کیا ساری دنیا میں سیاست ایسے ہوتی ہے جیسے ہمارے ہاں ہورہی ہے؟ میرا تو خیال ہے کہ انیس بیس کے فرق سے ایسے ہی ہوتی ہے۔ جب شخصیات یا پارٹیاں کرسی کے چکر میں لڑتی ہیں تو پھر وہ اپنے اعلیٰ مقصد پر نظر رکھتی ہیں۔ ان کے نزدیک انسان اتنے اہم نہیں ہوتے جتنے ان کے مقاصد ہوتے ہیں۔ ان کا مقصد ایک ہی ہوتا ہے کہ کرسی پر بیٹھنا اور سب کو بتانا ہے کہ اب میں تمہاری زندگیوں کے فیصلے کروں گا اور جو میرے خلاف مزاحمت کرے گا اسے سخت سزا ملے گی۔ میجر (ر) عامر سے ملاقات ہوئی تو کہنے لگے کہ آپ نے اپنے ایک کالم کا عنوان گوگل سے تلاش کیا کیونکہ آپ کو Ambitiousکا مناسب اردو لفظ سمجھ میں نہیں آرہا تھا۔ کہنے لگے: اس کا ترجمہ ''ہوسِ جاہ‘‘ ہو سکتا ہے‘ یہ پوزیشن یا عہدہ لینے کی ہوس ہے جو انسان کو پاگل کر دیتی ہے۔
ان کی بات ٹھیک ہے کہ ہوس کسی بھی چیز کی ہو‘ وہ انسان کو تباہ کر دیتی ہے۔ اگر دیکھا جائے تو انسان تین صورتوں میں جان دیتا بھی آیا ہے اور لیتا بھی آیا ہے۔ انسان جب کسی عورت سے محبت کرتا ہو یا عورت اس سے محبت کرتی ہو تو اس صورت میں وہ جان دے اور لے سکتے ہیں۔ انسان بادشاہ بننا چاہتا ہو تو بھی وہ اپنی جان داؤ پر لگا دیتا ہے۔ یا خود مارا جاتا ہے یا دوسرے کا سر لے کر اس کی جگہ تخت پر بیٹھ جاتا ہے۔ انسان جب بھوکا ہو تب بھی وہ کسی پر حملہ کر سکتا ہے۔ اپنی بھوک مٹانے کیلئے اسے دوسرے انسانوں کے خون سے ہاتھ رنگنا پڑیں تو بھی وہ گریز نہیں کرتا۔ آپ نوٹ کریں تو زیادہ تر جنگیں انہی تین وجوہات کی بنا پر ہوئی ہیں۔ دنیا کی خوبصورت ترین لڑکی ہیلن آف ٹرائے کے لیے سات سال تک جنگ لڑی گئی جس میں کئی ماؤں کے لعل مارے گئے۔ محبت دو لوگوں کو ہوئی تھی لیکن اس کی قیمت دو علاقوں کے لوگوں نے ادا کی کیونکہ معاملہ عزت اور غیرت کا بن گیا تھا۔ بادشاہ بننے کے لیے لہو بہانا تو ہمیشہ سے انسانوں کا فیورٹ سپورٹس رہا ہے‘ اور آج بھی ہے۔ انسان ایک دوسرے پر برتری ثابت کرنے کے چکر میں خون کی ندیاں بہاتا آیا ہے۔ اقتدار کے لیے بھائیوں کو قتل کرنا تو بڑی پرانی روایت ہے۔ اگرچہ مشہور تو صرف اورنگزیب ہے جس نے چار بھائیوں سے جنگ لڑ کر انہیں قتل اور باپ کو قید کیا تھا۔ ہمیں بادشاہ شاہجہاں مظلوم لگتا ہے جس کے چار نوجوان بچے مارے گئے اور مارنے والا اور کوئی نہیں‘ اُنہی چاروں کا بھائی تھا لیکن خود شاہجہاں بھی اپنے سوتیلے بھائی کو قتل کر کے بادشاہ بنا تھا۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے جو اقتدار آپ نے کسی دوسرے کا لہو بہا کر حاصل کیا ہو وہ آپ کو بھی ایک دن لہولہان نہ کرے۔ انگریزی میں اس موقع کے لیے ایک خوبصورت جملہ ہے کہ Those who live by the gun, they die by the gun۔
آج کی سیاست دیکھ لیں تو یہی کچھ نظر آئے گا۔ جس طرح کی سیاست آپ پروموٹ کرتے ہیں اس کی لپیٹ میں خود بھی آجاتے ہیں۔ اگرچہ اس معاملے میں کچھ وقت لگ جاتا ہے لیکن قدرت اپنا حساب سود سمیت آپ کو واپس کر دیتی ہے۔ میاں نواز شریف کی پہلی حکومت میں ان کی گفتگو اور انداز دیکھیں تو آپ یقین نہ کریں کہ وہ اپنے مخالفین بارے کیا جذبات رکھتے تھے۔ جب آپ اقتدار میں ہوتے ہیں تو ہر وقت آپ کے دائیں بائیں کورنش بجا لاتے لوگ آپ کو آسمان پر چڑھا دیتے ہیں جس سے آپ اترنا نہیں چاہتے‘ جب تک نیچے سے کوئی قالین نہ کھینچ لے۔ میاں نواز شریف کے اگر پہلے دو ادوار دیکھیں تو آپ کو اندازہ ہو گا کہ طاقت انسان کے سر پر کیسے سوار ہو جاتی ہے۔ وہ 1997ء کے مینڈیٹ کے بعد ایک قانون لا رہے تھے جس کے تحت ان کا عہدہ وزیراعظم کا نہیں بلکہ امیرالمومنین کا ہوجانا تھا۔ امیرالمومنین پر تنقید کرنے والے کو سخت سزا ہونی تھی‘ کسی کو جرأت نہیں ہونی تھی کہ وہ ان کے سامنے کسی اجلاس میں ایسی بات کہہ سکتا جو انہیں پسند نہ ہو۔ ان قوانین کے خلاف ان کے ایم این اے خورشید قصوری نے بات کرنے کی کوشش کی تو فرمایا: آپ پارٹی چھوڑ دیں۔ آج بھی دیکھیں تو کئی ایسی مثالیں ملیں گی۔ پیپلز پارٹی کے سینیٹر مصطفی نواز کھوکھر نے اپنے خیالات کا اظہار کیا تو انہیں بھی کہا گیا کہ استعفیٰ دے دیں۔ مطلب آپ نے کوئی سیاسی جماعت نہیں بلکہ پانچویں جماعت جوائن کر لی ہے جہاں سکول ٹیچر آپ کو کسی وقت بھی دو تین لاتیں‘ گھونسے یا تھپڑ مار کر کلاس سے باہر نکال دے گا۔
میاں نواز شریف کا وہ تفاخر بھرا لہجہ اور بادشاہوں والا گورننس سٹائل آخر انہیں جیل لے کر گیا۔ اور پھر طاقتوروں کی نظرِ انتخاب عمران خان پر پڑ گئی۔ مزے کی بات ہے کہ عمران خان کبھی کسی آرمی چیف کا فیورٹ نہیں رہا لیکن آئی ایس آئی کے ڈی جی انہیں بہت پسند کرنے لگے تھے۔ یہ پسندیدگی جنرل (ر) حمید گل مرحوم سے شروع ہوتی ہوئی شجاع پاشا‘ ظہیر الاسلام اور فیض حمید تک پہنچی۔ جنرل شجاع پاشا نے تو سیاستدانوں کو باقاعدہ عمران خان کی جماعت میں شامل کروانا شروع کر دیا تھا جس کا گلہ چودھری پرویز الٰہی نے بھی جنرل کیانی سے کیا تھا۔ شجاع پاشا نے اس معاملے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔ یہی کردار کبھی حمید گل نے نواز شریف کو آگے لانے میں ادا کیا تھا۔ اگرچہ جب آرمی چیف بننے کا وقت آیا تو نواز شریف نے جنرل آصف نواز جنجوعہ کو آرمی چیف بنا دیا۔ پھر عمران خان کو جنرل ظہیر الاسلام مل گئے جنہوں نے خان کو دھرنوں کی سیاست سمجھا دی جس سے یہ ملک اور معاشرہ اب تک باہر نہیں نکل سکے۔ جنرل فیض حمید نے تو پوتن بننا تھا اور عمران خان نے تاحیات صدر‘ بس درمیان میں تقدیر آگئی۔
عمران خان جب وزیراعظم بنے تو ان میں تکبر نظر آیا۔ ان کے حکم پر نیب کا کام صرف یہ رہ گیا تھا کہ روز کسی نہ کسی سیاسی پارٹی کے لیڈر کو جیل میں ڈالنا ہے۔ یوں وہ ساڑھے تین سال باتیں کرتے رہے اور ہمیں عثمان بزدار‘ فرح خان‘ خاور مانیکا اور بشریٰ بیگم کی خوبیاں ہی گنواتے رہے۔ انہوں نے عثمان بزدار کی وہ وہ خوبیاں گنوائیں جنہیں بزدار صاحب خود سن کر شرمندہ ہوجاتے تھے۔ دیکھا جائے تو عمران خان کی مقبولیت کا تعلق ان کی قابلیت یا گورننس سے نہیں تھا ‘نہ میں شاید ایسی قابلیت نہیں تھی کہ ایک ملک کو چلا سکیں۔ ان کے پاس ایسے قابل لوگ بھی نہیں تھے جو گڈ گورننس کر سکیں‘ لیکن پھر بھی وہ مقبول ہیں تو اس کی وجہ ان کے مخالفین ہیں جنہوں نے حکومتوں کو ذاتی کاروبار سمجھ کر چلایا اور اب بھی چلا رہے ہیں۔ کاروبار کا مطلب روزانہ پرافٹ ہے نہ کہ گھاٹا۔ عمران خان کی مقبولیت ان کی قابلیت کی وجہ سے نہیں بلکہ ان کے مخالفین کی حکومت کو اپنے کاروبار کے لیے مسلسل استعمال کرنے کی وجہ سے ہے۔ اب بھی حکمران جماعت کے لوگ مال بنا رہے ہیں۔ جب ملک کے وزیراعظم کے رشتہ داروں کے بجلی کے کارخانے ہوں گے اور لوگ بجلی کے بلوں کی وجہ سے بلبلا رہے ہوں گے تو پھر لوگ خان کو ہی بہتر سمجھیں گے کہ چلیں ان کے رشتہ داروں کے کارخانے تو نہیں ہیں‘ چاہے عمران خان کے ایڈوائز ندیم بابر کے بجلی گھر ہوں یا عارف نقوی جیسے لوگ ان کے دوست ہوں ۔ عام آدمی اب بھی عمران خان کو موجودہ حکمرانوں سے کم کرپٹ مانتا ہے۔ اصل مسئلہ خان نہیں بلکہ موجودہ حکمران ہیں جنہیں اس بات کا احساس نہیں کہ خان اپنی تمام نالائقی کے باوجود ان سے مقبولیت میں کیسے آگے ہے۔ آخر لوگ شریفوں اور زرداریوں سے متنفر کیوں ہیں؟اس موضوع پر انہوں نے کبھی کوئی ریسرچ نہیں کی۔ مزے کی بات یہ کہ آج بھی وہ وہی پرانا کام جاری رکھے ہوئے ہیں جس کی وجہ سے خان مقبول ہوا تھا اور سمجھداری سے خان کو سنبھالنے کا کنٹریکٹ مقتدرہ کو دے کر پرانی وارداتوں میں مصروف ہیں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved