تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     24-08-2024

مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات

یہاں پاکستان میں ہمارے حکمرانوں اور سیاستدانوں کو اپنے مسائل سے ہی فرصت نہیں کہ وہ مقبوضہ کشمیر کے تازہ ترین حالات جانتے‘ سمجھتے اور اُن کا تجزیہ کرتے۔لگتا یوں ہے کہ ہمارے پریشاں حال کشمیری بھائیوں نے سمجھ لیا ہے کہ جن کی محبت میں ہم تڑپتے ہیں‘ جن کے ساتھ اپنا مستقبل وابستہ کرتے ہیں وہ اب ہم سے بھی زیادہ خستۂ تیغِ ستم ہیں۔ وہ ہر وقت آپس میں لڑتے جھگڑتے رہتے ہیں‘ ایک دوسرے کو نیچا دکھانے میں سرگرم عمل دکھائی دیتے ہیں‘ ان حالات میں وہ ہماری کیا مدد کریں گے۔ میری معلومات کی حد تک ہمارے تھنک ٹینکس اور اسمبلی و سینیٹ میں کشمیر کمیٹیوں نے بھی بھارتی لوک سبھا کے مئی میں ہونے والے انتخابات کے جموں و کشمیر کے نتائج کا کوئی گہرا تجزیہ کیا اور نہ ہی اُن کی روشنی میں یہ سوچا کہ ستمبر‘ اکتوبر میں ہونے والے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے الیکشن میں وہاں کی سیاسی جماعتوں کی کیا پالیسی ہوگی۔
اس موقع پر چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان اپنے اخلاقی‘ سفارتی اور سیاسی تعاون کو بروئے کار لانے کی منصوبہ بندی کرتا تاکہ مقبوضہ کشمیر کے مسلمان ووٹرز بھارت کو یہ پیغام دے سکتے کہ ہم تمام تر مصائب اور مشکلات کے باوجود بی جے پی کے جمہوریت کُش اقدامات کے خلاف یک جان سو قالب ہیں ۔ افسوس کا مقام یہ ہے کہ اس سلسلے میں کوئی عملی کارکردگی سامنے نہیں آئی۔
مئی 2024ء میں لوک سبھا کے انتخابات 5اگست 2019 ء کو آئینِ ہند میں شق نمبر 370 کی منسوخی کے بعد پہلی مرتبہ ہو رہے تھے۔بھارتی آئین کی دفعہ 370کی منسوخی سے کشمیر کی وہ نیم خود مختار حیثیت ختم ہو گئی تھی جو اسے دوسری بھارتی ریاستوں کے مقابلے میں حاصل تھی۔ اس دفعہ کی منسوخی سے پہلے کشمیر اسمبلی کسی وفاقی یا مرکزی انتظام کے تحت نہیں تھی۔ وہ دستورِ انڈیا کے مطابق اپنے معاملات کو خود چلانے کی مجاز تھی۔ کشمیری مودی سرکار کے وضع کردہ ظلم اور جبر کے نئے ضابطوں کو ماننے پر تیار نہیں۔بات ہو رہی تھی مئی 2024ء میں منعقد ہونے والے بھارتی لوک سبھا انتخابات کی۔ جموں و کشمیر کی چھ نشستوں میں سے صرف دو بی جے پی جیت سکی‘ باقی چار میں سے دو جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس کے امیدواروں کے حصے میں آئیں اور دو آزاد امیدوار جیت گئے۔ اس الیکشن کی ایک نمایاں بات یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر کے دو سابق وزرائے اعلیٰ محبوبہ مفتی اور عمر فاروق عبداللہ شکست سے دوچار ہوئے۔ان دونوں وزرا کو بی جے پی نواز پالیسیوں اور حریت پسندوں کے ساتھ تعاون نہ کرنے کی بنا پر ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا۔سابق وزیراعلیٰ ابنِ وزیراعلیٰ عمر عبداللہ کو بارہ مولا میں ایک آزاد امیدوار انجینئر رشید کے ہاتھوں شکست فاش کا سامنا کرنا پڑا۔ گزشتہ پانچ برس سے کشمیریوں کا یہ ہر دل عزیز لیڈر انجینئر رشید تہاڑ جیل دہلی میں پابندِ سلاسل ہے۔ اس آزاد امیدوار کوعمر عبداللہ کے مقابلے میں دو لاکھ چارہزار سے زیادہ ووٹ ملے۔ انجینئر رشید کے بیٹوں ابرار رشید اور اسرار رشید نے اپنے والد کی انتخابی مہم نہایت جوش و خروش سے چلائی تھی۔
لوک سبھا کے نتائج اور انتخابی مہم وغیرہ کے سلسلے میں کئی اہم آبزرویشنز ہیں۔ انہی آبزرویشنز کی روشنی میں کشمیر کی سیاسی جماعتیں ستمبر کے ریاستی انتخابات کیلئے اپنی پالیسی تشکیل دے رہی ہیں۔ پہلی آبزرویشن یہ ہے کہ سرینگر اور دوسرے کشمیری شہروں میں ووٹروں نے بڑھ چڑھ کر ووٹنگ میں حصہ لیا۔ ایک ایک حلقے سے تین تین لاکھ ٹرن آؤٹ رہا۔ دوسری آبزرویشن یہ ہے کہ الیکشن کے دوران لوگوں نے اُن امیدواروں کو ووٹ دیے جنہوں نے آئینِ ہند کی دفعہ 370کی بحالی کی یقین دہانی کرائی تھی۔ لوگوں نے پُرجوش نعرے لگائے کہ ہم ایک ایک ظلم کا بدلہ بذریعہ ووٹ لیں گے۔ تیسری آبزرویشن یہ ہے کہ اگر آل پارٹیز حریت کانفرنس یا جماعت اسلامی انتخابی اکھاڑے میں اترتے اور بائیکاٹ کا فیصلہ نہ کرتے تو لوک سبھا کے انتخابات میں انہیں جموں کشمیر میں شاندار کامیابی مل سکتی تھی۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ اب کشمیری الیکشن میں عملاً حصہ لینے کا فیصلہ کر چکے ہیں۔ چاہیے تو یہ تھا کہ پاکستان وہاں کے لوگوں کے رویے میں پیدا ہونے والی تبدیلی کو پہچانتا اور ستمبر‘ اکتوبر کے مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات سے قبل بھارت کے ساتھ دوطرفہ سفارت کاری کے ذریعے اسے اس بات پر قائل کرتا کہ وہ کشمیر میں بھارتی دستور کی دفعہ 370 بحال کرے اور وہاں کی سیاسی جماعتوں کے قائدین کو انتخابات سے قبل جیلوں سے رہا کرے‘ نیز جن جماعتوں کو بھارت نے خلافِ قانون قرار دے رکھا ہے اُن پر سے بھی پابندی اٹھانے کا مطالبہ کیا جاتا۔ اسی طرح پاکستان کی طرف سے اقوام متحدہ اور سلامتی کونسل میں بھرپور مہم چلا کر کشمیریوں کیساتھ کیے گئے سلامتی کونسل کے وعدے یاد دلائے جاتے اور اُنہیں باور کرایا جاتا کہ انہوں نے 75 برس پہلے کی گئی حقِ خودارادیت کی کمٹمنٹ ابھی تک پوری نہیں کی۔ ان عالمی اداروں کے ذریعے مقبوضہ کشمیر کے لیڈروں کی رہائی اور انہیں انتخابات میں حصہ لینے کی آزادی کے سلسلے میں پاکستان کو زبردست مہم چلانی چاہیے تھی ‘مگر ایسا نہیں ہو سکا۔اگر ہمارے ملک میں سیاسی استحکام ہوتا‘ پارلیمنٹ ‘ اس کی کمیٹیاں اور وزارتِ خارجہ اپنے اپنے فرائض بطریقِ احسن انجام دے رہے ہوتے تو پھر کشمیریوں کی بھرپور اخلاقی و سفارتی مدد کی جا سکتی تھی۔
آزاد کشمیر میں جماعت اسلامی کے مرکزی رہنما اور وہاں کی اسمبلی کے سابق رکن جناب رشید احمد ترابی عالم اسلام اور یورپی ممالک کے اراکینِ پارلیمنٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ وہ یورپ میں آباد کشمیری دانشوروں اور صحافیوں کو مقبوضہ کشمیر کے مسلمانوں پر ڈھائے جانے والے مظالم اور بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کی لرزہ خیز کارروائیوں سے گاہے گاہے آگاہ کرتے رہتے ہیں۔ اسی طرح عالم اسلام میں بھی ترابی صاحب کا بہت احترام پایا جاتا ہے۔میں نے ترابی صاحب سے پوچھا کہ مقبوضہ کشمیر اسمبلی کے انتخابات سر پر آن پہنچے ہیں ‘ اس الیکشن کے بارے میں جموں و کشمیر کی سیاسی پارٹیوں کی کیا پالیسی ہے؟ ترابی صاحب نے بتایا کہ آل پارٹیز حریت کانفرنس کے اکثر رہنما جیلوں میں ہیں۔ میر واعظ عمر فاروق بھی کبھی پس دیوارِ زنداں‘ کبھی گھر پر نظر بند اور کبھی کبھار انہیں آزادی کی چند گھڑیاں بھی میسر آ جاتی ہیں۔ کل جماعتی حریت کانفرنس کا سابقہ فیصلہ تو انتخابی بائیکاٹ کا تھا۔جماعت اسلامی مقبوضہ کشمیر کی اس حریت کانفرنس کا حصہ ہے۔ البتہ جماعت اسلامی پر ابھی تک حکومتی پابندی عائد ہے۔بھارتی الیکشن کمیشن کے اعلان کے مطابق مقبوضہ کشمیر اسمبلی کی 90 سیٹوں پر 18ستمبر‘ 25 ستمبر اور یکم اکتوبر کو انتخابات ہوں گے۔
مئی کے دوران جموں و کشمیر میں ہونیوالے بھارتی لوک سبھا کے انتخاب میں عوام نے بڑھ چڑھ کر حصہ لیا اور بہت جوش و خروش کا مظاہرہ کیا۔ اس لیے ہماری رائے میں بدلتے ہوئے حالات کے پیشِ نظر حریت کانفرنس اور اس کی اتحادی جماعتوں کو اپنی سابقہ بائیکاٹ پالیسی پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ اگر کل جماعتی حریت کانفرنس اور جماعت اسلامی کو جماعتی حیثیت سے انتخاب میں شمولیت کی اجازت نہ ملے تو بھی انہیں آزاد حیثیت میں اپنی دوسری‘ تیسری صف کے قائدین اور کارکنان کوانتخابی اکھاڑے میں اتارنا چاہیے۔انتخابی میدان کو عمر عبداللہ اور محبوبہ مفتی جیسے کٹھ پتلی سیاستدانوں کیلئے خالی نہیں چھوڑنا چاہیے۔ ہمارے اندازے کے مطابق اب کشمیری عوام ووٹ کے ذریعے تبدیلی لانے اور اپنی پسند کے حکمران منتخب کرنے کا موقع ضائع نہیں کرنا چاہتے۔ایک دلچسپ آبزرویشن یہ بھی ہے کہ کشمیری ووٹروں نے بھارت کے انسانیت سوز مظالم اور ہتھکنڈوں پر احتجاج تو کیا ہے مگر انتخابات کے فیئر اینڈ فری ہونے پر کوئی انگلی نہیں اٹھائی۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved