تحریر : ڈاکٹر حسن عسکری رضوی تاریخ اشاعت     24-08-2024

پاکستان کی بیرونی اور اندرونی سلامتی

قومی سلامتی ریاست کی اہم ذمہ داری ہے ‘ تمام ریاستیں اس پر توجہ دیتی ہیں اور ٹھوس سفارت کاری کے ساتھ قومی سلامتی کالائحہ عمل بھی تشکیل دیتی ہیں۔ شروع میں ریاستوں کی توجہ بیرونی سلامتی پر تھی کیونکہ آزادی اور خودمختاری کو لاحق خطرات کو ریاست میں بیرونی مداخلت کے طور پر دیکھا جاتا تھا۔ اگر کسی ریاست کے قریبی پڑوسیوں کے ساتھ تعلقات خراب ہوتے ہیں تو ریاستیں بیرونی سلامتی پر زیادہ توجہ دیتی ہیں‘مگراب داخلی سلامتی کے تناظر میں قومی سلامتی کے تصور کی وسعت میں اضافہ ہو ا ہے‘ جو کہ علیحدگی پسند تحریکوں‘ جرائم اور تشدد‘ انتہا پسندی اور دہشت گردی جیسے داخلی سلامتی کے خطرات سے نمٹتی ہے۔ قومی سلامتی کا ایک اور اہم پہلو معاشی اور سیاسی استحکام ہے۔ اگرملکی معیشت زوال پذیر ہے‘ غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور بے روزگاری زیادہ ہے تو اسے بھی قومی سلامتی کیلئے خطرہ سمجھا جاتا ہے کیونکہ یہ عوامل معاشرے میں تنازعات اور تشدد کا سبب بنتے ہیں۔ اسی طرح اگر سیاسی محاذ آرائی حد سے زیادہ ہے تومعاشرہ ایسے متحارب سیاسی کیمپوں میں تقسیم ہوجاتا ہے جو کسی بھی سیاسی یا معاشی مسئلے پر تعاون نہیں کرتے۔ جس کی وجہ سے سیاسی تعطل اور مستقبل کے بارے میں غیر یقینی صورتحال پیدا ہوتی ہے اور سیاسی طور پر پریشان حکومت معاشی ترقی پر توجہ نہیں دے پاتی۔ اس قسم کی سیاسی صورتحال داخلی عدم استحکام اور معاشی زوال کا بھی سبب بنتی ہے‘ لہٰذا ہم قومی سلامتی کو سلامتی کے جامع تناظر میں دیکھتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ریاستوں کو بیرونی اور اندرونی سلامتی اور جسے معاشرتی فلاح و بہبود کہا جاتا ہے‘ کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستان کی بیرونی سلامتی قریبی پڑوس سے منسلک ہے۔ پاکستان کے بھارت کے ساتھ تعلقات شروع ہی سے کشیدہ رہے ہیں۔ یہ آزادی سے پہلے کے دور میں مسلم لیگ اور کانگریس پارٹی کے مابین محاذ آرائی‘ 1947ء میں فرقہ وارانہ فسادات اور ہلاکتوں اور پاکستان کو ایک علیحدہ اور خودمختار ریاست کے طور پر قبول کرنے میں بھارتی قیادت کی ناپسندیدگی سے عبارت ہیں ۔ تقسیم کے عمل میں پیدا ہونے والے مسائل میں مسئلہ کشمیر بھی شامل ہے جس پر پہلی جنگ1948ء میں ہوئی۔ اس مسئلے کو دونوں ممالک کے تعلقات کی خرابی کی بنیاد سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان نے بھارت کے خلاف اپنے دفاع پر ہمیشہ توجہ دی ہے اوریہ پاکستان کی دفاعی پالیسی کی مستقل ترجیح ہے۔ اُدھرآزادی کے ابتدائی برسوں میں افغانستان نے اپنی سرحد سے متصل پاکستانی سرزمین پر بھی دعوے کر دیے اور بعد کے سالوں میں بھی ان دعووں کا اعادہ کیا؛ یوں پاکستان اور افغانستان کے سفارتی تعلقات 1955-56ء اور 1962-63ء میں دو بار معطل ہوئے۔ کابل میں طالبان حکومت اب بھی ڈیورنڈ لائن کو پاکستان اور افغانستان کے درمیان بین الاقوامی سرحد قرار دینے پر آمادہ نہیں۔ بھارت اور افغانستان کے تناظر میں پاکستان کی بیرونی علاقائی سلامتی اس کیلئے سب سے بڑی سکیورٹی تشویش ہے؛ چنانچہ پاکستان نے کسی بھی دوسرے مسئلے کے مقابلے میں بیرونی سلامتی پر زیادہ وسائل خرچ کیے ہیں۔ نتیجتاً تعلیم‘ صحت کی دیکھ بھال اور عوام کو شہری سہولتوں کی فراہمی نظرانداز ہوئی۔
دسمبر 1979ء میں افغانستان میں سوویت فوجی مداخلت کے ساتھ بیرونی سلامتی کے مسائل میں اضافہ ہوا‘ اُس وقت پاکستان کو افغان جنگ اور افغان مہاجرین کے بوجھ کا سامنا کرنا پڑا۔ 11 ستمبر 2001ء کو امریکہ میں ہونے والے دہشت گرد حملے اور اکتوبر 2001ء میں افغانستان میں طالبان اور القاعدہ کے خلاف امریکی زیرقیادت فوجی کارروائی سے پاکستان کیلئے بیرونی سلامتی کے مسائل کا تیسرا دور شروع ہوا۔ 1950ء اور 1960ء کی دہائی میں بھارت اور افغانستان کی دھمکیاں‘ سوویت فوجی مداخلت (1979-89ء)اور افغانستان کے خلاف دہشت گردی اور کارروائی (2001ء کے بعد) ان تینوں مواقع پرپاکستان نے امریکہ سے معاشی اور فوجی مدد حاصل کی اور امریکی امداد اور عسکری سامان کی فروخت نے سکیورٹی سسٹم میں خلیج کو پاٹنے میں مدد کی اور معاشی امداد نے پاکستانی معیشت کی مدد کی۔ تاہم پاکستان اور امریکہ کے سکیورٹی تعلقات نے طویل مدت میں پاکستان کیلئے کئی مسائل بھی پیدا کیے؛چنانچہ علاقائی صورتحال تبدیل ہونے کے بعد یہ تعلقات پہلے جیسے نہیں رہے۔
پاکستان کا جوہری پروگرام بھی اس کی قومی سلامتی کا اہم جزو ہے اور اس کا مقصد صرف بھارت کے خلاف پاکستان کی سلامتی کا تحفظ ہے۔ پاکستان کی حکمت عملی فوجی تیاری میں بھارت کا مقابلہ کرنا نہیں بلکہ بھارتی فوجی مہم جوئی کی لاگت میں اضافہ کرنے کیلئے اپنے روایتی اور جوہری دفاع کو ایک سطح پر رکھنا ہے۔ پاکستان ''فل سپیکٹرم سکیورٹی‘‘ کی بات کرتا ہے جس میں روایتی‘ نیم روایتی اور جوہری ہتھیار اور ترسیل کا نظام شامل ہے‘ بجائے اس کے کہ انہیں سکیورٹی کی تین مختلف اکائیوں کے طور پر سمجھا جائے۔
امریکہ کے زیر اہتمام دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان سے ملک میں انتہا پسندی‘ تشدد اور دہشت گردی کے خلاف داخلی سلامتی کے سنگین خطرات پیدا ہوئے ہیں۔ پاکستانی فوج‘ نیم فوجی دستوں اور پولیس نے پاکستان اور افغانستان میں مقیم انتہا پسند اور دہشت گرد گروہوں کے خلاف بہادری سے جنگ لڑی ہے۔ خیبر پختونخوا اور بلوچستان کے کچھ علاقے دہشت گردی سے شدید متاثر ہیں جبکہ پاکستان انسانی اور سماجی سلامتی پر مسلسل ناقص کارکردگی کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ مالی سال 2023-24ء میں پاکستان نے صحت کی دیکھ بھال اور تعلیم پر جی ڈی پی کا 2.5 فیصد اور 2 فیصد خرچ کیا‘ جو پاکستان کی آبادی کیلئے ناکافی ہے۔ سرکاری ہسپتالوں میں اتنی بھیڑ ہے کہ وہاں سے طبی امداد حاصل کرنا خوش قسمتی سے کم نہیں۔اوران ہسپتالوں میں ہر کوئی خوش قسمت نہیں ہوتا۔ نجی شعبے میں علاج اتنا مہنگا ہے کہ زیادہ تر لوگ اسے برداشت نہیں کر سکتے۔ بہت سے سرکاری سکولوں اور کالجوں میں بنیادی سہولیات کی کمی ہے جو طالب علموں کو اپنی تعلیم پر زیادہ توجہ دینے کی ترغیب دینے کیلئے اچھے تعلیمی ماحول کیلئے ایک لازمی شرط ہے۔
محاذ آرائی کی سیاست اور کمزور معیشت عام لوگوں کے مسائل میں اضافہ کر رہی ہے اور وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے پاس انسانی سلامتی پر زیادہ توجہ دینے کیلئے کافی وسائل نہیں ہیں۔ پچھلے دو سال کے دوران مہنگائی میں 100 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا ہے‘ جس سے پاکستان میں غربت اور پسماندگی میں اضافہ ہوا ہے۔ توانائی اور گیس کی قیمتوں میں زبردست اضافے نے صنعت اور کاروباری شعبے کو بھی شدید متاثر کیا ہے جس سے بے روزگاری میں اضافہ ہوا ہے اور نوجوانوں کو پاکستان میں اپنے لیے زیادہ امکانات نظر نہیں آرہے۔
قومی سلامتی کے زیادہ تر ماہرین داخلی سلامتی کے مسائل‘ خاص طور پر انتہا پسندی اور دہشت گردی سے نمٹنے کو اہمیت دیتے ہیں اور سیاسی اور معاشی تنازعات اور غیر یقینی صورتحال کو ختم کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہیں۔ وہ صحیح کہتے ہیں کہ جدید مواصلات اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی دنیا میں دوسری ریاستوں اور گروہوں کیلئے داخلی عدم تحفظ‘ سیاسی مسائل اور تنازعات قومی استحصال کا سبب بنتے ہیں جبکہ قومی سلامتی کا تقاضا ہے کہ مخالف ریاستوں کو آپ کی داخلی کمزوریوں اور خامیوں کے استحصال کا موقع نہیں ملنا چاہیے۔
ہم یہ استدلال کر سکتے ہیں کہ پاکستان کا بیرونی دفاع پیشہ ور فوجی‘ روایتی اور ذیلی روایتی سکیورٹی انتظامات کے ساتھ ساتھ جوہری ہتھیاروں کے پروگرام اور ڈیلیوری سسٹم کی مدد سے پوری طرح محفوظ ہے‘ تاہم پاکستان کی داخلی سلامتی اور انسانی فلاح و بہبود کے بارے میں اعتماد کے ساتھ کچھ نہیں کہہ سکتے کیونکہ اس معاملے میں پاکستان کے ریاستی نظام کو سنگین چیلنجز درپیش ہیں‘ جو پاکستان کو بیرونی مداخلت اور استحصال کا شکار بناتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved