سیاسی گھرانے سے اعلان ہوتا ہے کہ ہمارے لیڈر فلاں ہوں گے یا ہوں گی‘ اور پھر درباری قطار در قطار میڈیا چینلوں‘ اخباروں اور پریس کانفرنسوں میں پھیل جاتے ہیں اور تعریفوں کے پل باندھنا شروع کر دیتے ہیں۔ ہماری سیاست ابھی تک ایک ایلیٹ کلب ہے جس میں ہم سب کے لیے داخلہ ممنوع رہا ہے۔ جنہوں نے اس کلب کی اجارہ داری کو چیلنج کیا‘ عوام نے انہیں پذیرائی تو بخشی مگر ان کے ساتھ جو کچھ ہوا‘ وہ سب کے سامنے ہے۔ جو بھی ان کا حشر نشر ہوا‘جو بھی طاقت استعمال ہوئی‘ اور جتنے بھی مقدمات ان پر بنائے گئے‘ عوام کا جن دوبارہ بوتل میں بند نہیں ہورہا۔ اب وہ آزاد ہو چکا ہے اور اسے بند کرکے ڈھکن سخت کسنے کی جتنی تدبیریں ہورہی ہیں‘ شاید وہ کارگر ثابت نہ ہوں۔ وطنِ عزیز کی سماجی حرکیات تبدیل ہو گئیں‘ نوجوان اکثریت میں ہیں اور وہ مایوس نظر آتے ہیں۔ انہیں مفت لیپ ٹاپ کی رشوت دیں یا سمارٹ فونوں سے نوازیں‘ لگتا نہیں کہ اب وہ دوبارہ موروثیوں کا ساتھ دیں گے۔ تھوڑا سا ٹھنڈے دل سے کچھ ضمیر کی آواز سنیں اور اپنے خاموش لمحوں میں گزشتہ انتخابات کے اصل نتائج پر غور کریں۔ اچھی بات یہ ہے کہ جمہوریت لولی لنگڑی اور کسی حد تک اپاہج ہی سہی‘ رینگ تو رہی ہے اور جب کبھی لگامیں ڈھیلی ہوئیں‘ یہ اپنا رنگ بھی دکھاتی رہی ہے۔ اسی عمل سے نئی قیادت ابھری تھی‘ اور اسی عمل سے وہ اپنے انجام کو بھی پہنچتی اگر کچھ ذاتی مفادات اور بے صبری کے مظاہرے نہ ہوتے۔ لوگوں کی ذہانت اور دانش مندی کے ہم تو قائل ہیں کہ انہیں کبھی بھی زیادہ دیر تک نہ بے وقوف بنایا جا سکتا ہے نہ بے خبر رکھا جا سکتا ہے۔ اس بات پر تو اتفاق ہے کہ ہم نے قیادت کی تشکیل کا عمل عوام پر نہیں چھوڑا۔ یہ سیاسی خاندانوں اور ان کے سرپرستوں نے ہمیشہ اپنے ہاتھ میں رکھا ہے۔ یہ جو پرانے سیاسی گھرانے ہیں‘ اگر عوام ان کے ساتھ ہوتے تو پھر سامراجی آقاؤں اور اب مقتدرہ کی سرپرستی کی انہیں کیا ضرورت تھی؟
آج کل اگر آپ امریکہ کی ڈیموکریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن نہیں دیکھ رہے تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو سیاست میں دلچسپی نہیں۔ اور پھر آپ ہمارے قبیلے سے نہیں۔ اپنی ملکی سیاست اور تاریخ کا تجربہ اور مشاہدہ تو ہمیں روز ہوتا ہے مگر اسے عالمی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ پتا چلتا ہے کہ دنیا کس قدر تبدیل ہو چکی ہے۔ جب ہم نے میٹرک کا امتحان دیا تھا‘ اس وقت امریکہ کے سیاہ فام لوگوں کو ووٹ کا حقیقی حق ملا تھا۔ اس کے پیچھے بے شمار قربانیاں اور طویل جدوجہد تھی۔ امریکی تاریخ بھی دہرے کردار کی حامل رہی ہے۔ ایک طرف وہ لوگ تھے جو غلامی کو انیسویں صدی کے وسط میں ختم کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ دوسرے وہ جو اسے قائم رکھنے کے لیے علیحدگی پر اتر آئے اور انہوں نے تاریخ کی خوفناک جنگ لڑی۔ امریکی خانہ جنگی (1861-65ء) میں پانچ لاکھ لوگ مارے گئے۔ سیاہ فام آزاد تو ہو گئے مگر ووٹ دینے کے قوانین کا تعین ریاستوں پر چھوڑ دیا گیا۔ صدر ابراہم لنکن‘ جنہوں نے غلامی ختم کی اور خانہ جنگی لڑی اور فاتح ٹھہرے‘ نے فیڈریشن کو قائم رکھا تھا‘ وہ 1865ء میں قتل کر دیے گئے تو ان کے بعد آنے والے صدر نے جنوبی ریاستوں کے ساتھ رعایت برتی۔ یہ کہانی بہت لمبی ہے مگر ووٹ کے حق کے صرف 34 برسوں بعد امریکہ نے پہلے سیاہ فام صدر‘ براک اوباما کو منتخب کر لیا۔
اوباما کی ذاتی جدوجہد اور پھر دنیا کے طاقتور ترین ملک کا صدر منتخب ہونا کوئی عام بات نہیں۔ کبھی فرصت ہو تو ان کی کتاب ''ڈریمز فرام مائی فادر‘‘ ضرور پڑھیں۔ اس کتاب میں کولمبیا یونیورسٹی میں ان کے ایک پاکستانی روم میٹ کا بھی ذکر ہے۔ انتخابی عمل سے گزرتے ہوئے شکاگو میں سے پہلے ممبر سٹیٹ اسمبلی اور بعد میں سینیٹر منتخب ہوئے۔ امریکہ میں ہزاروں عہدوں کے لیے انتخابات ہوتے ہیں اور کسی پارٹی کا امیدوار بننے کے لیے اس حلقے سے اس پارٹی کی مقامی قیادت کے درمیان مقابلہ ہوتا ہے اور پارٹی ممبران ووٹ ڈالتے ہیں۔ ایک نہیں‘ کئی باریک چیلنجوں سے گزر کر نئی قیادت سامنے آتی ہے۔ صدر بل کلنٹن بھی صدر اوباما کی طرح یتیم تھے۔ اکیلی والدہ نے پالا اور عام سکولوں میں پڑھے۔ صرف امریکہ نہیں‘ سب مغربی ممالک میں‘ اس میں جاپان اور چین کو بھی شامل کرلیں‘ نے زبردست یکساں سرکاری تعلیمی نظام بنا رکھا ہے۔ بہت کم بلکہ نہ ہونے کے برابر ایلیٹ سکول ہیں‘ مگر آج تک کوئی قابلِ ذکر قیادت وہاں سے نہیں ابھری۔ صدر رونالڈ ریگن کی سوانح عمری پڑھیں‘ وہ بھی بچپن میں کاریں دھو کر گزارہ کرتے تھے۔ بعد میں فلموں میں کام مل گیا‘ ایکٹر بنے اور پھر کیلیفورنیا کے گورنر بن گئے۔ موجودہ امریکہ میں کسی بھی ریاست کی اسمبلی‘ کانگرس‘ گورنرز پر نظر ڈالیں‘ سب اپنی کاوشوں‘ قابلیت اور عوامی تائید سے سامنے آئے ہیں۔ وہاں جب آپ امیدوار بن جاتے ہیں تو پارٹی کے لوگ فنڈز دیتے ہیں اور اس کے نظریات سے تعلق رکھنے والے سرمایہ دار‘ صنعتکار اور متمول افراد دل کھول کر اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ سب اخراجات کا حساب کتاب رکھا جاتا ہے اور اس کا کڑا احتساب ہوتا ہے کہ کوئی بھی امیدوار انتخابات کے علاوہ ایک پیسہ بھی کسی اور کام پر خرچ نہیں کر سکتا۔
آج‘ بروز جمعہ‘ امریکی وائس پریذیڈنٹ‘ کملا ہیرس نیشنل کنونشن کے پانچویں اور آخری دن اپنی نامزدگی کی قبولیت کی تقریر کریں گی۔ اس کے لیے تیاری بہت عرصے سے جاری ہے۔ ایک سال قبل یہ کسی کے گمان میں بھی نہیں تھا کہ وہ ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے صدارت کے عہدے کے لیے امیدوار ہوں گی۔ بس ایک صدارتی تقریری مقابلے نے جوبائیڈن کا کام تمام کردیا۔ ہر طرف شور اٹھا کہ صدر بائیڈن خود بھی ڈوبے گا اور پارٹی کو بھی لے ڈوبے گا۔ یہ ہوتی ہے جمہوریت کہ چھ ماہ کے پرائمری الیکشنز کی مہم کے بعد اور دیگر امیدواروں پر فتح یاب ہونے کے باوجود جو بائیڈن کو دستبردار ہونا پڑا۔ کملا ہیرس اگر صدر منتخب ہو گئیں تو امریکی تاریخ کا نیا باب رقم ہوگا۔ وہ پہلی خاتون صدر ہوں گی جن کا خاندانی پس منظر بھارت کی جنوبی ریاست تامل ناڈو ہے۔ ماں تو ادھر کی تھیں‘ باپ جمیکا سے آیا تھا۔ یہ بھی شخصی عروج کی دلچسپ اور متاثر کن داستانوں میں سے ایک ہے۔ پہلے وہ سان فرانسسکو میں ڈسٹرکٹ اٹارنی بنیں اور پھر کیلیفورنیا ریاست‘ جسے اپنی تعلیم اور چار سال سے زیادہ عرصہ گزارنے کی وجہ سے میں اپنی ریاست تصور کرتا ہوں‘ کی اٹارنی جنرل منتخب ہوئیں۔ ہمارے ہاں تو اس عہدے کے لیے نواب شاہ‘ رائیونڈ اور ایک اور جگہ بھی ہے‘ سے حکم آتا ہے۔ امریکہ میں ہر ریاست میں لوگ ووٹ ڈالتے ہیں‘ وہاں نہ کوئی الیکشن کمیشن اور نہ چیف الیکشن کمشنر ہے۔ اگر آپ اپنی پسندیدہ وڈیوز کے علاوہ عالمی حالات میں دلچسپی رکھتے ہیں تو یہ معلوم ہو گا کہ پاکستان سے برطانیہ پہنچنے والے کتنے لوگ ہیں جو دنیا کی سب سے پرانی پارلیمان کے رکن منتخب ہوئے ہیں۔ لندن کے میئر صادق خان کا نام تو سنا ہوگا۔ گزارش بس اتنی ہے کہ سرکار! دنیا تو بدل چکی ہے‘ ہمیں بھی خود کو بدلنے کا تھوڑا سا موقع دیں تو ہمارے حالات اور ہماری قسمت بھی بدل جائے گی۔ یہ موروثیوں کا نظام موروثیوں کے لیے صرف موروثی اور تنخواہ دار ہمنوا ہی پیدا کرے گا۔ کام کا کوئی لیڈر ہم نہیں دیکھ سکیں گے۔ تھپکیاں اور سرپرستی ختم ہو گی تو موروثی اپنے اصل کام اور مقام پر آئیں گے‘ اور پھر ہی حقیقی عوامی قیادت ابھرے گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved