تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     24-08-2024

انتظامیہ

ہماری انتظامیہ کیسے کام کرتی ہے؟ اس سوال کا کوئی کتابی جواب میرے پیشِ نظر نہیں ہے۔ میں تو اس کی کارکردگی کے عملی نتائج کی بات کروں گا۔ وہی نتائج‘ اس ملک کا عام شہری جن کا براہِ راست تجربہ کرتا ہے۔
نوکر شاہی پر بہت سی کتابیں لکھی گئیں۔ اسے ریاست کا اہم ستون مانا گیا ہے۔ اس کی خصوصی تربیت گاہیں ہیں۔ ہرحکومت اہتمام کرتی ہے کہ افسران کو بیرونِ ملک بھیجا جائے اور انہیں سکھایا جائے کہ ایک ترقی یافتہ ملک کی انتظامیہ کیسے کام کرتی ہے۔ ہمارا انتظامی ڈھانچہ انگریزوں کی عطا ہے۔ برصغیر میں انہوں نے جو نظام وضع کیا تھا‘ ہمیں وہ وراثت میں ملا اور آج تک ملک میں اسی کی کار فرمائی ہے۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ انگریز کامیاب حکمران تھے۔ میں اس نوعیت کی کسی نظری بحث میں پڑے بغیر روزمرہ کے تجربات کی روشنی میں اس سوال کا جواب تلاش کرنا چاہتا ہوں۔ میں چشمِ تصور سے اس انتظامیہ کو کام کرتے دیکھ رہا ہوں اور اس طرح کے بعض مناظر میں آپ کو شریک کرنا چاہتا ہوں۔
پہلا منظر: راولپنڈی کرکٹ سٹیڈیم میں پاکستان اور نیوزی لینڈ کے مابین ٹیسٹ میچ ہونا ہے۔ کمشنر‘ ڈی سی‘ اے سی‘ ایس پی ٹریفک‘ انٹیلی جنس ایجنسیوں اور بعض دوسرے محکموں کے نمائندے شریک ہیں اور اس کے انتظامات پر غور کررہے ہیں۔ کھلاڑی اسلام آباد کے ایک ہوٹل میں مقیم ہیں اور انہیں پانچ دن سٹیڈیم میں اس طرح لانا ہے کہ ان کے ساتھ کوئی حادثہ پیش نہ آئے اور پھر یہ کہ سٹیڈیم بھی محفوظ رہے۔ سری لنکا کی ٹیم کے ساتھ ہونے والے حادثے نے پاکستان میں انٹرنیشنل کرکٹ کو بہت نقصان پہنچایا ہے۔ حکومت کی سخت ہدایات ہیں کہ اس نوعیت کا اب کوئی دوسرا حادثہ ہرگز نہ ہونے پائے۔ اس اجلاس میں کچھ فیصلے کیے گئے۔ ان فیصلوں کا ظہور کس طرح ہوا‘ وہ میں اپنے مشاہدے کی بنیاد پر آپ کے سامنے رکھتا ہوں۔
اقدامات: راو لپنڈی کرکٹ سٹیڈیم کے سامنے سے گزرنے والی دو رویہ سڑک میچ کے دو دن پہلے بند کر دی گئی۔ یہ سات دن بنتے ہیں۔ اس کے ساتھ مری روڈ کے سب سے بڑے عوامی پارک کو بھی اتنے ہی دن کے لیے بند کر دیا گیا۔ یہاں اتوار بازار لگتا ہے‘ وہ بھی بند کر دیا گیا۔ تماشائیوں کے لیے پارکنگ‘ سٹیڈیم سے کم از کم تین چار کلو میٹر دور بنائی گئی ہے۔ گویا انہیں اتنا فاصلہ پیدل چل کر آنا پڑا۔ کھلاڑی جب ہوٹل سے روانہ ہوئے‘ اس وقت سے لے کر ان کے سٹیڈیم پہنچنے تک‘ یہ راستہ عوام کے لیے بند کر دیا گیا۔ یہی نہیں‘ اس راستے میں جو دکانیں اور پٹرول پمپ ہیں وہ بھی ان دنوں میں بند رہے۔ تعلیمی اداروں میں چھٹی رہی۔
نتائج: پہلا نتیجہ یہ کہ میچ کے دنوں میں دہشت گردی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا اور حالات پُرامن رہے(تالیاں)۔ دوسرا نتیجہ یہ نکلا کہ لاکھوں لوگ سات دن سڑکوں پر خوار ہوتے رہے جو ملازمت اور دوسرے روز مرہ کاموں کے لیے راولپنڈی اسلام آباد کے درمیان سفر کرتے ہیں۔ تیسرا نتیجہ یہ کہ جو لوگ سٹیڈیم کے قریب رہتے ہیں‘ وہ مسلسل اضطراب میں رہے۔ یہ شہر کا گنجان آباد علاقہ ہے۔ چوتھا نتیجہ یہ کہ عام دنوں میں اگر ایک آدمی پانچ کلو میٹر کا سفر کرتا تھا تو ان دنوں میں متبادل راستوں کی وجہ سے اسے دس کلومیٹر سفر کرنا پڑا۔ اس کے سفری اخراجات دگنے ہو گئے اور وقت بھی۔ پانچواں نتیجہ یہ نکلا کہ دکانیں بند رہنے سے معاشی عمل متاثر ہوا۔ اس سے کاروبار کا جو نقصان ہوا اس کا اندازہ کوئی کاروباری آدمی ہی لگا سکتا ہے۔ یہ علاقہ شہر میں تعمیراتی سامان اور فرنیچرکا سب سے بڑا مرکز ہے۔
تبصرہ: اس حسنِ انتظام میں وہ مہارت کہاں ہے جو تربیتی اکیڈمیوں میں سکھائی جاتی ہے؟ اربوں روپے کا زرِ مبادلہ خرچ کر کے ترقی یافتہ دنیا میں جو ٹریننگ کروائی جاتی ہیں‘ ان کا استعمال کہاں ہے؟ اگر ایک چٹے اَن پڑھ آدمی کو یہ ذمہ داری سونپ دی جائے تو وہ بھی یہ 'انتظام‘ کر سکتا ہے۔ سارے شہر اور اس میں بسنے والے لاکھوں افراد کی معمولات کو برباد کر کے اگر پُرامن میچ ممکن ہو سکا تو اس میں انتظامی کمال کیا ہے؟ اس انتظام کے نتیجے میں کھیل تفریح کے بجائے اذیت کا سبب بن کر سامنے آیا ہے۔
دوسرا منظر: ایک سیاسی جماعت نے راولپنڈی شہر میں ایک جلسے کا پروگرام بنایا ہے۔ حکومت کا فیصلہ ہے کہ اس کو روکنا ہے۔ انتظامیہ کا اسی نوعیت کا ایک اجلاس ہے اور اس کے شرکا بھی وہی ہیں جو کرکٹ میچ کے انتظامات کر رہے تھے۔ اس میں اضافی ذمہ داری یہ ہے کہ دوسرے شہروں کی انتظامیہ سے بھی بات کرنی ہے کہ وہاں سے کم سے کم لوگ یہاں آئیں۔ اس اجلاس میں بھی کچھ فیصلے ہوتے ہیں اور چند اقامات تجویز کیے جاتے ہیں۔
اقدامات: راولپنڈی داخل ہونے والے ہر راستے پر بڑے بڑے کنٹینر کھڑے کرکے انہیں مٹی سے بھر دیا گیا ہے۔ روات کے قریب جی ٹی روڈ بند ہے تاکہ ادھر سے کوئی داخل نہ ہو۔ مری سے آنے والی سڑک بھی بند ہے۔ فیض آباد میں بھی کنٹینر لگے ہیں۔ لاہور سے آنے والوں کو روکنے کے لیے موٹر وے پر داخلہ بند ہے۔ کلر کہار سے بھی موٹر وے بند ہے۔ اسلام آباد راولپنڈی موٹر وے بھی بند ہے۔ شہر کے اندر بھی جگہ جگہ کنٹینر لگے ہیں۔ اسلام آباد کے تعلیمی ادارے بند کر دیے گئے ہیں۔ راولپنڈی سے اسلام آباد داخل ہونے کا ایک ہی راستہ کھلا ہے جس پر گاڑیوں کا ہجوم ہے۔
نتائج: پہلا نتیجہ تو یہ ہے کہ جلسہ نہیں ہو سکا یا اس میں بہت کم لوگ آئے (تالیاں)۔ دیگر نتائج وہی ہیں جو کرکٹ میچ کے تھے۔ اس میں البتہ متاثرین کا دائرہ کم از کم دو صوبوں تک پھیلا ہوا ہے۔ دوسرا نتیجہ یہ ہے کہ اس کے زیادہ تر متاثرین عام لوگ ہیں‘ جلسے میں شرکت کے خواہش مند پارٹی کارکن اور ہمدرد نہیں۔ ان کا روز گار بند ہو گیا۔ وہ مریض ہیں تو ہسپتال نہیں جا سکے۔ ملک کو بلامبالغہ کروڑوں روپے روزانہ کا نقصان ہوا ہے۔
مجھے اس وقت سیاسی حقوق سے کوئی غرض ہے نہ معاشی نقصانات سے۔ میرا سوال تو انتظامیہ کی مہارت کے بارے میں ہے۔ مہارت تو یہ ہے کہ معمول کی زندگی کو متاثر کیے بغیر انتظامیہ اپنے اہداف حاصل کرے۔ اگر اس نے کرکٹ میچ کو پُرامن رکھنا ہے تو اس کی مہارت یہ ہے کہ عام آدمی کو اس کے انتظامات کی بھنک نہ پڑے اور مقصد بھی حاصل ہو جائے۔ اگر انتظامیہ نے کسی مخصوص سیاسی جماعت کے کارکنوں کو جمع ہونے سے روکنا ہے تو یہ کام اس طرح ہونا چاہیے کہ عام آدمی کی نقل و حرکت متاثر نہ ہو۔ یا اگر کہیں ہو بھی تو بہت محدود دائرے میں۔ ساری دنیا دہشت گردی کا شکار رہی ہے۔ کیا وہاں یہی کچھ ہوتا ہے؟
انگریزوں کی انتظامیہ میں سب جنرل ڈائر نہیں تھے۔ پاکستان میں ایسے ایسے افسر رہے ہیں جنہوں نے ہزاروں کے اجتماع کو منتشر کیا ہے اور ایک آدمی زخمی نہیں ہوا۔ میں نے بارہا دیکھا کہ آج کی انتظامیہ پچاس افراد منتشر کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتی۔ یہ اے سی اور ڈی سی کے پروٹوکولز میں شامل ہے کہ برسات سے پہلے شہر کے نالوں کو صاف کرنا ہے تاکہ برسات میں پانی سڑکوں اورگھروں میں نہ گھسے۔ آج کتنے اے سی اس کا اہتمام کرتے ہیں؟
واقعہ یہ ہے کہ ہمارا انتظامی ڈھانچہ شدید بحران کا شکار ہے۔ اس میں کسی غیر معمولی واقعے سے نمٹنے کی سکت ہے نہ صلاحیت۔ اس کے باعث عام آدمی کی زندگی اجیرن ہے۔ جمہوری معاشروں میں جلسے جلوس معمولات میں شامل ہوتے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ غیرمعمولی واقعہ بن جاتا ہے اور اس کا بڑا سبب انتظامی نااہلی ہے۔ اس انتظامی ڈھانچے کے ساتھ سماج میں استحکام نہیں آ سکتا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved