تحریر : خورشید ندیم تاریخ اشاعت     27-08-2024

مذہبی قیادت کی خدمت میں!

علما کی حکمتِ عملی نے کم ازکم اس قت ملک کو ایک فساد سے بچا لیا۔ اس معاملے کے دامن میں مگر جو چنگاریاں چھپی ہیں‘ کسی وقت شعلہ بن سکتی ہیں۔ علما سے درخواست ہے کہ اسی حکمت کے ساتھ وہ ان کو بھی بجھائیں تاکہ یہ شعلہ بن کر سب کچھ خاکستر نہ کر دیں۔ اس 'سب کچھ‘ میں دین کا مستقبل اور اہلِ مذہب کا وقار شامل ہے۔
اسلام اپنی حقیقت میں تزکیہ ہے۔ اپنے اخلاقی وجود کو پاکیزہ بنانا۔ پیغمبر اسی لیے تشریف لائے کہ انسانوں کا تزکیہ کریں۔ قرآن مجید نے بتایا ہے کہ آخرت میں کامیابی انہی کے لیے ہے جنہوں نے خود کو پاکیزہ بنایا۔ یہ پاکیزگی کیا ہے؟ اپنے دامن کو ان اخلاقی رذائل سے محفوظ رکھنا جنہیں انسانی فطرت نے برُا جانا ہے اور جن سے بچنے کی اللہ اور اللہ کے رسولﷺ نے تلقین فرمائی ہے۔ مثال کے طور پر نبیﷺ نے کوثر و تسنیم سے دھلی زبان کے ساتھ فرمایا: مومن کبھی طعنہ دینے والا‘ لعنت بھیجنے والا‘ بے حیا اور فحش گو نہیں ہوتا۔ (ترمذی)۔
بارہا دیکھنے میں آیا ہے کہ مذہبی حمیت کے نام پر لوگ اسلام کے جوہر کو نظر انداز کرتے اور اسلام کے نام پر ان اخلاقی اقدار کو بے دردی کے ساتھ پامال کرتے ہیں۔ عام لوگوں سے کیا گلہ کہ بعض ایسے لوگ بھی ہیں جو خود کو 'مولانا‘ کہتے اور دوسرے بھی اسی سابقے کے ساتھ ان کا نام لیتے ہیں‘ اس معاملے میں بہت جری واقع ہوئے ہیں۔ ایک 'مولانا‘ کی تقریر وائرل ہے جس میں وہ علما کے ایک مجمع میں ایک اہم ریاستی شخصیت کو گالیاں دے رہے ہیں اور فحش گوئی کا وہ نمونہ پیش فرما رہے ہیں کہ مجھ جیسا عامی اور گناہگار‘ تنہائی میں بھی اس کے ارتکاب کا سوچ نہیں سکتا۔ مزید افسوس یہ ہے کہ وہاں موجود کسی 'عالم‘ کی طرف سے ان کی روک ٹوک نہیں ہوئی۔ یہی نہیں ان صاحب نے حاضرین کو ایک غیرمسلم گروہ کے قتل پر بھی اُکسایا۔
جید علما کی روایت یہ نہیں ہے۔ احقاقِ حق میں انہوں نے کبھی مداہنت اختیار نہیں کی لیکن اس بات کو ہمیشہ پیشِ نظر رکھا ہے کہ دین تزکیۂ اخلاق کا نام ہے اور اللہ تعالیٰ نے جھوٹے خداؤں کو بھی برُا کہنے سے منع فرمایا ہے۔ برصغیر کے نامور عالمِ دین مولانا سید ابوالحسن علی ندوی نے‘ جن کا عرب و عجم میں بے پناہ احترام ہے‘ ایک گروہ کے رد میں کتاب لکھی جو خود کو مسلمان کہتا ہے اور اس کے باطل افکار کا محاکمہ کیا۔ اس کتاب میں انہوں نے جہاں اس مذہب کے بانی کا نام لیا ہے‘ اس کے ساتھ 'صاحب‘ کا لاحقہ استعمال کیا ہے۔
میری موجود گی میں مولانا زاہد الراشدی نے یہ واقعہ سنایا کہ اوائلِ جوانی میں جب انہوں نے ایک تقریر میں اسی بانیٔ مذہب سے متعلق ایسے لہجے میں بات کی جسے نازیبا کہنا چاہیے تو تقریر کے دوران میں ہی‘ ان کے والدِ گرامی نے انہیں روکا اور تقریر جاری رکھنے سے منع کر دیا۔ ان کے والد مولانا سرفراز خان صفدر کو امامِ اہلِ سنت کہا جاتا ہے۔ مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی کے بارے میں یہ روایت موجود ہے کہ جب اسلامی جمعیت طلبہ کے بعض کارکنوں کی طرف سے پنجاب یونیورسٹی کے وائس چانسلر علاء الدین صاحب سے بد تمیزی کی گئی تو انہیں بہت تاسف ہوا ور انہوں نے کہا: میری عمر بھر کی کمائی برباد ہو گئی۔
دینی حمیت کے نام پر جب اس طرح اسلام کے اخلاقی اصولوں اور اقدار کی خلاف ورزی ہوتی ہے تو لوگ مذہب کے بارے میں سوال اٹھانے لگتے ہیں۔ وہ اس کی ذمہ داری مذہب پر ڈالتے ہیں کہ یہ کردار اس کی تخلیق ہیں۔ ہم جانتے ہیں کہ اسلام ان باتوں سے کوسوں دور ہے۔ اللہ اور اس کے رسولﷺ اس سے برَی ہیں۔ عوام تک اس بات کا ابلاغ مذہبی طبقات کی قیادت اور نمائندہ علما کی ذمہ داری ہے۔
یہی نہیں‘ جو قتل کے فتوے جاری کیے جا رہے ہیں‘ ان سے اعلانِ برات بھی ان علما اور مذہبی قیادت کا کام ہے۔ 'پیغامِ پاکستان‘ کے نام سے جو میثاق کیا گیا اور جس پر ان کے دستخط ہیں‘ اس میں واضح طور پر ایک عالم کی حدود کا تعین کیا گیا ہے۔ اس کا تیرہواں نکتہ ہے: ''عالمِ دین اور مفتی کا منصبی فریضہ ہے کہ صحیح اور غلط نظریات کے بارے میں دینی آگہی مہیا کرے اور مسائل کا درست شرعی حل بتائے۔ البتہ کسی کے بارے میں یہ فیصلہ صادر کرنا کہ اس نے کفر کا ارتکاب کیا یا کلمۂ کفر کہا ہے‘ یہ ریاست و حکومت اور عدالت کا دائرہ اختیار ہے‘‘۔
ایک بڑی عدالتی شخصیت کے قتل کے لیے ایک کروڑ روپے انعام کا اعلان ہوا۔ میں نے ایک دوسری تقریر کا حوالہ دیا ہے جو وائرل ہوئی ہے۔ یہ لازم تھا کہ ہمارے محترم مذہبی قائدین ان اعلانات اور افراد سے اعلانِ لاتعلقی کرتے اور عوام کو بتاتے کہ یہ مذہب کی درست تفہیم نہیں ہے۔ میرے علم کی حد تک ایسا نہیں ہوا۔ لوگ اس خاموشی کو تائید کے معنوں میں لے سکتے ہیں۔ اس ملک میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو مذہب کو برُا بھلا کہنے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے ہیں۔ وہ ایسے غیر ذمہ دار لوگوں کو مذہب کا حقیقی نمائندہ بنا کر پیش کرتے ہیں اور جب بڑے علما ان سے اعلانِ برات نہیں کرتے تو ان کے مؤقف کو تقویت پہنچتی ہے۔
دین بتانا علما کی ذمہ داری ہے۔ عقیدے کا تزکیہ اس میں شامل ہے۔ توحید کیاہے؟ ختمِ نبوت کیا ہے؟ دینی عقائد میں ان کی کیا اہمیت ہے؟ ان عقائد میں نقب کیسے لگائی جاتی ہے؟ یہ علما بتائیں گے۔ اس کے ساتھ مگر اخلاق کا تزکیہ بھی کیا جائے گا۔ عقائد کے ساتھ ہمیں اخلاق کی بھی تطہیرکرنی ہے۔ یہ بد اخلاقی کے مظاہر ہیں جن سے مذہب بے زاری کو تقویت ملتی ہے۔ ایسے سوراخوں کو بند کرنا بھی علما کا کام ہے۔ اگر مذہبی جماعتوں کے رہنما اس کا خیال رکھیں اور اس بات کا اعلان کر دیں کہ جو مذہبی فورمز اور منبر سے فحش گوئی اور بدکلامی کا مرتکب ہو گا‘ وہ کسی مذہبی گروہ یا جماعت کا عہدیدار نہیں رہ سکتا تو اس کا سدِ باب ہو سکتا ہے۔ اگر فحش گوئی اور دین کا بیان ایک ہی زبان اور سٹیج سے ہو گا تو یہ دین کی توہین ہے۔
اللہ کے آخری رسول سیدنا محمدﷺ نے فرمایا کہ میں مکارمِ اخلاق کی تکمیل کے لیے مبعوث ہوا ہوں۔ اس میں کیا شبہ ہے کہ انہوں نے اخلاقیات کا معیار اس سطح تک پہنچا دیا کہ آج بھی انسان اس طرف دیکھتا ہے تو اس کی دستار گر جاتی ہے۔ اگر دین کی نمائندگی کا دعویٰ کرنے والے اپنے پیغمبر کے اخلاق سے لاتعلق ہو جائیں تو یہ المیہ ہوگا۔ میری درخواست ہو گی کہ جنہیں کل عالم بن کر عوام سے مخاطب ہونا ہے‘ ان کی تربیت کو دینی مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے۔ انہیں بتایا جائے کہ مذہب کا اصل وظیفہ تزکیۂ اخلاق ہے۔ اس سے بے نیاز ہو کر دین کا کوئی کام نہیں کیا جا سکتا۔
میرا حسنِ ظن ہے کہ مذہبی جماعتوں کی قیادت اور جید علماکو اس کا ادراک ہے۔ جس طرح حکمت کے ساتھ درپیش مسئلے کو حل کیا گیا‘ اس سے ایک خوش گمانی پیدا ہوئی ہے۔ علما کو یہ سمجھنا ہو گا کہ اس معاشرے میں دین کا مستقبل اہلِ مذہب کے رویے اور اخلاق سے جڑا ہوا ہے۔ کوئی سازش سماج سے مذہب کو بے دخل نہیں کر سکتی۔ اگر یہ کام ہوا تو ان ہی ہاتھوں اور زبانوں سے ہو گا جو مذہب کی نمائندگی کرتے ہیں۔ علما کو اپنے وقارکے بارے میں حساس ہونا ہوگا کہ اس کا تعلق معاشرے میں دین کے مستقبل سے ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved