جوگڑھا حسینہ واجد نے اپنے مخالفوں کیلئے کھودا تھا اور 2010ء میں انٹرنیشنل کرائمز ٹربیونل(ICT) بنا کر 1971ء کے ''جنگی جرائم‘‘ کی بنیاد پر اپنے مخالفوں کو پھانسی پر چڑھایا تھا‘ اب وہی گڑھا خود ان کا منتظر ہے۔ حسینہ واجد نے اس کرائمز ٹربیونل کے ذریعے 100 سے زائد لوگوں کو موت کے گھاٹ اتارا تھا۔ اب اسی ٹربیونل نے قتلِ عام (Mass Murder) کے تین مقدمات حسینہ واجد کے خلاف شروع کیے ہیں۔ اس سے پہلے اقوام متحدہ کی رپورٹ سامنے آ چکی کہ حالیہ فسادات میں 600 سے زائد لوگوں کو ہلاک کیا گیا اور سکیورٹی فورسز نے غیر ضروری طاقت استعمال کی۔
گزشتہ چند ماہ میں بنگلہ دیش کے بارے میں کئی کالم لکھ چکا لیکن بہت کچھ لکھنا باقی ہے۔ یہ جو حسینہ واجد نے 7 جنوری 2024ء کو نام نہاد انتخابات کرائے تھے‘ اس وقت بھی اپنی گزارشات پیش کی تھیں‘ طلبہ تحریک کے دوران بھی‘ حکومت گر جانے کے بعد بھی اور نئی حکومت کے بارے میں بھی۔ لیکن لگتا ہے جو کچھ کہا گیا وہ بہت کم ہے۔ بہت سے سوالوں کے جوابات باقی ہیں۔ اول تو یہ کہ کیا بنگلہ دیش سیکولرازم سے اسلامی شناخت کی طرف لوٹ رہا ہے؟ دوم‘ حکومت گر جانے کے بعد مجسموں اور یادگاروں کی توڑ پھوڑ کا سبب فوری غصہ ہے یا پس منظر میں موجود دیگر عوامل؟ سوم‘ ملک میں ایک باقاعدہ منصوبے کے تحت بھارت کو پسندیدہ ترین ملک قرار دینے کے بعد عام بنگالی اس بارے میں اب کیا سمجھتا ہے؟ چہارم‘ پاکستان دشمنی کو باقاعدہ ذہنوں میں پیوست کرنے کی کوششوں کے بعد اب عام آدمی کی رائے کیا ہے؟
ذہن میں رکھیے کہ بنگلہ دیش مسلمانوں کی غالب اکثریت کا ملک ہے‘ 91.04 فیصد مسلمان ہیں‘ 9.7 فیصد ہندو اور باقی دیگر اقلیتیں۔ 2022ء کی مردم شماری کے مطابق 16کروڑ 98لاکھ 28ہزار 911یعنی لگ بھگ سترہ کروڑ کی آبادی میں مسلمان ساڑھے پندرہ کروڑ کے قریب ہیں۔ ہندو ایک کروڑ 35 لاکھ۔ اور ان کی آبادی پورے ملک میں ایک جگہ نہیں بلکہ پھیلی ہوئی ہے۔ 1971ء میں ہندوئوں کی شرح 20 فیصد تھی مگر قیامِ بنگلہ دیش کے بعد سے ہندو آبادی کی شرح مسلسل کم ہوتی گئی۔ اس کے جو بھی اسباب ہوں‘ بھارتی میڈیا کے شور وغل میں ایک نکتہ یہ ہے کہ اس کی ایک وجہ بنگلہ دیش سے ہندو آبادی کی بھارت کی طرف مسلسل نقل مکانی ہے۔ بھارتی میڈیا کے مطابق دو لاکھ 30 ہزار ہندو ہر سال بنگلہ دیش چھوڑ جاتے ہیں۔ کیوں؟ بھارتی میڈیا اسے ہندوئوں کے قتلِ عام اور نسل کشی سے تعبیر کرتا ہے لیکن اس کے دیگر عوامل ہیں۔ اگر یہ بات تسلیم کر لی جائے تو منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ مشرقی پاکستان میں ہندو محفوظ تھے لیکن بنگلہ دیش میں نہیں۔ جو بھی عوامل ہوں‘ نتیجہ بہرحال یہ ہے کہ مسلمانوں کی شرح مسلسل بڑھتی گئی۔ دوسری بات یہ یاد رکھنے کی ہے کہ برصغیر میں اسلام دوسرے خطوں کی نسبت بنگال میں پہلے پھیلا تھا۔ آٹھویں صدی سے بارہویں صدی کے درمیان‘ عر ب اور ایران سے بنگال کے تجارتی رشتے مستحکم ہو چکے تھے۔ وہاں مسلم تاجر سب سے پہلے پہنچے تھے اور انہوں نے ہی وہاں اسلام کے فروغ میں کردار ادا کیا تھا۔ بنگالی مسلمان عام طور پر مذہبی مزاج والا اور دین سے قریب رہا ہے۔ تحریک پاکستان میں بنگال کا جو کردار ہے وہ دیگر علاقوں سے زیادہ بھرپور اور مؤثر تھا۔ آپ تاریخ سے ان بنگالی رہنمائوں کے نام جان سکتے ہیں جنہوں نے برٹش انڈیا سے مسلم شناخت کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ کیا اور انہیں بنگال میں زبردست پذیرائی ملی۔ یہ بھی ذہن میں رکھیے کہ نسل‘ زبان اور بنیادی ثقافت کے اعتبار سے بنگالی پورے ملک میں ایک ہیں‘ مختلف قومیتوں میں بٹے ہوئے نہیں ہیں۔ اور اگر مذہب کا فرق نظر انداز کر دیں تو بھارتی ریاست مغربی بنگال یعنی ہندو اکثریتی بنگال کی نسل‘ زبان اور ثقافت بھی وہی ہے۔ ان مماثلتوں کے باوجود اگر بنگالیوں نے اسلام کی بنیاد پر الگ وطن کا مطالبہ منوایا تو یہ اس معاشرے میں سرایت کردہ اسلامی تشخص کی واضح دلیل ہے۔ قیام پاکستان کے بعد سیاسی‘ انتظامی اور عسکری اشرافیہ کی مجرمانہ غلطیوں سے بنگال میں وہ طبقہ طاقت پکڑتا گیا جو مذہب مخالف بھی تھا اور ریاست مخالف بھی۔ بنگالیوں میں احساسِ محرومی اور غصہ بڑھتا گیا اور بالآخر 1971ء کے سانحے پر منتج ہوا۔
شیخ مجیب الرحمن بنگالیوں کے حقوق اور بنگالیوں کے الگ ملک کا نعرہ لگا کر اٹھا تھا۔ بنگالی قوم پرستی اس کا لازمی حصہ تھی‘ یعنی مذہبی شناخت کی مخالفت اس تحریک کی بنیاد میں تھی۔ کہا جا سکتا ہے کہ بنگالی تو بھارت یعنی مغربی بنگال میں بھی کروڑوں کی تعداد میں تھے‘ شیخ مجیب نے انہیں آزاد کرانے کیلئے آواز کیوں نہیں اٹھائی؟ تحریک کیوں نہیں چلائی؟ یہ سوال بہت بڑا ہے اور اس کا جواب یہی ہے کہ شیخ مجیب جن طاقتوں کیلئے کام کر رہا تھا‘ وہ یہ نہیں چاہتی تھیں۔ ان کا مقصد پاکستان کو دولخت کرنا تھا‘ بھارت کو نہیں۔ بنگالی نسل کا نعرہ محض عوامی حمایت کیلئے لگایا گیا تھا۔
بنگلہ دیش بنا تو یہ عوامی جمہوریہ بنگلہ دیش تھا‘ اور ایک سیکولر ملک تھا۔ شیخ مجیب کی پالیسیاں سوشلسٹ ذہن کی غماز تھیں۔ پہلے ایک دو سال ہی میں 580صنعتیں‘ بینک اور بیمہ کمپنیاں قومیا لی گئیں۔ 1974ء کے خوفناک قحط نے‘ جس میں 27 ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہوئے‘ عوامی لیگ کا بھرم کھول کر رکھ دیا۔ سیکولر بنیاد پر بننے والے ملک میں سیکولر ازم کا تانا بانا چند سال بعد ہی بکھرنے لگا۔ مجیب ازم کا وہ بت بھی ٹوٹنے لگا جو شخصیت پرستی کے مواد سے بنایا گیا تھا۔ 1975ء میں کچھ فوجی افسروں کے ہاتھوں شیخ مجیب اور اس کے خاندان کا قتل ہوا اور اس کے بعد تیزی سے تبدیلیاں آنے لگیں۔ فوجی انقلابات نے بھارتی اثر ورسوخ سے فاصلہ اختیار کیا اور جنرل ضیا الرحمن اور جنرل ارشاد نے مجیب کی پالیسیوں سے الگ ہوکر ملک کا رخ بدل دیا۔ یہ بات بہت سے لوگوں کو معلوم نہیں ہو گی کہ جنرل ضیا الرحمن نے بنگلہ دیش کا ترانہ اور جھنڈا بھی تبدیل کرنے کی کوشش کی۔ اس کا کہنا تھا کہ یہ ترانہ رابندر ناتھ ٹیگور نے لکھا‘ جو بنگلہ دیشی نہیں تھا‘ اور ایک ہندو تھا۔ یہ اندازِ فکر عوامی لیگ سے الگ تھا۔ بڑی آئینی تبدیلی 1988ء میں اس وقت آئی جب اسلام کو بنگلہ دیش کے سرکاری مذہب کے طور پر اختیار کیا گیا۔ یہ سیکولر نظریے کی پہلی آئینی شکست تھی۔ بعد کے حالات بھی پڑھتے جائیے تو اندازہ ہوتا ہے کہ دس بارہ سال کے اندر ہی وہ اسلامی عناصر‘ جو مغلوب ہوگئے تھے‘ ایک بار پھر طاقت کے ساتھ سامنے آنے لگے۔ یہ طاقت مسلسل بڑھتی گئی۔ اس قوت سے بھارت بھی خوفزدہ تھا اور حسینہ واجد بھی‘ چنانچہ انہیں دہشت گرد‘ بنیاد پرست اور جنونی قرار دے کر ان پر مسلسل جبرکیا جاتا رہا۔ مسلسل عدالتی اور ماورائے عدالت قتل کیے جاتے رہے۔ گرفتاریوں اور تشدد کے حربے اس کے علاوہ تھے۔
بنگلہ دیش میں دو طرح کی مذہبی جماعتیں تھیں۔ وہ مذہبی جماعتیں جو سیاسی بھی تھیں‘ لگ بھگ تیرہ تھیں۔ مثلاً جماعت اسلامی‘ جو بڑی سیاسی طاقت تھی۔ بنگلہ دیش مسلم لیگ‘ اسلامی جاتیہ پارٹی‘ اسلامی اوکیا جوت‘ جمعیت علمائے اسلام بنگلہ دیش‘ نظام اسلام پارٹی وغیرہ۔ دوسری وہ دینی جماعتیں جو سیاسی نہیں تھیں۔ تبلیغی جماعت کا بنگلہ دیش میں بہت زور ہے لیکن وہ ملکی نظام اور سیاسی معاملات سے الگ اپنا کام کرتی ہے‘ نیز حرکۃ الانصار‘ جماعت المجاہدین‘ حرکۃ الجہاد الاسلامی‘ جگراتا مسلم جنتا سمیت بہت سی جماعتیں تھیں‘ جن میں سے اکثر پر پابندی لگا دی گئی۔ ان میں سب سے طاقتور حفاظتِ اسلام پارٹی ہے۔ جو نظام بدلنے کیلئے غیر سیاسی نظریے پر بنائی گئی۔ اس جماعت نے گزشتہ 14سال میں بہت طاقت پکڑی۔ 2010ء میں بننے والی اس جماعت کے بانی شاہ احمد شفیع تھے۔ چٹاگانگ کے علاقے میں ان کا بہت احترام ہے اور ان کے ووٹ بینک کی وجہ سے مقامی سیاستدان بھی ان سے تعلق رکھتے ہیں۔ موجودہ عبوری حکومت میں مشیر مذہبی امور ابوالفیض محمد خالد حسین اسی جماعت کے نائب امیر ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved