تحریر : شاہد صدیقی تاریخ اشاعت     28-08-2024

کرشن چندر اور لاہور کا موہنی روڈ

کرشن چندر اُردو کا وہ خوش قسمت ادیب تھا جو خواص و عام میں یکساں مقبول تھا۔ اس کی پیدائش 26 نومبر 1914ء کو ہوئی۔ کرشن چندر کی جائے پیدائش کے بارے میں مختلف روایات ہیں‘ ان میں وزیر آباد‘ لاہور اور بھرت پور شامل ہیں لیکن اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کرشن چندر کے والدین کا تعلق وزیر آباد‘ گوجرانوالہ سے تھا۔ کرشن کے والد پیشے کے لحاظ سے ڈاکٹر تھے جنہیں اُردو ادب سے خاص لگاؤ تھا۔ ملازمت کے دوران ان کا مختلف جگہوں پر تبادلہ ہوتا رہتا تھا۔ اسی سلسلے میں ان کی پوسٹنگ جموں میں ہوئی۔ کرشن چندر اور اس کے بہن بھائیوں کا بچپن کشمیر کی دلفریب وادیوں میں گزرا۔ کشمیر کی خوبصورت فضا کرشن چندر کے کئی افسانوں اور ناولوں کا پسِ منظر ہے۔
کرشن چندر کا بچپن بھرپور انداز میں گزرا۔ وہ اپنی پڑھائی کے ساتھ ساتھ کھیلوں میں بھی دلچسپی لیتا تھا۔ اس کا پسندیدہ کھیل کرکٹ تھا۔ کرشن چندر کے والد چاہتے تھے کہ ان کے بچے سکول کی پڑھائی کے ساتھ غیر نصابی سرگرمیوں میں بھی حصہ لیں۔ اس زمانے میں والدین اپنے بچوں کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ ان کی جسمانی نشوونما پر خاص توجہ دیتے تھے۔ ان کے والد نے بھی کرشن چندر اور مہندر کو ایک پہلوان کے اکھاڑے میں تربیت کے لیے بھیج دیا لیکن کرشن چندر کے شوق مختلف تھے‘ وہ آرٹ کی دنیا کا دلدادہ تھا۔ مصوری اس کا شوق تھا اور ڈراموں سے اسے خاص دلچسپی تھی۔ اس نے پرائمری کا امتحان جموں کے سکول سے پاس کیا اور پھر وکٹوریہ جوبلی ہائی سکول میں داخلہ لے لیا جہاں سے اس نے میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ اسے کتابیں‘ خاص طور پر ناول پڑھنے کا جنون تھا۔ سکول میں اسے فارسی کے استاد کی کلاس پسند نہیں تھی۔ اس میں مضمون سے زیادہ استاد کی اپنی شخصیت کا دخل تھا۔ اس نے اپنے فارسی کے استاد کا ایک خاکہ لکھا جس کا نام تھا ''پروفیسر بلیکی‘‘۔ اس زمانے میں دیوان سنگھ مفتون کا ہفت روزہ ''ریاست‘‘ کافی مقبول تھا۔ کرشن چندر نے اپنی تحریر ''پروفیسر بلیکی‘‘ ہفت روزہ ریاست کو بھیج دی۔ کرشن چندر کی خوش قسمتی تھی یا بدقسمتی کہ یہ خاکہ ہفت روزہ ''ریاست‘‘ میں شائع ہو گیا۔ اس کی خبر جب کرشن کے والد تک پہنچی تو وہ بہت ناراض ہوئے کہ اپنے استاد کا خاکہ کیوں اُڑایا۔
میٹرک کا امتحان پاس کرنے کے بعد کرشن چندر نے لاہور کا رُخ کیا۔ معروف ادیب اور اردو کے مشہور رسالے ''ساقی‘‘ کے ایڈیٹر کے مطابق اس زمانے میں لاہور کی ہندوستان میں وہی اہمیت تھی جو انگلستان میں آکسفورڈ اور کیمبرج کی تھی۔ لاہور ان دنوں سیاسی‘ علمی‘ ادبی اور ثقافتی سرگرمیوں کا مرکز تھا۔ کرشن چندر اسی لاہور شہر میں آرہا تھا جہاں اس کی ادبی تربیت ہونا تھی اور جہاں کی فضاؤں میں اس نے افسانے کے آسمان پر پہلی اُڑان بھرنی تھی۔ لاہور میں کرشن چندر کا داخلہ ایف سی کالج میں ہو گیا۔ یہ وہی زمانہ تھا جب فرنگیوں کے خلاف آزادی کی تحریک زور پکڑ رہی تھی جس میں معاشرے کے ہر گروہ سے تعلق رکھنے والے لوگ شریک تھے۔ ان میں وہ نوجوان انقلابی بھی تھے جن کا سرخیل بھگت سنگھ تھا اور جو ہندوستان کی آزادی کے لیے پُر تشدد جدوجہد کے قائل تھے۔ لاہور میں کرشن چندر بھگت سنگھ کے ساتھیوں سے متاثر ہوا اور ان کے اجلاس میں شرکت کرنے لگا۔ یہ وہ دن تھے جب وہ گُرو دَت بھَون میں رہتا تھا اور انقلابی طرزِ فکر سے متاثر تھا۔ جب بھگت سنگھ اور اس کے ساتھیوں کو گرفتار کر لیا گیا تو اسی پکڑ دھکڑ میں کرشن چندر کو بھی گرفتار کر لیا گیا اور اسے لاہور کے شاہی قلعے میں ایک ماہ تک قید رکھا گیا۔ اسے کئی دنوں تک مکمل پوچھ گچھ کے بعد ہی رہائی مل سکی۔ کرشن چندر کی سیاسی سرگرمیوں کا اس کی پڑھائی پر بھی اثر پڑا اور وہ ایف ایس سی کے امتحان میں میڈیکل کالج میں جانے کے لیے مطلوبہ نمبر نہ لے سکا۔ اس نے اسی کالج میں بی اے کا امتحان سیکنڈ ڈویژن میں پاس کیا اور پھر ایم اے انگلش کے پروگرام میں داخلہ لے لیا۔ ادب سے گہری دلچسپی کی وجہ سے اسے کالج میگزین کا ایڈیٹر بنا دیا گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ ان دنوں کرشن کی زیادہ تر تحریریں انگریزی زبان میں تھیں۔ انہی دنوں کی بات ہے کہ کرشن چندر بیمار ہو گیا۔ یرقان کی بیماری نے اسے نڈھال کر دیا تھا۔ جب اس کی صحت بحال ہوئی تو اس نے اپنی زندگی کا پہلا افسانہ ''یرقان‘‘ لکھا۔ یہ سن 1936ء تھا۔ افسانہ لکھ کر اس نے اسے لاہور کے معروف ادبی رسالے ''ادبی دنیا‘‘ میں شائع ہونے کے لیے بھیج دیا۔ کرشن چندر کا یہ افسانہ نہ صرف ادبی دنیا میں شائع ہوا بلکہ رسالے کے مدیر صلاح الدین احمد نے افسانے کے ساتھ افسانہ نگار کے بارے میں ایک مختصر نوٹ بھی لکھا کہ ''یہ شخص ہماری زبان کا زبردست ادیب ثابت ہو گا‘‘۔ کرشن چندر کے پہلے افسانے نے ہی پڑھنے والوں کو چونکا دیا۔ اس کا دوسرا افسانہ اسی سال ''لاہور سے بہرام گلہ تک‘‘ اس زمانے کے ایک معروف ادبی رسالے ''ہمایوں‘‘ میں شائع ہوا۔ ہمایوں کے مدیر میاں بشیر احمد نے اس افسانے کے ساتھ اپنے نوٹ میں کہانی کار کے بارے میں لکھا ''عمر اور تجربے کی منزلیں طے کرنے کے بعد یہ شخص اُردو کا مایہ ناز ادیب ثابت ہو گا‘‘۔ آنے والے دنوں میں میاں بشیر احمد کی پیشگوئی سچ ثابت ہوئی۔ کرشن چندر کا تیسرا افسانہ ''جہلم میں ناؤ پر‘‘ 1937ء میں ''ہمایوں‘‘ میں شائع ہوا۔ یہ افسانہ بھی ادبی دنیا میں گفتگو کا موضوع بن گیا۔ یوں کرشن چندر نے اپنے شروع کے تین افسانوں سے ادب کی دنیا میں ہلچل پیدا کر دی تھی۔ اب وہ لاہور کی ادبی زندگی کا اہم حصہ تھا۔ کیسے کیسے لوگ تھے جن سے اس کی ملاقاتیں رہتی تھیں۔ صلاح الدین احمد‘ مرزا ادیب‘ احمد ندیم قاسمی‘ عاشق حسین بٹالوی‘ چودھری نذیر احمد اور دیوندر ستھیارتھی۔ کرشن چندر اب ادب کی دنیا میں اعتماد سے قدم بڑھا رہا تھا۔ 1937ء میں ہی اس نے ریڈیو کے لیے پہلا ڈرامہ ''بیکاری‘‘ لکھا۔
کرشن اپنی تعلیم مکمل کر چکا تھا لیکن اسے کوئی نوکری نہیں ملی تھی۔ فرصت کے ان دنوں میں کرشن چندر انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں شرکت کرنے لگا۔ کلکتہ میں 1938ء میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں جب کرشن چندر کو جانے کا موقع ملا تو وہاں اس کی ملاقاتیں معروف ترقی پسند ادیبوں پروفیسر احمد علی اور سجاد ظہیر سے ہوئیں جو گہری دوستی میں بدل گئیں۔ اسی دوران کرشن چندر کو انجمنِ ترقی پسند مصنفین پنجاب کا سیکرٹری منتخب کر لیا گیا۔ وہ کالج کے زمانے سے ہی اس انقلابی سوچ سے متاثر تھا جس میں معاشرے کی طبقاتی عدم مساوات کو چیلنج کیا گیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ انجمنِ ترقی پسند مصنفین کے منشور میں اسے خاص کشش محسوس ہوئی اور وہ عملی طور پر انجمن کے انتظامی کاموں سے وابستہ ہو گیا۔ اب 1939ء کا سال شروع ہو چکا تھا یہ وہی سال تھا جب دوسری عالمی جنگ کا آغاز ہوا تھا۔ ہندوستان پر انگریزوں کی حکومت تھی اور برطانیہ بھی جنگ میں ایک اہم فریق تھا۔ جنگ میں جس طرح محاذِ جنگ پر سپاہی لڑتے ہیں اسی طرح ایک جنگ پروپیگنڈے کے محاذ پر لڑی جاتی ہے۔ اس کے لیے ریڈیو کے میڈیم کو استعمال کرنے کا فیصلہ کیا گیا۔ ان دنوں آل انڈیا ریڈیو کے ڈائریکٹر جنرل معروف ادیب پطرس بخاری تھے۔ کرشن چندر بھی آل انڈیا ریڈیو لاہور کے ساتھ پروگرام اسسٹنٹ کے طور پر وابستہ ہو گیا۔ یہیں کرشن چندر نے ڈرامے کی صنف میں سنجیدگی سے دلچسپی لینا شروع کی جو بعد میں اس کے لیے بہت مفید ثابت ہوئی۔ زندگی ہنسی خوشی گزر رہی تھی کہ ایک روز اسے بتایا گیا کہ اس کی پوسٹنگ لاہور سے کہیں اور ہو گئی ہے۔ خبر سن کر اس کا دل دھک سے رہ گیا۔ اسے یوں لگا جیسے چلتے چلتے اچانک وہ بند گلی میں آ گیا ہو۔ (جاری)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved