تحریر : کنور دلشاد تاریخ اشاعت     23-08-2024

خواجہ آصف کا بیان اور بدلتی سیاسی صورتحال

خواجہ آصف آئے روز مختلف ٹی وی پروگراموں میں بیٹھ کر جو گفت و شنید کرتے رہتے ہیں‘ اس سے حکومت کی ساکھ متاثر ہو رہی ہے۔ گزشتہ دنوں وہ ایک ٹی وی پروگرام میں بیٹھ کر یہ کہہ رہے تھے کہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے اپنی مدتِ ملازمت میں توسیع نہ ہونے کی صورت میں ملک میں مارشل لاء لگانے کی دھمکی دی تھی۔ ان کا یہ بیانیہ حقیقت پر مبنی نہیں ہے۔ جنرل باجوہ تو ملک میں مارشل لاء لگانے کی پوزیشن میں ہی نہیں تھے۔ خواجہ آصف کے بقول قمر جاوید باجوہ نے 25 جولائی 2018ء کے انتخابات میں پاکستان تحریک انصاف کو اکثریت دلانے کیلئے براہِ راست مداخلت کی تھی لیکن اس بات کے ٹھوس ثبوت ان کے پاس موجود نہیں ہیں۔ جنرل (ر)باجوہ کی بنیادی غلطی یہ تھی کہ انہوں نے اپنے ارد گرد ایسے مفاد پرست عناصر اکٹھے کیے ہوئے تھے جنہوں نے اپنے غلط مشوروں کی بدولت باجوہ صاحب سے بھرپور فائدہ اٹھایا لیکن ان کے مشوروں سے باجوہ صاحب کو کوئی فائدہ کیا پہنچتا‘ اُلٹا ان کی ساکھ مزید متاثر ہوئی۔
یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ کا ذکر ہو اور جنرل (ر) فیض حمید کا ذکر نہ ہو۔ شنید ہے کہ عمران خان کو انتخابات میں الیکٹرانگ ووٹنگ مشین کے استعمال کا مشورہ دینے والے فیض حمید ہی تھے۔ گمانِ غالب یہی ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کا مشورہ الیکشن میں شفافیت یقینی بنانے کیلئے نہیں دیا گیا تھا بلکہ اس کا مقصد دھاندلی کی کوشش تھا۔ اگرچہ دنیا میں ہر چیز کے اچھے یا برے ہونے کا انحصار اس کے استعمال کنندہ پر ہوتا ہے اور الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے ذریعے جہاں جھرلو پھیرنے کے امکانات کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے وہیں منظم دھاندلی کیلئے بھی اسے بروئے کار لایا جا سکتا ہے۔ بھارت اور امریکہ سمیت دنیا کے کئی ممالک میں الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں پر خدشات اور تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ اس مشین میں چند ڈالر کے خرچ سے ایک ایسی چپ لگائی جا سکتی ہے جس کے ذریعے صرف ایک ہی پارٹی کے ووٹ کائونٹ ہوں گے‘ یا دوسری پارٹی کے ووٹوں کو اصل تعداد سے کم ظاہر کیا جا سکتا ہے۔ ووٹ کاسٹ کرنے والا تو اپنی پسندیدہ پارٹی کو ہی ووٹ کاسٹ کرتا ہے لیکن یہ ووٹ مشین میں فیڈ کردہ پروگرام کے مطابق ہی کائونٹ ہو گا۔ تحریک انصاف نے الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کیلئے جس طرح الیکشن کمیشن کونظر انداز کر کے مشینوں کی خریداری منسٹری آف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے ذریعے کرنے کا فیصلہ کیا تھا‘ اس کی وجہ سے بہت سے خدشات جنم لیتے ہیں۔ واضح رہے کہ تحریک انصاف کے دورِ حکومت میں الیکٹرانک ووٹنگ مشین کے استعمال کیلئے بھرپور مہم بھی چلائی گئی تھی۔ اس منصوبہ بندی کو عملی جامہ پہنانے کیلئے پارلیمنٹ کی ایک اہم ترین شخصیت نے دبئی میں کام کرنے والی ایک کمپنی سے رابطہ بھی کیا تھا جس کے بعد اس کمپنی کا عملہ پاکستان میں اپنا ایک سیکرٹریٹ بنا کر اس منصوبے پر کام کرتا رہا۔ الیکشن کمیشن کے سربراہ سکندر سلطان راجہ نے بھی اس فیصلے کی مخالفت کی تھی اور حکومت کو بھی یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ یہ فیصلہ ملکی مفاد میں نہیں۔ تب میں نے بھی سینیٹ کی قائمہ کمیٹی میں سینیٹر تاج حیدر کی دعوت پر اس سسٹم کے خلاف دلائل دیے تھے۔ میرا مؤقف یہ تھا کہ اس سسٹم میں خرابی یہ ہے کہ الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کو برسر اقتدار جماعت اپنی مرضی کے مطابق منظم دھاندلی کیلئے پروگرام کروا سکتی ہے۔ اس وقت الیکٹرانک ووٹنگ مشینوں کی خریداری کیلئے 70 ارب روپے کے اخراجات کا تخمینہ لگایا گیا تھا۔ میں نے اس فیصلے کے نقصانات کے تمام پہلوؤں کی سمری اسوقت کے وزیراعظم عمران خان اور سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کو بھی بھجوائی تھی۔ الیکشن کمیشن کی طرف سے اس فیصلے پر 32 اعتراضات سامنے آئے تھے جس کے بعد تحریک انصاف کے وزرا نے اعتراضات دور کرنے کے بجائے چیف الیکشن کمشنر کی کردار کشی مہم شروع کردی۔ فیض حمید اگرچہ اس وقت زیرِ عتاب ہیں مگر وہ میڈیا اور اشرافیہ کے مخصوص حلقے میں گہرا اثر رکھتے ہیں۔انہوں نے اپنے دور میں الیکشن کمیشن کے ہر کام میں اورہر ضمنی الیکشن میں مداخلت کی ۔ڈسکہ الیکشن میں موصوف نے ہی پنجاب کی انتظامیہ کو چیف الیکشن کمشنر سے تعاون نہ کرنے کی ہدایات کی تھیں۔ اس حوالے سے بھی کارروائی کی جانی چاہیے۔
کالم شروع ہوا تھا خواجہ آصف سے لیکن بات کہیں کی کہیں نکل گئی۔شنید ہے کہ اب بعض حلقوں کی جانب سے خواجہ آصف کو قمر جاوید باجوہ کے خلاف مہم چلانے سے روک دیا گیا ہے۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ خواجہ آصف کچھ مخصوص صحافیوں اور اینکر پرسنز کے پروگراموں ہی میں شرکت کرتے ہیں اور اپنی مرضی کے ایجنڈے پر بحث کرتے ہیں۔ دیکھا جائے تو اس وقت کابینہ میں چند راسپوٹین کا غلبہ ہے جو اپنے ذاتی مفادات کی خاطر وزیر اعظم کے ذہن میں مختلف قسم کے وسوسے ڈالتے رہتے ہیں‘ لیکن شہباز شریف حکومت اب گڈ گورننس کی طرف جارہی ہے اور محسوس ہوتا ہے کہ یہ اپنی مدت پوری کرے گی۔
دوسری طرف اگر دیکھا جائے تو حکومت اب تک 9 مئی کے ملزمان کو سزا دینے میں ناکام رہی ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ حکومت اب تک سیاسی بلیم گیم کھیل رہی ہے اور9مئی کے ملزموں کے خلاف کارروائی کرنے سے مصلحتاً گریز کررہی ہے۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ عمران خان کا مقدمہ طویل نہ کیا جائے۔ عدالتوں کو بھی ان مقدمات کو جلد نمٹانے کا کہا جانا چاہیے اور ضروری قانون سازی میں بھی تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔ جب تک اس معاملے سے آگے نہیں بڑھیں گے‘ ملک میں خلفشار کی فضا برقرار رہے گی۔ لہٰذا حکومت میں شامل راسپوٹین سے نجات حاصل کی جائے تاکہ صرف وہ اقدامات کیے جا سکیں جو ذاتی کے بجائے ملکی مفاد میں ہوں۔
اقتدار کے ایوانوں میں آج کل یہ باتیں ہو رہی ہیں کہ میاں نواز شریف کو خواجہ سعد رفیق‘ رانا ثناء اللہ‘ محمود خان اچکزئی‘ شاہد خاقان عباسی اور جاوید لطیف نے مشورہ دیا تھا کہ آٹھ فروری کے الیکشن میں کامیاب نہ ہونے کی صورت میں شکست کو تسلیم کر کے وہ قوم کے صف ِاوّل کے سیاستدان بن سکتے ہیں۔ الیکشن میں ہار جیت ہوتی رہتی ہے‘ 8فروری کے الیکشن میں فارم 45اور فارم 47کی وجہ سے تنازع شروع ہوا اور اب فارم 45اورفارم 47قومی نہیں بلکہ بین الاقوامی معاملہ بن چکا ہے جس سے میاں نواز شریف کی کامیابی پر بے شمار سوالات اٹھ رہے ہیں۔ اب اس کا فیصلہ الیکشن ٹربیونل کے ذریعے ہی ہوگا۔ اگر نواز شریف اس مشکل آزمائش سے نکل گئے تو تمام تجزیے ناکام ہوجائیں گے لیکن اگر ٹربیونل نے ان کے خلاف فیصلہ سنایا تو الیکشن 24ء کے تمام انتخابی نتائج متنازع ہوجائیں گے۔
اُدھر سپریم کورٹ نے مسلم لیگ (ن) کے رہنما علی گوہر بلوچ کی فیصل آباد کے حلقے این اے 97 میں دوبارہ گنتی کی درخواست مسترد کر دی ہے۔ 29 مئی کو لاہور ہائی کورٹ نے این اے 97 میں آٹھ فروری کے انتخابات کے نتائج کو یکجا کرنے کے بعد دوبارہ گنتی کا الیکشن کمیشن کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا تھا۔جسٹس شمس محمود مرزا نے یہ حکم پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدوار محمد سعد اللہ کی درخواست پر دیا تھا۔محمد سعد اللہ نے اپنے وکیل کے توسط سے موقف اختیار کیا کہ انہیں ابتدائی طور پر الیکشن میں کامیاب قرار دیا گیا تاہم الیکشن کمیشن نے مسلم لیگ (ن) کے علی گوہر خان کی درخواست پر دوبارہ گنتی کا حکم دے دیا۔ کمیشن نے دوبارہ گنتی میں مدعا علیہ کی جیت کا اعلان کیا تھا۔اس لیے کمیشن کا نتائج کو یکجا کرنے کے بعد دوبارہ گنتی کرانے کا غلط فیصلہ غیر قانونی ہے۔علی گوہر بلوچ نے لاہور ہائی کورٹ کے اس فیصلے کو سپریم کورٹ میں چیلنج کردیا تھا۔لیکن عدالت نے مسلم لیگ (ن)کے رہنما علی گوہر بلوچ کی دوبارہ گنتی کی اپیل خارج کردی ہے جس کے بعد یہ سیٹ تحریک انصاف کے پاس ہی رہے گی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved