تحریر : ڈاکٹر حسین احمد پراچہ تاریخ اشاعت     28-08-2024

کچے میں آپریشن کامیاب کیوں نہیں ہوتے؟

ان دنوں شاید ہی کوئی صبح یا شام ایسی آتی ہو جو اپنے خوں رنگ دامن میں ہولناک خبریں نہ لاتی ہو۔ ان خبروں کو ایک نظر دیکھ کر ہی دل لہو سے بھر جاتا ہے۔ دنیاوی زندگی میں اس سے بڑھ کر کوئی اور اذیتناک اور غمناک لمحہ نہیں ہو سکتا جب بوڑھے باپ کو جوان بیٹے کے جنازے کو کندھا دینا پڑے۔ کبھی وطن پر قربان ہونے والے جانباز فوجیوں اور کبھی پولیس کے شہید جوانوں کے جنازے۔ اگرچہ ان مواقع پر شہدا کے والدین اور اہلِ خانہ کو تسلی دینے کے لیے حکمران بھی موجود ہوتے ہیں مگر جو کوہِ غم جانے والے کے غمزدہ پیاروں پر ٹوٹتا ہے اسے انہیں خود ہی برداشت کرنا پڑتا ہے۔
ابھی کچے کے شہدا کا غم تازہ تھا کہ 26 اگست کو بلوچستان سے خبر آئی کہ وہاں موسیٰ خیل میں 23 مسافروں سمیت دیگر کئی مقامات پر حملوں میں 40 افراد کو قتل کیا گیا اور فوج اور پولیس کے چودہ جوانوں کو جامِ دہشت نوش کرنا پڑا۔ 22 اگست کو کچے میں ڈاکوؤں نے بھاری ہتھیاروں اور راکٹ لانچروں سے حملہ کر کے 12 پولیس والوں کو شہید اور 8 کو زخمی کر دیا تھا۔ کچے کے علاوہ پنجاب کے پکے کے علاقوں میں بھی جرائم بہت بڑھ گئے ہیں۔ پنجاب کی بڑی شاہراہیں محفوظ نہیں۔ روڈ ڈکیتی کی وارداتیں بھی عام ہیں۔ لاہور میں موبائل فون چھیننے‘ کاریں چرانے‘ سڑکوں پر لوٹ مار کرنے اور اس کے علاوہ اس طرح کے سٹریٹ کرائمز عام ہونے لگے ہیں جو کبھی کراچی کے ساتھ مخصوص تھے۔ میں نے کچے کے معاملات کو گہرائی میں جا کر سمجھنے کے لیے رحیم یار خان کے بعض اہم سیاستدانوں اور وہاں خدمات انجام دینے والے نیک نام سابق پولیس افسروں سے بھی گفتگو کی ہے۔
دریائے سندھ کے ساتھ ساتھ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے سنگم پر واقع کچے کا علاقہ تقریباً پچاس ساٹھ کلو میٹر پر پھیلا ہوا ہے۔ زیادہ تر یہ جنگلی علاقہ ہے جس پر سندھ کے بہت سے بااثر لوگوں نے قبضہ کر رکھا ہے۔ یہاں گنا بکثرت پیدا ہوتا ہے جو ملک کی بڑی بڑی شوگر ملوں کو سپلائی کیا جاتا ہے۔ لہٰذا یہاں بڑے بڑے وڈیرے اور شوگر مل مالکان ڈاکوؤں سے بنا کر رکھتے ہیں۔ کچے کے ڈاکوؤں کے خلاف 1990ء کی دہائی کے اوائل سے وقفے وقفے سے آپریشن کیے جاتے رہے ہیں۔2016ء میں تو ملٹری کے ساتھ مل کر ایک بڑا آپریشن کیا گیا‘ تاہم ہر بار ڈاکوؤں نے اس آپریشن کی اینٹ کا جواب پتھر سے دیا۔ اہم سوال یہ ہے کہ ہر آپریشن میں وہ کیا خامی رہ جاتی ہے کہ جس کی بنا پر وہ مکمل کامیابی سے ہمکنار نہیں ہوتا؟ 'خامی‘ کی نشاندہی کرنے سے پہلے کچھ عمومی نوعیت کے حقائق ایسے ہیں کہ جنہیں سمجھنا ضروری ہے۔ آپریشن اپنی جگہ اہمیت رکھتے ہیں مگر ریاست کی رِٹ اس وقت قائم ہوتی ہے جب اس کا کوئی رعب‘ دبدبہ اور ہیبت ہو۔ جب سیاست کے اتار چڑھاؤ اور آتی جاتی حکومتوں کی بنا پر ریاست کمزور پڑتی ہے تو اس طرح کے گینگ سر اٹھانے لگتے ہیں اور آہستہ آہستہ اپنی وارداتوں کے دائرے کو وسیع کر لیتے ہیں۔
کچے کے ڈاکوؤں نے اب اپنی وارداتوں کو ایک بزنس بنا لیا ہے۔ وہ صاحبِ حیثیت اور بعض اوقات اپنی دہشت قائم کرنے کے لیے بے حیثیت لوگوں کو بھی اغوا کر لیتے ہیں۔ سستی گاڑیوں‘ ٹریکٹروں کے لالچ اور ''ہنی ٹریپ‘‘ کے ذریعے ان کے شکار خود چل کر ان کے پاس پہنچ جاتے ہیں۔ اگر حکومت بطورِ خاص حساس علاقوں میں اپنے جرأت مند اور سو فیصد دیانت دار افسران کو مکمل اختیارات اور وسائل کے ساتھ تعینات کرے تو مطلوبہ نتائج حاصل ہو سکتے ہیں۔ 1992ء میں رحیم یار خان کا ڈی آئی جی ایک ایسا پولیس افسر تھا جو مبالغے کی حد تک نڈر اور دیانت دار تھا۔اس کے زمانے میں بھی کچے کے ڈاکو تھے۔ اس پولیس افسر کے ایک انتہائی قریبی ذریعے نے مجھے بتایا کہ ڈاکوؤں نے رحیم یار خان کی ایک تحصیل صادق آباد سے ایک حافظِ قرآن کو اغوا کیا اور پھر اسے قتل کرکے سندھ میں کچے کے علاقے کی طرف بھاگ گئے۔ افسر موصوف نے مقتول کے زارو قطار روتے ہوئے والد سے وعدہ کیا کہ میں ان قاتل ڈاکوؤں کو کیفر کردار تک ضرور پہنچاؤں گا۔ پھر علاقے کے ہزاروں لوگوں نے دیکھا کہ ٹھیک تین ہفتے بعد قاتل ڈاکوؤں کی لاشیں عثمانیہ چوک صادق آباد میں لٹک رہی تھیں۔
میرے دوستوں کے ساتھ ساتھ میرے قارئین بھی جانتے ہیں کہ میں ایک طویل عرصے تک سعودی عرب میں مقیم رہا ہوں۔ 1970ء کی دہائی میں وہاں ابھی ریاض طائف موٹروے تعمیر نہیں ہوئی تھی۔ ریاض سے اب موٹروے کے ذریعے طائف تک کا فاصلہ 750کلو میٹر ہے‘ اُس زمانے میں یہ مسافت 901کلو میٹر تھی۔ ساری سڑک صحرا کے بیچوں بیچ گزرتی تھی۔ اس زمانے میں بھی سعودی عرب میں مکمل امن و امان تھا تاہم کبھی کبھی ہائی ویز پر ڈکیتی کی وارداتیں ہو جایا کرتی تھیں۔ ریاض اور طائف کے درمیان قلب الصحرا میں بدوؤں نے اِکا دُکا مقامات پر راتوں کو مسافروں کو گینگ کی صورت میں لوٹنا شروع کیا اور آبروریزی کی بھی ایک دو وارداتیں ہوئیں۔ سعودی حکومت فوری طور پر متحرک ہوئی۔ پولیس والے ریاض سے طائف کے لیے عصر کے بعد نکلنے والی گاڑیوں کو روک لیتے اور پھر قافلے کی صورت میں اکٹھے سفر کیا جاتا۔ کچھ پولیس والے سادہ کپڑوں میں اسلحہ کے ساتھ لیس ہو کر عام گاڑیوں میں آتے۔ چونکہ ڈاکوؤں کے حوصلے بڑھ چکے تھے اس لیے انہوں نے سفید پوش پولیس والوں میں سے کچھ کو قتل کر دیا۔ اس کے ساتھ ہی حکومت نے نہایت احتیاط کے ساتھ پولیس کی حفاظت میں گاڑیوں کی آمد و رفت جاری رکھی۔ اس دوران صرف آٹھ دس روز کے دوران ہی سعودی پولیس‘ فوج‘ حرس الوطنی اور صحرائی رہبروں کے باہم مشورے اور منصوبہ بندی سے ڈاکو بدوؤں کے خلاف گرینڈ آپریشن کیا گیا جس میں جدید ترین اسلحہ‘ ماڈرن آلات‘ راکٹ لانچر اور ہیلی کاپٹر وغیرہ استعمال کیے گئے۔ اس فیصلہ کن آپریشن میں کچھ ڈاکو ہلاک ہو گئے اور بہت سے گرفتار ہوئے۔ تین چار ہفتوں کے بعد تمام عدالتی مراحمل مکمل کروا کے قاتلوں کو عبرت ناک سزا دی گئی اور کئی روز تک اُن کی لاشوں کو ریاض کے چوکوں چوراہوں میں لٹکایا گیا۔ اس کے ساتھ ہی سعودی حکومت نے نہایت تربیت یافتہ ہائی وے پولیس تعینات کی‘ تب سے اب تک دوبارہ کوئی واقعہ سننے میں نہیں آیا۔
ریاست کا رعب اور دبدبہ تب قائم ہوتا ہے جب ملک میں قانون کی حکمرانی ہو‘ جب قانون پر سو فیصد عمل درآمد کیا جا رہا ہو۔ جب امیر غریب سب کے لیے ایک ہی قانون ہو اور ہر طرف انصاف کا بول بالا ہو‘ پھر ریاست کو جگہ جگہ پولیس کی نفری بٹھانے کی ضرورت نہیں رہتی‘ ریاست کا اتنا دبدبہ ہوتا ہے کہ جنگلوں اور صحراؤں میں رات کی تاریکی میں بھی کوئی قانون شکنی کا خیال بھی دل میں نہیں لاتا۔ لیکن جب ریمنڈ ڈیوس جیسے قاتلوں کو قانون کے جبڑوں سے نکال کر خصوصی جہازوں کے ذریعے ملک سے باہر بھیج دیا جائے‘ جب بااثر شاہ رُخ اور رانی پور کے پیر مظلوموں کو ڈرا دھمکا کر اُن سے بیانات بدلوا لیں تو پھر ریاست اور قانون کا رعب اور دبدبہ قائم نہیں ہو سکتا۔
سعودی عرب کی طرح کچے کے علاقے میں فوج‘ پولیس‘ رینجرز‘ انٹیلی جنس اور ٹیکنالوجی کے ماہرین کے ساتھ پنجاب اور سندھ کی حکومتیں مل کر مکمل منصوبہ بندی اور آہنی عزم کے ساتھ آپریشن کریں تو یہ ان شاء اللہ کامیاب ہو گا۔ اس ناسور سے ہمیشہ کی نجات کیلئے کچے میں پکی سڑکیں بنائی جائیں‘ جگہ جگہ پولیس چوکیاں قائم کی جائیں‘ سکول اور ہسپتال تعمیر کیے جائیں اور روزگار کے وسائل مہیا کیے جائیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved