ملک چلانے کے لیے مالی وسائل کی ضرورت ہوتی ہے اور حکومتیں ملکی آمدن بڑھانے کے لیے کوشاں رہتی ہیں لیکن ملک عزیز کی صورتحال مختلف دکھائی دیتی ہے۔حکمرانوں کے فیصلوں سے لگتا ہے کہ ملکی معیشت چلانے کے لیے آمدن کی بجائے قرض کی زیادہ ضرورت ہے۔ جو ادارے آمدن اکٹھی کرنے کے ذمہ دار ہیں انہیں نان پروفیشنل طریقوں سے چلایا جارہا ہے۔ وزیراعظم کے سامنے حقائق رکھنے کی پاداش میں چیئرمین ایف بی آر کو گھر بھیج دیا گیا اور اب ٹیکس ہدف حاصل کرنے کے لیے ریفارمز ورکنگ گروپ تشکیل دے دیا گیا ہے۔ اس طرح کے گروپس اور کمیٹیاں ماضی میں بھی بنائے جاتے رہے ہیں جن سے مطلوبہ فوائد حاصل نہیں کیے جا سکے۔ چیئرمین کی تبدیلی کے بعد ابھی تک اپنی مرضی کے آفیسرز تعینات کرنے کی دوڑ جاری ہے۔ ٹیکس اہداف حاصل کرنے کا فارمولا ڈیجیٹائزیشن ہے‘ جیسا کہ ترقی یافتہ ممالک میں رائج ہے۔ حتیٰ کہ بھارت نے بھی اسی وقت ترقی کرنا شروع کی جب اس نے اپنی اکانومی کو ڈیجیٹائز کیا۔ جتنی جلد ایف بی آر ملک کے تمام کاروباروں کا رئیل ٹائم ڈیٹا حاصل کر لے گا‘ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے ایف بی آر اہداف حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ غریب عوام پر ٹیکس لگانے کے بجائے امیروں کو ٹیکس نیٹ میں لایا جائے تو قرضوں کے بجائے ملکی آمدن پر انحصار بڑھ سکتا ہے۔ ویسے تو ہمارے حکمران پچھلے ستر سالوں سے قرض ہی لے رہے ہیں لیکن پچھلے پندرہ سالوں سے اس میں ہوشربا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
چند ماہ قبل وزیراعظم صاحب نے کہا تھا کہ ہم نے کشکول توڑ دیا ہے‘ہم کسی دوست ملک سے قرض نہیں مانگیں گے بلکہ سرمایہ کاری کی درخواست کریں گے۔ اس بیان سے عام آدمی کا کچھ حوصلہ بڑھا اور یہ سوچ پیدا ہونے لگی کہ شاید معیشت کی سمت درست ہو رہی ہے۔ ڈالر کے حوالے سے استحکام دیکھا جا رہا ہے‘ سٹاک ایکسچینج نئے ریکارڈ بنا رہی ہے اور بیرونی سرمایہ کاروں کو دعوتیں دی جارہی ہیں لیکن مزید قرض نہ مانگنے کا دعویٰ چند ماہ بھی برقرار نہیں رہ سکا اور اب حکومت نے سعودی عرب سے تقریباً ایک ارب بیس کروڑ ڈالرزکا قرض مانگ لیا ہے۔ اس وقت ضرورت تقریباً دو ارب ڈالرز کی ہے۔ بقیہ آٹھ سو ملین ڈالرز متحدہ عرب امارات کے بینکوں سے لیے جانے کا ارادہ ہے۔ پہلے ڈالرز لینے کے لیے سرمایہ کاری کارڈ کھیلا گیا جب وہ نہیں چلا تو قرض مانگ لیا۔ ایک بار پھر بوجھ پرانے دوست پر ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے لیکن ملکی مالی حالات بہتر کرنے کے لیے اقدامات نہیں کیے جارہے۔ سعودی عرب سے پہلے ہی پانچ ارب ڈالرز کا قرض لیا جا چکا ہے جسے مدت ختم ہونے پر ری شیڈول کرانے کی درخواست دے دی جاتی ہے۔ پچھلے قرض بھی سخت شرائط پر دیے گئے تھے۔ اب نئے قرض کن شرائط پر طے ہوتے ہیں‘ کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ سعودی عرب ہر مشکل وقت میں پاکستان کے ساتھ کھڑا رہا ہے۔ پچھلا قرض لیتے وقت وزیراعظم نے وعدہ کیا تھا کہ ہم دن رات محنت کریں گے اور اپنے حالات بہتر کریں گے لیکن ایسا نہیں ہو سکا۔
سوال یہ ہے کہ پاکستان کو باربار دوست ممالک سے قرض اور گارنٹیوں کی ضرورت کیوں پڑتی ہے؟ اس کی وجہ آئی ایم ایف کا قرض ہے۔ تقریباً آٹھ سال پہلے پاکستان کو قرض لینے کے لیے دوست ممالک کی گارنٹیوں کی ضرورت نہیں ہوتی تھی لیکن مسلسل گرتے ہوئے مالی حالات اور سیاسی عدم استحکام کی وجہ سے آئی ایم ایف اپنی دی ہوئی رقم کی واپسی پر کوئی سمجھوتا نہیں کرنا چاہتا۔ اس وقت آئی ایم ایف سے سات ارب ڈالرز قرض لینے کے لیے مارکیٹ سے دو ارب ڈالرز کے مزید قرض لینے کی شرط رکھی گئی ہے۔ آئی ایم ایف نے اگست کے آخری ہفتے میں ہونے والے بورڈ اجلاس میں قرض کی منظوری لینی تھی لیکن سٹاف لیول معاہدے میں جو معاملات طے ہوئے ان پر عمل درآمد نہیں ہوا جس کی وجہ سے یہ معاملہ التوا کا شکار ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پچھلی مرتبہ سعودی عرب سے گارنٹیاں لینے میں چھ سے سات ماہ لگ گئے تھے۔ اب کتنا وقت لگے گا خدا ہی بہتر جانتا ہے۔ ابھی تک تو چین کی جانب سے بھی کوئی حوصلہ افزا بیان جاری نہیں ہوا۔ آئی ایم ایف شرائط میں چینی قرضوں کی ری پروفائلنگ اور تین سال کی گارنٹیاں حاصل کرنے پر بھی زور دیا گیا ہے۔ دیکھا گیا ہے کہ آئی ایم ایف اور حکومت کے درمیان جو معاملات طے پاتے ہیں انہیں مکمل طور پر عوام کے سامنے نہیں لایا جاتا۔ سٹاف لیول معاہدے پر جشن منائے گئے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ دو ارب ڈالرز کا مزید قرض بھی لینا پڑے گا۔ آج کل وزیرخزانہ تو بہت پُرامید ہیں اور سمجھتے ہیں کہ چین کے ساتھ جلد معاملات طے پا جائیں گے اورقرض بھی جلد ہی مل بھی جائے گا۔ مگرکس شرح سود پر ملے گا‘ یہ ایک سوالیہ نشان ہے۔
مشکل حالات میں قرض لینے کو کامیابی نہیں کہا جا سکتابلکہ کم شرح سود اور آسان شرائط پر قرض لینا کامیابی ہو تی ہے۔ حکومت کے لیے آئی ایم ایف قرض کا حصول ایک چیلنج بنا ہوا ہے اور عوام کے لیے مہنگائی کے دور میں روزمرہ کے معاملات چلانا مشکل ہوچکا ہے۔ عمومی طور پر عوام کا مطالبہ ہوتا ہے کہ خوراک‘ صحت‘ تعلیم اور بجلی سستی ہو۔غریب عوام کو سستی خوراک فراہم کرنے کے لیے یوٹیلیٹی سٹور ز بڑی سہولت تھے لیکن حکومت نے یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو بند کرنے کا فیصلہ کر لیاہے۔ متبادل کے طور پر ضرورت مندوں کو کیش فراہم کیے جانے کا منصوبہ ہے۔ یہ ادارہ 1971ء میں وزیراعظم ذالفقار علی بھٹو نے بنایا تھا۔ ادارے کی بندش سے 11 ہزار سے زائد ملازمین اور ان کے خاندانوں کا مستقبل داؤ پر لگ گیا ہے۔ اصولی طور پر یہ طے ہے کہ کاروبار کرنا حکومتوں کا کام نہیں اور وہ سفید ہاتھی‘ جو قومی خزانے پر بوجھ بنے ہوئے ہیں اور اپنی کارکردگی اور تنظیمی اعتبار سے وقت کے تقاضوں سے ہم آہنگ نہیں‘ ان سے جان چھڑائی جائے‘ تاہم ان اداروں کے ملازمین کے حقوق کے تحفظ کے لیے جو کچھ ممکن ہو‘ حکومت کی جانب سے کیا جانا چاہیے۔ یوٹیلیٹی سٹورز کے ملازمین میں سے چھ ہزار مستقل ہیں جبکہ باقی کنٹریکٹ اور ڈیلی ویجز پر ہیں۔ حکومت انہیں دوسرے اداروں میں ایڈجسٹ کرنے کی یقین دہانی کرا رہی ہے لیکن ماضی کے واقعات کے پیشِ نظر یہ کہنا مشکل ہے کہ کتنے ایڈجسٹ ہوں گے اور کتنے بیروزگار ہو جائیں گے۔ یوٹیلیٹی سٹور کارپوریشن کو ادارہ جاتی اعتبار سے مثالی قرار نہیں دیا جا سکتا۔ برسوں سے بدعنوانی اور بدانتظامی سے دوچار ہے۔ 2021ء میں آڈیٹر جنرل پاکستان کی رپورٹ میں یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن میں اربوں روپے کی بے ضابطگیوں کا انکشاف کیا گیا تھا۔ صارفین ان سٹورز پر غیر معیاری اشیا فروخت ہونے کی شکایت بھی کرتے رہے ہیں جبکہ یوٹیلیٹی سٹورز کے عملے پر سبسڈی والی مصنوعات اوپن مارکیٹ میں فروخت کرنے کا الزام بھی ہے۔ تاہم ان واضح بدانتظامیوں کے باوجود یہ ایک حقیقت ہے کہ کم آمدنی والے لاکھوں صارفین مارکیٹ ریٹ سے کم قیمتوں پر اشیائے خورونوش کی خریداری کیلئے یوٹیلیٹی سٹورز پر انحصار کرتے ہیں۔ ایک ایسے ملک میں جہاں قیمتوں میں اضافہ اور بلیک مارکیٹنگ عام ہے اور تاجروں کی جانب سے صارفین کے استحصال کو روکنے کیلئے مارکیٹ کی ریگولیشن انتہائی کمزور ہے‘ یوٹیلیٹی سٹورز نے کچھ ریلیف فراہم کیا ہوا ہے۔ ملک بھر میں ان سٹورز کے باہر صارفین کی قطاریں اس کا ثبوت ہیں‘ خاص طور پر رمضان کے مہینے میں جب تاجر اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافہ کرتے ہیں۔ بھارت اور بنگلہ دیش سمیت کئی ممالک میں عوام کو سستی اشیائے خورو نوش پہنچانے کے لیے راشن کارڈ اور اس سے ملتی جلتی سکیمیں چل رہی ہیں۔ اگرسرکار یہ سمجھتی ہے کہ یوٹیلیٹی سٹورز کارپوریشن کو بند کرنا سود مند ہے اور وہ اس سے بہتر متبادل فراہم کرنے جا رہی ہے تو اس حوالے سے مکمل حقائق عوام کے سامنے رکھنے چاہئیں تا کہ عوامی تشویش کم ہو سکے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved