بنگلہ دیش پر طویل عرصے تک بلاشرکت غیرے حکومت کرنے والی ڈکٹیٹر حسینہ واجد کے خلاف جب عوام کا لاوا پھٹا تو اس نے ایک بار پھر اندھی قوت کے ذریعے اس عوامی احتجاج کو کچلنا چاہا مگر صورتحال ایسی ہو چکی تھی کہ سینکڑوں نوجوانوں کے قتل کے باوجود احتجاج میں کمی آنے کے بجائے مسلسل اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ حسینہ واجد اور اس کی پارٹی کے مظالم اس قدر زیادہ ہیں کہ ان کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔ ظلم کی حکمرانی جتنی بھی طویل ہو اس کا انجام بہت برا ہوتا ہے۔ حسینہ واجد کو جب اندازہ ہوا کہ اب فوج‘ پولیس اور عدلیہ میں کوئی بھی اس کا ایجنٹ اس کی مدد نہیں کر سکتا تو اس نے ملک سے بھاگ جانے کا فیصلہ کیا۔ اس کے دیرینہ دوست بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کے علاوہ دنیا کا کوئی حکمران اس کی طرف نظرِ التفات کرنے کا روادار نہ تھا۔
اس عبرتناک صورتحال میں وہ جو کچھ سمیٹ سکتی تھی‘ اسے سمیٹا اور اپنے رشتے دار آرمی چیف جنرل وقار الزمان کی مدد سے بذریعہ ہیلی کاپٹر بھارت پہنچ گئی۔ اسے فرار ہونے سے پہلے بتایا گیا تھا کہ اس کے پاس صرف 45منٹ کا وقت ہے جس کے اندر اسے بنگلہ دیش سے نکل جانا چاہیے‘ ورنہ اس کا انجام اپنے باپ اور خاندان کے دیگر افراد سے بھی بدتر ہو گا۔ قاتل شیخ حسینہ اپنی بہن شیخ ریحانہ کے ساتھ بھاگم بھاگ انڈیا پہنچ گئی۔ وہ اس بات پر رو رہی تھی کہ اس مشکل گھڑی میں اسے انڈیا کے سوا کوئی دوسرا ملک‘ برطانیہ‘ امریکہ‘ کینیڈا یا عرب امارات میں سے کوئی بھی لفٹ کرانے کو تیار نہیں۔ اسے انڈیا میں قیام پسند نہیں‘ نہ ہی یہاں وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھ رہی ہے۔ اسے اپنے سفارتی پاسپورٹ کی منسوخی کا علم ہوا تو پھوٹ پھوٹ کر روئی۔ ظالم ہمیشہ بزدل ہوتے ہیں۔
بنگلہ دیش میں موجودہ عوامی انقلاب کے نتیجے میں ''بابائے قوم‘‘ شیخ مجیب الرحمن کا تقدس بھی پاش پاش ہو گیا جس کے لیے سالہا سال سے عوام کی ذہن سازی کی گئی اور اس تصور کے مخالفین کو مکمل طور پر مٹا دینے کے منصوبے عمل میں لائے گئے۔ جس طرح نوجوان شیخ مجیب کے مجسموں کو توڑ رہے تھے وہ وقت کے فرعونوں کے لیے بہت بڑی عبرت ہے۔ جب ایسے انقلاب برپا ہوتے ہیں تو وہ بہت خطرناک اور خونی ہوتے ہیں‘ بنگلہ دیش میں بھی ایسا ہی ہوا ہے۔ عوامی انصاف (Mass Justice) کسی مسئلے کا حل نہیں ہوتا مگر بدقسمتی سے جیسے حالات حسینہ واجد نے پیدا کیے تھے ان کا نتیجہ یہی نکلنا تھا۔ کئی مجرم عوامی انصاف کی بھینٹ چڑھ گئے حالانکہ حقیقی انصاف کا تقاضا یہی ہوتا ہے کہ ایسے مجرموں کا کیس باقاعدہ کسی عدالت میں چلے اور ان پر لگنے والے الزامات ثابت ہونے پر انہیں قانون کے مطابق سزا دی جائے۔ عوام قانون کو ہاتھ میں لے لیں تو انارکی بہت بڑھ جاتی ہے۔
جب کسی نظام کی بنیاد ہی ظلم پر اٹھائی گئی ہو تو اس سے انصاف برآمد نہیں ہوتا۔ ایک ظلم کے بعد دوسرا ظلم انسانیت کے لیے بہت بڑا المیہ اور زہرِ قاتل ہوتا ہے۔ ہر روز بنگلہ دیش سے ایسی خبریں آتی ہیں کہ حسینہ واجد کے دور میں اس کے مہرے بن کر لوگوں پر ظلم ڈھانے والے عوامی غیظ و غضب کی زد میں آتے ہیں تو عوام انہیں عبرت کا نشان بنائے بغیر نہیں چھوڑتے۔ بنگلہ دیش میں آنے والی نئی عبوری حکومت کا یہ امتحان ہے کہ وہ ملک و قوم کی بہتری اور بھلائی کے لیے عوام کا غصہ ٹھنڈا کریں اور حکمت کے ساتھ ایک متوازن اور پُرامن فضا پیدا کر کے انتخابات کی طرف پیش قدمی کریں۔ اس کے ساتھ فوری انصاف کے لیے عدالتی نظام نئے سرے سے وجود میں لایا جائے جو کسی قسم کے تعصب کے بغیر بنگلہ دیش کے دستور و قانون کے مطابق فیصلے صادر کرے۔
بنگلہ دیش کے اس وقت کے معروضی حالات انتہائی مشکل اور صبر آزما ہیں۔ جن لوگوں نے حکومت سنبھالی ہے‘ حقیقت یہ ہے کہ ان کا کام آگ کے انگاروں کے اوپر چلنے کے مترادف ہے۔ جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں تو اس وقت بنگلہ دیش کی ایک خبر ذرائع ابلاغ میں گردش کر رہی ہے۔ ''بنگلہ دیش کی سپریم کورٹ اپیلٹ ڈویژن کے سابق جسٹس اے ایچ ایم شمس الدین چودھری مانک کو سلہٹ عدالت کے احاطے میں عوام نے بدترین تشدد کا نشانہ بنایا اور انہیں تشویشناک حالت میں ہسپتال کے انتہائی نگہداشت یونٹ میں داخل کر دیا گیا ہے‘‘۔ اس خبرجیسے بیسیوں واقعات ہر روز وقوع پذیر ہو رہے ہیں جو کسی خیر کی علامت نہیں۔ سابقہ دور میں ہر شعبے میں سرکاری ذمہ داریاں ادا کرنے والے لوگوں نے مظالم کی انتہا کی تھی۔ انقلاب کے بعد عوامی غم و غصے کے جذبات جہاں عوامی لیگ کے خلاف زوروں پر تھے‘ اسی طرح ہندو آبادی کے خلاف بھی عوام بپھرے ہوئے تھے۔ ایسے حالات میں جماعت اسلامی بنگلہ دیش کی قیادت نے اپنی ساری مشکلات کے باوجود فوری طور پر فیصلہ کیا کہ جماعت کے کارکن اقلیتی آبادی کے گھروں اور کاروباری اداروں کی حفاظت کے لیے رضاکارانہ خدمات سرانجام دیں۔ چنانچہ جماعتی کارکنان نے یہ ذمہ داری بحسنِ خوبی ادا کی۔
حسینہ واجد کو عالمی عدالتِ انصاف میں انسانی قتلِ عام کے جرم میں بھی مجرم نامزد کیا جا رہا ہے۔ اس موقع پر بڑی شدت سے وہ لوگ یاد آ رہے ہیں جن کو ناحق قتل کیا گیا۔ یہ وہ لوگ تھے جن کے تقویٰ‘ خدا خوفی‘ انسانیت دوستی اور شرافت کی مثالیں دی جاتی تھیں۔ ظالمانہ عوامی لیگ دورِ حکومت میں ان پر ایسے بیہودہ اور بے بنیاد الزام لگائے گئے کہ جن کو سن کر انسانیت سر پیٹ کر رہ گئی۔ بے شمار لوگوں میں سے نو افراد کے نام اور ان کو دی جانے والی سزا اس وقت بھی ذہن میں تازہ ہے۔ ان بے گناہ لوگوں کا خون رائیگاں نہیں جائے گا‘ اگر یہاں کسی عدالت میں کوئی منصفانہ فیصلہ نہ ہو سکا تو اللہ کی عدالت میں تو ذرے ذرے کا حساب ہو جائے گا۔ ملاحظہ فرمائیے ان قیمتی ہیروں کا ابتلا اور ان کے اہل و عیال کا صبر جس کا ایک زمانہ گواہ ہے۔
پھانسی پا کر شہادت کی وادی میں اترنے والے قائدین ترتیب وار:
(1)۔ ملّا عبدالقادرؒ شہید۔ پیدائش 14اگست 1948ء۔ شہادت: 14دسمبر 2013۔ عمر: 65سال۔(2)۔ قمرالزمانؒ شہید۔ پیدائش: 4جولائی 1952ء۔ شہادت: 11اپریل 2015ء۔ عمر: 63سال۔(3)۔ علی احسن محمد مجاہدؒ شہید۔ پیدائش: 23جون 1948ء۔ شہادت: 22نومبر 2015ء۔ عمر: 67سال۔(4)۔ مطیع الرحمن نظامیؒ شہید۔ پیدائش: 31مارچ 1943ء۔ شہادت: 11مئی 2016ء۔ عمر: 73سال۔(5)۔ میر قاسم علیؒ شہید۔ پیدائش:31دسمبر 1952ء۔ شہادت: 3ستمبر 2016ء۔ عمر: 64سال۔
جیل کی کال کوٹھڑی میں شہادت سے ہمکنار ہو جانے والے اللہ کے بندے ترتیب وار:
(1)۔ مولانا ابوالکلام محمد یوسفؒ۔ پیدائش: 19مارچ 1926ء۔ وفات: 9فروری 2014ء۔ عمر: 88سال۔(2)۔ پروفیسر غلام اعظمؒ۔ پیدائش: 7نومبر 1922ء۔ وفات: 23اکتوبر 2014ء۔ عمر:92 سال۔(3)۔ مولانا عبدالسبحانؒ۔ پیدائش: 19فروری 1936ء۔ وفات: 14فروری 2020ء۔ عمر: 84سال۔(4)۔ دلاور حسین سعیدیؒ شہید۔ پیدائش:2 فروری 1940ء۔ وفات: 14اگست 2023ء. عمر: 83سال
ہماری دعا ہے کہ اللہ برادر ملک بنگلہ دیش کے حالات کو پُرامن اور بہتر بنا دے۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved