تحریر : رشید صافی تاریخ اشاعت     25-08-2024

افغان طالبان کے سفارتی روابط

افغانستان سے امریکی انخلا کو تین برس ہو گئے ہیں۔ امریکی انخلا کے بعد افغانستان سے خانہ جنگی کا خاتمہ تو ہو گیا تاہم مستحکم افغانستان کا خواب شرمندۂ تعبیر نہیں ہو سکا۔اُلٹا افغان طالبان کی عبوری حکومت کو سفارتی تنہائی اور اقتصادی مشکلات نے آن گھیرا ہے۔ پاکستان نے انسانی ہمدردی کے ناطے عالمی برادری سے افغانستان کو فنڈز مہیا کرنے کی اپیل کی‘ اس مقصد سے دسمبر 2021ء میں پاکستان کی میزبانی میں او آئی سی کا اجلاس اسلام آباد میں منعقد ہوا۔ سعودی عرب‘ قطر‘ متحدہ عرب امارات اور دیگر ممالک کی طرف سے پاکستان کی افغانستان کیلئے کی جانے والی کوششوں کو سراہا گیا لیکن افغان قیادت ان کاوشوں کو فراموش کر چکی ہے۔
اس وقت طالبان کیلئے غور طلب امر یہ ہونا چاہیے کہ دنیا انہیں تسلیم کیوں نہیں کر رہی ہے؟ اگست 2021ء میں افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد پاکستان اور چین وہ ممالک تھے جنہوں نے افغانستان میں اپنے سفارت خانے کھلے رکھے جبکہ پاکستان میں افغان سفارت خانہ انخلا کے کچھ ہی روز بعد فعال ہو گیا تھا۔ البتہ چین نے افغانستان کے سفارت کار کو فروری 2024ء میں بیجنگ میں قبول کیا۔ اب متحدہ عرب امارات افغان طالبان کے ساتھ سفارتی روابط قائم کرنے والے ممالک میں نیا اضافہ ہے جو حقانی گروپ کی کاوشوں سے ممکن ہو پایا ہے۔ طالبان قیادت کے اب تک تین گروہ سامنے آچکے ہیں۔ قندھاری گروپ‘ حقانی گروپ اور قطر یا کابل گروپ۔ قندھاری گروپ طالبان کے بانی مُلا عمر کی جائے پیدائش قندھار سے تعلق رکھتا ہے اور اسے طالبان کا سب سے پرانا گروپ سمجھا جاتا ہے۔ یہ گروپ طالبان کے اندر سخت گیر اور روایتی گروپ کے طور پر جانا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ افغانستان میں عملی طور پر قندھاری گروپ کی ہی حکومت ہے۔ حقانی گروپ کے بانی جلال الدین حقانی تھے۔ یہ گروپ القاعدہ کے ساتھ گہرے تعلقات کی وجہ سے جانا جاتا ہے۔ قطر یا کابل گروپ طالبان کے اُن رہنماؤں پر مشتمل ہے جو قطر میں مذاکرات کے دوران امریکہ کے ساتھ ملاقات کر چکے ہیں۔ یہ گروپ قدرے اعتدال پسند خیالات کا حامل سمجھا جاتا ہے جو طالبان حکومت میں اصلاحات کا خواہاں ہے۔
طالبان کے اندر مختلف گروپوں کی موجودگی کوئی نئی بات نہیں۔ تاریخی طور پر طالبان علاقوں اور قبیلوں کی بنیاد پر مختلف گروپوں میں تقسیم رہے ہیں‘ تاہم افغانستان میں طالبان حکومت کے قیام کے بعد سے ان گروپوں کے درمیان اختلافات اور اقتدار کی کشمکش میں اضافہ ہوا ہے۔ متحدہ عرب امارات کے ساتھ سفارتی تعلقات حقانی خاندان کی وجہ سے قائم ہوئے ہیں۔ حقانی گروپ کا یو اے ای شاہی خاندان سے دیرینہ تعلق بلکہ رشتہ داری کی حد تک قربت ہے۔ طالبان کے ساتھ پہلی دفعہ قطر کے ساتھ ساتھ سعودی عرب اور یو اے ای کی سفارت کاری آگے بڑھی ہے۔ پاکستان نے بھی حقانیوں کو سعودی عرب اور یو اے ای کے قریب لانے میں اہم کردار ادا کیا اور بالآخر حقانی گروپ تین سال بعد سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کی قربت حاصل کرنے میں کامیاب ہوا ہے۔ افغانستان کے دیگر گروپوں کی نسبت حقانی گروپ کے لوگ اعلیٰ تعلیم یافتہ سمجھتے جاتے ہیں اور سفارت کاری کو بروئے کار لاتے ہوئے مختلف ممالک کے ساتھ تعلقات استوار کرنے میں پیش پیش ہیں۔ حقانیوں کے پاکستان کے ساتھ حالیہ روابط افغانستان میں ان کے اقتدار کے حصے کو مضبوط کرنے بلکہ بعض افرادکے خیال میں حقانیوں کے آگے پہنچنے میں آسانی پیدا کر سکتے ہیں۔
ملکوں کی تاریخ میں اس بات کی بہت اہمیت ہوتی ہے کہ جب انہیں سفارتی تنہائی کا سامنا تھا تو وہ کون سے ممالک تھے جنہوں نے نتائج کی پروا نہ کرتے ہوئے ان سے سفارتی تعلقات قائم کیے۔ سفارتی تعلقات کا مطلب صرف دو ممالک کے درمیان سفیر اور قونصل جنرل کا تبادلہ نہیں ہوتا بلکہ یہ تعلقات دو ممالک کے درمیان سیاسی‘ اقتصادی‘ ثقافتی اور سماجی تعاون کے دروازے کھولتے ہیں۔ سفارتی تعلقات ایک ملک کو بین الاقوامی سطح پر خاص پہچان اور عزت دلاتے ہیں۔ جب دوسرے ممالک اس ملک کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرتے ہیں تو یہ ان کی جانب سے تسلیم اور قبولیت کا اشارہ ہوتا ہے۔ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے اس ملک کی بین الاقوامی سطح پر عزت بڑھتی ہے اور اس کی آواز عالمی سطح پر سنی جانے لگتی ہے۔ جب دو ممالک کے درمیان سفارتی تعلقات قائم ہوتے ہیں تو ان کے درمیان تجارت اور سرمایہ کاری کے مواقع بڑھ جاتے ہیں۔ یہ مواقع اس ملک کو اقتصادی ترقی کے راستے پر گامزن کرنے میں مدد کرتے ہیں۔ جب ایک ملک بین الاقوامی سطح پر تنہائی کا سامنا کر رہا ہوتا ہے تو اس کے لیے دیگر ممالک کی حمایت اور تحفظ بہت ضروری ہوتا ہے۔ افغانستان سے امریکی افواج کے انخلا کے بعد سے طالبان حکومت سفارتی تنہائی کا شکار ہے۔ اس سفارتی تنہائی نے طالبان حکومت کے لیے معاشی‘ سیاسی اور سماجی چیلنجز کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے۔ طالبان حکومت سفارتی تنہائی سے کیسے نکل سکتی ہے‘ یہ طالبان کے رویے پر منحصر ہے۔ طالبان حکومت کی سفارتی تنہائی کی ایک بڑی وجہ بین الاقوامی برادری کی جانب سے طالبان حکومت کو تسلیم نہ کیا جانا ہے۔ طالبان حکومت کی قیادت میں افغانستان میں انسانی حقوق کی پابندیوں اور دہشت گردی کے خطرات نے بہت سے ممالک کو اس حکومت کو تسلیم کرنے سے روکا ہے۔ اس سفارتی تنہائی کے نتیجے میں طالبان حکومت کو بین الاقوامی مالیاتی اداروں سے امداد حاصل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور افغانستان کی معیشت شدید دباؤ کا شکار ہو گئی۔ اس سے طالبان حکومت کی اقتصادی ترقی اور عوام کی بہبود میں رکاوٹ پیدا ہو رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں چین‘ پاکستان اور متحدہ عرب امارات جیسے ممالک افغانستان کے ساتھ سفارتی سطح پر تعلقات قائم کیے ہوئے ہیں تو اسے غنیمت جاننا چاہیے تاکہ ان کی سفارتی تنہائی کم ہو مگر حقیقت یہ ہے کہ افغان طالبان اپنے رویے میں نرمی لانے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی دوحہ معاہدے کی پاسداری کر رہے ہیں۔ طالبان حکومت نے دوحہ معاہدہ کے تحت افغانستان سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا‘ تاہم طالبان حکومت کے اقتدار میں آنے کے بعد سے افغانستان کی طرف سے دہشت گردوں کی پشت پناہی میں اضافہ ہوا ہے۔ طالبان حکومت نے دہشت گرد تنظیموں کے ساتھ تعلقات کو ختم کرنے کا بھی وعدہ کیا تھا لیکن اس وعدے کو بھی پورا نہیں کیا گیا۔ پاکستان کے خلاف افغان سرزمین مسلسل استعمال ہو رہی ہے جس کے ٹھوس شواہد موجود ہیں لیکن افغان حکومت دہشت گرد عناصر کے خلاف کارروائی سے گریزاں ہیں۔ اسی طرح طالبان حکومت نے دوحہ معاہدہ کے تحت خواتین کی تعلیم پر سے پابندی ہٹانے کا بھی وعدہ کیا تھا مگر طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد سے خواتین کی ثانوی تعلیم پر پابندی عائد ہے۔ طالبان حکومت کی جانب سے دوحہ معاہدے کا احترام نہ کرنا بین الاقوامی سطح پر اس حکومت کی تنہائی کا سبب بنا ہے۔ بہت سے ممالک طالبان حکومت کو افغانستان کی قانونی حکومت کے طور پر تسلیم نہیں کرتے جس کی وجہ سے طالبان کو بین الاقوامی سطح پر سفارتی تعلقات قائم کرنے میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔ طالبان حکومت کو تسلیم کرنے کا انحصار بہت سے عوامل پر ہے اگر طالبان سنجیدگی سے اپنے ملک میں اصلاحات کرتے ہیں اور برادر اسلامی ممالک سمیت باقی دنیا کو یہ اعتماد دلانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں کہ وہ دہشت گردوں کے پشت پناہ نہیں ہیں تو وہ بین الاقوامی برادری میں اپنی جگہ بنا سکتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved