پاکستانی تارکینِ وطن کی تین قسمیں ہیں۔ دولت کے لحاظ سے نہیں بلکہ اس لحاظ سے کہ اپنے کلچر‘ اپنی زبان اور اپنی جڑوں کے حوالے سے ان کا کیا کردار ہے۔
پہلی قسم میں وہ تارکینِ وطن ہیں جو ''ہر چہ بادا باد‘‘ کے قائل ہیں۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں کہ ان کی آئندہ نسل اپنے آبائی وطن سے‘ اپنی زبان سے یا اپنی تہذیب سے مربوط ہے یا دور ہو رہی ہے۔ یہ بچوں سے انگریزی میں بات کرتے ہیں۔ بچے کیا کر رہے ہیں‘ کہاں جا رہے ہیں‘ کہاں سے آرہے ہیں‘ انہیں اس سے کوئی علاقہ نہیں۔ اس نوع کا کوئی دردِ سر وہ نہیں پالتے۔ زندگی خوش و خرم گزارتے ہیں۔ نوکری یا کاروبار کرتے ہیں۔ اچھا مکان‘ اچھی گاڑی‘ سیرو تفریح‘ سیاحت‘ پارٹیاں‘ یہی ان کی ترجیحات ہیں۔ فخر سے بتاتے ہیں کہ بچہ آکسفورڈ میں ہے یا بیٹی کیمرج میں یا ہاورڈ میں! اگر آپ انہیں کچھ بتانے کی جسارت کریں تو ان کا جواب کچھ اس قسم کا ہوتا ہے کہ ترقی کا یہی راستہ ہے۔ ہم پیچھے کی طرف نہیں جا سکتے۔ اپنی دانست میں وہ درست ہیں۔ ایک بار اپنی جڑوں کا خیال دل سے نکال دیں تو موجاں ہی موجاں! زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ کون جھنجھٹ میں پڑے۔ بہاؤ کے ساتھ بہنے میں آسانی ہے۔ زور نہیں لگانا پڑتا! ذہن پر کوئی دباؤ ہے نہ ٹینشن! ایک تقریب میں ایک صاحب نے اپنے صاحبزادے سے ملوایا۔ بیس بائیس برس کے تھے۔ ان سے اردو میں باتیں کی گئیں۔ وہ ہر بات کا جواب انگریزی میں دیتے۔ ان کے والد محترم سے پوچھا کہ بچوں کے ساتھ کون سی زبان بولتے ہیں۔ انہوں نے ایک شانِ بے نیازی سے جواب دیا کہ انگریزی! حالانکہ میاں بیوی خود آپس میں اردو بولتے تھے۔ مجھے نہیں معلوم ایسے لوگوں کو Vegetable کہنا چاہیے یا نہیں! ایک بار ایک سینئر بیورو کریٹ سے کہا کہ کتنی زیادتی ہے ایوانِ صدر میں چوبدار‘ ویٹر اور بٹلر شیروانی اور پگڑی پہننے پر مجبور ہیں۔ اس کا جواب تھا کہ کیا حرج ہے؟ اچھی تو لگتی ہیں! چنانچہ ضروری نہیں کہ ہر شخص خوبصورت قالین کے نیچے بھی دیکھے!
دوسری قسم ان لوگوں کی ہے جنہیں احساس تو ہے مگر عملاً کچھ نہیں کر سکتے۔ ان کی قوتِ ارادی کمزور ہے۔ زندگی گزارنے کے دو راستے ہیں۔ ایک ہے زمانہ با تو نسازد‘ تو با زمانہ بساز۔ کہ زمانہ تمہارے طور اطوار نہیں پسند کرتا تو تم مدافعت نہ کرو بلکہ زمانے کے ساتھ نباہ کرو۔ دوسرا فارمولا اس کے اُلٹ ہے۔ بقول علامہ اقبال:
حدیثِ بے خبراں ہے تو با زمانہ بساز
زمانہ با تو نسازد‘ تو با زمانہ ستیز
(زمانے کی ہاں میں ہاں ملانا بے خبر لوگوں کا وتیرہ ہے۔ زمانہ تمہارے ساتھ موافقت نہیں کرتا تو تم زمانے کا مقابلہ کرو)
لیکن یہ ہر کسی کے بس کی بات نہیں۔ بہاؤ کے ساتھ بہنا آسان ہے اور مخالف سمت تیرنا مشکل! یہ جو قسم ہے تارکینِ وطن کی‘ یہ چاہتے تو ہیں کہ بچے اپنے کلچر سے جڑیں مگر اہتمام اور التزام ان کے بس کی بات نہیں۔ بھاری پتھر کو اٹھانے کی کوشش ہی نہیں کرتے!
تیسری قسم ان باہمت تارکینِ وطن کی ہے جنہوں نے بچوں کو اپنی زبان‘ کلچر اور اپنے وطن سے وابستہ رکھنے کے لیے محنت کی ہے۔ یہ بچوں کے ساتھ گھر میں اردو بولتے ہیں۔ التزام کرتے ہیں کہ بچے آپس میں ایک دوسرے کے ساتھ اردو بولیں جو سب سے زیادہ مشکل کام ہے۔ تارکینِ وطن کے جو بچے ماں باپ کے ساتھ اردو بولتے ہیں‘ وہ بھی آپس میں‘ یعنی اپنے بہن بھائیوں کے ساتھ زیادہ تر انگریزی ہی بولتے ہیں۔ انہیں بار بار کہنا پڑتا ہے اور یاد دلانا پڑتا ہے کہ آپس میں اردو بولیں! تعداد میں بہت کم سہی مگر ایسے افراد بھی ہیں جنہوں نے بچوں کو اردو لکھنا پڑھنا بھی سکھائی ہے۔ یہ بہت بڑا کام ہے۔ اتنا بڑا کہ ایک پوری نسل کو سنبھال لینے والا کام ہے۔ بعض حضرات ایک حوصلہ شکن نکتہ یہ پیش کرتے ہیں کہ اس نسل کو ہم نے اردو بولنا اور لکھنا پڑھنا سکھا بھی دیا تو کیا فائدہ! اس کے بعد کی نسلوں کو کون سکھائے گا! اور یہ کہ آئندہ نسلوں نے تو مقامی رنگ میں ڈھلنا ہی ہے۔ یہ ایک شکست خوردہ‘ گھِسا پٹا پوائنٹ ہے۔ آپ اس نسل پر کام کریں گے تو یہ نسل اپنے سے بعد والی نسل کو خود ہی سنبھال لے گی۔ جو کام آپ کر سکتے ہیں وہ تو کیجیے۔ چراغ سے چراغ جلتا ہے۔ آپ اپنے حصے کا چراغ جلائیے‘ اس یقین کے ساتھ کہ یہ آخری چراغ نہیں ہو گا۔ ان سطور کا لکھنے والا جب ڈھاکہ یونیورسٹی میں زیر تعلیم تھا تو ہمارے ساتھ سنگا پور کے ایک صاحب تھے جو ایم بی بی ایس کر رہے تھے۔ (جی ہاں! ایک وقت ایسا بھی تھا کہ سنگاپور اور کئی دوسرے ملکوں کے طلبہ پاکستان کے تعلیمی اداروں کا رُخ کرتے تھے)۔ ان صاحب کا نام شمس تھا۔ ان کے آباؤ اجداد گوجرانوالہ سے سنگا پور گئے تھے۔ اس وقت ان کے خاندان کو گئے ہوئے سو سال ہو چکے تھے۔ شمس ہمارے ساتھ فصیح و بلیغ پنجابی میں بات کرتے تھے۔ ان کا خاندان‘ سو سال سے سنگا پور میں رہتے ہوئے بھی پنجابی زبان سے جڑا ہوا تھا۔
گھر میں بچوں کے ساتھ اردو بولنے کے بعد اپنی مٹی سے مر بوط رکھنے کے لیے دوسرا مؤثر ترین طریقہ یہ ہے کہ ہر سال بچوں کو پاکستان لایا جائے۔ یہ عرصہ کم سے کم ایک مہینہ ضرور ہونا چاہیے۔ دو ماہ ہو تو کیا ہی کہنے! اس قیام کے دوران بچے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں! اردو بولنے کی خوب مشق ہو جائے گی۔ اس کے علاوہ غیرمحسوس طریقے سے بچے اپنی بنیادوں سے بھی آشنا ہوں گے۔ یہاں کے دوستوں کے ساتھ رابطے میں رہیں گے اور پاکستانی ماحول ان کے اندر سماتا رہے گا۔ ورنہ آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل والی بات ہو جائے گی! میں دیکھتا ہوں کہ امریکہ‘ یورپ اور آسٹریلیا میں رہنے والے تارکینِ وطن پوری دنیا کا سفر کرتے رہتے ہیں۔ ایسے میں ہر سال دو ماہ کے لیے پاکستان میں جانا ان کے لیے ہر گز مشکل نہیں! میں ایک ایسے صاحب کو جانتا ہوں جن کا پاکستان میں کوئی قریبی عزیز نہیں بچا مگر وہ اکثر و بیشتر لاہور میں آکر قیام کرتے ہیں صرف اس لیے کہ ان کے بچے پاکستان کے ماحول سے واقف ہو جائیں اور یہاں رہنا سیکھ جائیں!!
بنیادی طور پر ہر پاکستانی نژاد بچہ پاکستان کے لیے محبت بھرے جذبات رکھتا ہے۔ اس کا مظاہرہ کرکٹ میچوں کے مواقع پر دیکھنے میں آتا ہے۔ بہت سے بچوں نے اپنے کمروں میں پاکستانی جھنڈے یا جھنڈے کی تصاویر لگائی ہوئی ہیں۔ اب یہ ان کے بڑوں کا کام ہے کہ اس چنگاری کو بجھنے نہ دیں! پاکستان کی روشنی ان بچوں کے دلوں میں ہمیشہ رہنی چاہیے۔ بیرونِ ملک رہنے والا ہر پاکستانی اپنی ذات میں پورا پاکستان ہے۔ تارکینِ وطن پاکستان سے بے پناہ محبت کرتے ہیں۔ جب بھی کوئی بحران پاکستان کو اپنی گرفت میں لیتا ہے‘ تارکینِ وطن کی جان سولی پر لٹک جاتی ہے۔ پاکستان کی محبت ان کی رگوں میں‘ رگوں کے اندر بہتے خون میں‘ ہڈیوں میں اور ہڈیوں کے اندر بھرے گودے میں رچی بسی ہے۔ ان سے سیاسی اختلاف تو ہو سکتا ہے مگر ان کی پاکستان دوستی پر شک کرنا ظلم ہی نہیں‘ شاید گناہ بھی ہے۔ اس محبت اور وابستگی کو آنے والی نسلوں میں منتقل کرنا ان پر فرض ہے‘ خواہ اس کے لیے کتنی ہی مشقت کیوں نہ کرنی پڑے!! ہم پاکستان سے باہر ہوں تو ہوں‘ پاکستان ہمارے اندر ہونا چاہیے۔
اے خاک پاک تجھ سے ہم آغوش ہوں کہ دور
ہر آن تیرا چاند ستارا ہو سامنے
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved