تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     23-08-2024

فیض اور فیض یاب ہونے والے

میں نے پارلیمنٹ کے اندر‘ پبلک جلسوں‘ عدالتی فورم اور وکالت نامہ میں‘ سب جگہ جنرل پرویز مشرف کی ماورائے آئین حکومت کی مخالفت کی۔ لیکن جب اکیلے پرویز مشرف کے خلاف ہائی ٹریزن پنشمنٹ ایکٹ کے تحت آئین کے آرٹیکل چھ میں دی گئی سنگین غداری کا ریفرنس بنایا گیا تو اس کی کھل کر مخالفت بھی کی۔ وجہ بڑی سادہ تھی‘ میری Lego- Constitutional انڈر سٹینڈنگ کے مطابق آئین میں جج ہٹانے اور جج لگانے کا تحریری میکانزم دیا گیا ہے۔ وہ بھی آئین کے دو مختلف آرٹیکلز میں۔ 1973ء کے دستور کے باب نمبر چار کا عنوان ہے General Provisions Relating to the Judicature۔ اسی باب میں آئین کا آرٹیکل 209 آتا ہے۔ اس میں سپریم جوڈیشل کونسل آف پاکستان کے نام سے آئینی فورم مہیا کیا گیا ہے جس کے ذریعے ذہنی طور پر معذور اور مالی طور پر کرپشن میں لتھڑے ہوئے شخص کو جج کے عہدے سے ہٹایا جا سکتا ہے۔ ہٹانے کی یہ شرائط اسی آرٹیکل میں موجود ہیں۔ اور ساتھ ہی ایک انکوائری بصورتِ ٹرائل کی شرط بھی موجود ہے جس کا مقصد اس جج کو اپنی صفائی پیش کرنے کا موقع دینا ہے جس پر الزام لگایا جائے۔
اسی تناظر میں آئین کے دوسرے آرٹیکل 175 میں عدلیہ‘ اس کے اختیارات‘ ہائیکورٹ کے جج تعینات کرنے کے لیے آرٹیکل 175A جبکہ سپریم کورٹ میں جج لگانے کے لیے آرٹیکل 177‘ اِن کی اہلیت اور طریقۂ کار سمیت موجود ہے۔ دستوری قانون کا عالمی طور پر تسلیم شدہ اصول یہ ہے کہ جہاں کسی کو ہائر کرنے یا فائر کرنے کا طریقۂ کار موجود ہو‘ وہاں دوسرا متبادل راستہ اختیار کرنے کی اجازت نہیں۔ ماسوائے قانون میں دی ہوئی اپیل‘ نگرانی یا نظرِثانی کے۔ اس اصول کے تحت سپریم کورٹ کے پاس Suo-Moto نوٹس یا آئین کے آرٹیکل (3)184 کے تحت کسی برطرف شدہ جج کو بحال کرنے کا کوئی اختیار نہیں۔ اسی طرح جنرل پرویز مشرف کے خلاف غیر آئینی اقدام کا اکیلے‘ یکہ و تنہا مقدمہ بنانے کا جواز تھا نہ کوئی قانونی راستہ۔ جج ہٹانے کے لیے اٹارنی جنرل آف پاکستان کی ایڈوائس پر وفاقی وزارتِ قانون نے جنرل مشرف کے لیگل فریم ورک آرڈر کے تحت سمری بنائی۔ اس وقت کے وزیر قانون نے اس سمری کو Approve کیا۔ پھر رولز آف بزنس کے تحت یہ سمری سیکرٹری کابینہ کے پاس پہنچی۔ جس نے ضروری کارروائی کے بعد سمری بحث کے لیے کابینہ کے ایجنڈے میں ڈال دی۔ پھر کابینہ نے یہ سمری منظور بھی کر لی جس میں دو درجن سے زیادہ وزیر و مشیر شامل تھے۔ تب جا کر پرویز مشرف نے بطور صدر جج فارغ کیے۔ سیاسی انتقام‘ غصے اور بغض و عناد پر مبنی مشرف کے خلاف ریفرنس پڑھ کر پتا چلتا ہے جیسے اُس کے ساتھ دوسرا کوئی شریکِ جرم تھا ہی نہیں۔ پرویز مشرف نے خود ٹائپ رائٹر پر بیٹھ کر یہ آرڈر ٹائپ کیا۔ پھر پرنٹنگ کارپوریشن آف پاکستان جا کر اپنے مارشلائی ہاتھوں سے آفیشل گزٹ میں پرنٹ کر دیا۔ اس لیے میرے وہ اعتراضات‘ جو میں نے شریف راج کی ٹیلر میڈکارروائی پر اٹھائے‘ کی بنیاد پر قانون و انصاف کی دنیا میں اس ریفرنس کو انتقامی نان سینس سے زیادہ اہمیت نہ ملی۔ اندھے کو بھی نظر آرہا تھا کہ لیگل فریم ورک آرڈر سے فیض یاب ہونے والے بچا لیے گئے تاکہ بوقتِ ضرورت کام آ سکیں۔ ڈکٹیٹر کی پوری ٹیم چھوڑ کر ایک اکیلے شخص کو اجتماعی سزا کے کٹہرے میں کھینچ لیا گیا۔ فیض یاب ہونے والے ہر شعبے‘ چار صوبائی حکومتوں‘ مرکزی حکومت‘ چاروں چیف منسٹرز اور چار عدد گورنرز کو تو سب جانتے تھے۔
ان دنوں پھر ہمیشہ کی طرح پاکستانی تاریخِ فیض یابی اپنی خصلت دہرا رہی ہے۔ جنرل (ر) فیض حمید صاحب کی گرفتاری کے بعد ان سے فیض یاب ہونے والی ٹولی شریف راج میں پھر سے ایکٹو ہے۔ ایک بار پھر فیض کا تذکرہ ہے لیکن فیض یاب ہونے والے غائب ہیں۔ منظر نامہ ایسا بنایا جا رہا ہے جیسے فرشتوں کی نگری میں گناہگار ڈھونڈھ نکالا جائے گا۔ اس ماحول میں اگلے روز اظہر مشوانی کے دو گمشدہ بھائیوں ''پروفیسر برادران‘‘ کامقدمہ لڑ کر اسلام آباد ہائیکورٹ سے نکلا تو کورٹ رپورٹر ز نے گھیر لیا۔ ایک ینگ رپورٹر نے اپنے تئیں میرے لیے ایسا سوال ڈھونڈا جس کا اس موسم میں متوقع جواب ہے: نہیں نہیں‘ توبہ توبہ‘ خدا کا خوف کریں جی! سوال یہ تھا کیا جنرل (ر) فیض کا ریٹائرمنٹ کے بعد آپ سے کبھی رابطہ ہوا؟ میں نے جواب دیا: جی ہاں! ایک بار نہیں بلکہ دو تین بار جنرل (ر) فیض صاحب نے مجھ سے رابطہ کیا تھا۔
یہ تقریباً تین چار ہفتے پہلے کی بات ہے جب جنرل (ر) فیض حمید صاحب کے خلاف سپریم کورٹ میں حکومتی ٹیم آرٹیکل چھ کے تحت سنگین غداری کی کارروائی کی صدائیں بلند کر رہی تھی۔ جنرل (ر) فیض حمید صاحب نے اس ایشو پر مجھ سے لیگل رائے مانگی جو میں نے تفصیل سے انہیں سمجھا دی۔ جس کے بعد اُنہوں نے میری قانونی رائے کے مختلف پہلوؤں کی تفصیل جاننے کے لیے ایک سے زیادہ مرتبہ مجھ سے رابطہ کیا اور اس رائے پر عمل بھی کیا۔ ساتھ ہی میں نے رپورٹرز کو یہ بھی بتایا کہ یہ وکیل اور کلائنٹ کی گفتگو ہے جو میرے پاس جنرل (ر) فیض حمید صاحب کی امانت ہے اور یہ ہمیشہ امانت رہے گی۔
ذرا سا پیچھے کو دھیان جاتا ہے‘ تب جب FATF سے نکلنے کے لیے پی ٹی آئی کی حکومت پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس سے قوانین پاس کرا رہی تھی اور میں پارلیمانی امور کا انچارج وزیر تھا۔ ایسے میں ایک بڑے ادارے کے DG آفس میں حکومت کی طرف سے مجھے اور وزارتِ امورِ خارجہ کو مدعو کیا گیا۔ FATF سیکرٹریٹ کراچی کے ڈائریکٹر جنرل بھی اس میٹنگ میں شریک ہوئے۔ پی ڈی ایم سے تعلق رکھنے والے ایک سابق وزیراعظم اور موجودہ کابینہ کے پانچ اراکین اور عہدیداران بھی میٹنگ میں شریک تھے۔ ان فیض یاب ہونے والوں نے خوشامد کے وہ وہ تاریخ ساز کرتب دکھائے کہ صاحبِ خوشامد بھی جھینپ سے گئے۔ ان دنوں پارلیمنٹ میں میرا وزارتی چیمبر اور بلاول بھٹو صاحب کا چیمبر ساتھ ساتھ تھا۔ اسی فیض یاب ٹولی کے ایک سرکردہ صاحب ساتھ والے دروازے سے نکل کر میرے چیمبر میں تشریف لائے۔ میں نے کہا: بیٹھیں‘ کافی پیتے ہیں۔ جو جواب ملا وہ بڑے فخرسے یہ سارے اپنے اپنے طریقے سے دہراتے تھے۔ بولے: ابھی فیض کی کافی سے فیض یاب ہو کر آیا ہوں‘ اب ہماری جنرل باجوہ صاحب سے میٹنگ ہے‘ اس لیے معذرت۔ جس طرح لاری اڈّے کے بنارسی ٹھگ اور سعودی عرب میں مانگنے والے پاکستانی ایک ہی سٹوری بیان کرتے ہیں‘ اسی طرح اقتدار کے منگتوں کے جملے بھی ایک طرح کے ہوا کرتے ہیں۔ جنرل (ر) فیض حمید صاحب کا ٹرائل کیا ہے مجھے کچھ معلوم نہیں‘ کس سٹیج پر ہے یہ بھی پتا نہیں۔ اتنا ضرور جانتا ہوں کہ فارم 47 رجیم کی ساری کلاکاریاں آئی پی پیز اور مہنگائی سے توجہ ہٹانے کے لیے ہیں۔ قوم کا فوکس یوں ہے:
دہر کے حالات کی باتیں کریں؍ اِس مسلسل رات کی باتیں کریں
من و سلویٰ کا زمانہ جا چکا؍ بھوک اور آفات کی باتیں کریں
جابر و مجبور کی باتیں کریں؍ اس کہن دستور کی باتیں کریں
تاجِ شاہی کے قصیدے ہو چکے؍ فاقہ کش جمہور کی باتیں کریں
گرنے والے قصر کی توصیف کیا؍ تیشۂ مزدورکی باتیں کریں

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved