کا سماجی اور معاشی کردار بھی سامراجی اجارہ داریوں سے مختلف نہیں ہے ۔گلوبل فنانشل انٹیگریٹی کی رپورٹ کے مطابق 1990ء سے 2008ء تک کے عرصے میں انگولا، ایتھوپیا اور یمن جیسے غریب ترین ممالک سے 197ارب ڈالر امیر ممالک میں منتقل ہوئے۔ آج سے دو سو سال قبل امیر ممالک ، غریب ممالک کی نسبت تین گنا زیادہ امیر تھے۔1960ء کی دہائی میں نوآبادیاتی دور کے خاتمے تک یہ شرح 35گنا تک پہنچ چکی تھی،موجودہ عہد میں امیر ممالک کے پاس غریب ممالک سے 80گنا زیادہ دولت موجود ہے، یعنی پچھلی پانچ دہائیوں میں تیسری دنیا کا استحصال نوآبادیاتی عہد کے دو سو سالوں سے کہیں زیادہ ہے۔ امیر ممالک ہر سال 130ارب ڈالر ’’امداد‘‘ کی مد میں دیتے ہیں۔اس کے برعکس: ملٹی نیشنل اجارہ داریاں تیسری دنیا کے ممالک سے 900ارب ڈالر ہر سال امیر ممالک کے بنکوں میں منتقل کرتی ہیں۔ تیسری دنیا کے ممالک ہر سال 600ار ب ڈالر بیرونی قرضوں پر سود کی مد میں ادا کرتے ہیں۔ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی طرف سے نافذ کئے گئے تجارتی قوانین (کم اجرتیں اور سستا خام مال وغیرہ) کی وجہ سے تیسری دنیا کے ممالک کو ہر سال 500ارب ڈالر کا نقصان اٹھانا پڑتا ہے۔ صرف پچھلی ایک دہائی میں ملٹی نیشنل کمپنیوں نے تیسری دنیا کے مختلف ممالک میں مغربی یورپ کے رقبے کے برابر زمینوں پر قبضے کئے ہیں۔ ان زمینوں کی مجموعی مالیت 2000 ارب ڈالر سے زائد بنتی ہے۔ مجموعی طور پر 2000ارب ڈالر ہر سال غریب ممالک سے امیر ممالک میں منتقل ہوتے ہیں۔ سرمایہ داری انسانیت کا حتمی مقدر نہیں ہے۔ دولت کی اس ہولناک تفریق کو نسلِ انسان ختم کرکے ہی آزاد ہوسکتی ہے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved