تحریر : نسیم احمد باجوہ تاریخ اشاعت     28-08-2024

یورپ کی نئی نکور خبریں

سب سے پہلے تو یہ وضاحت کہ کالم کے عنوان میں نئے کے ساتھ جو ''نکور‘‘ لگایا گیا ہے‘ وہ نہ صرف پنجابی بلکہ اُردو کا بھی ایک عام فہم لفظ ہے۔ آکسفورڈ پریس کی اُردو لغت میں صفحہ نمبر 1097 پر یہ چوتھا لفظ ہے۔ اب آئیے یورپ‘ جہاں یہ کالم نگار گزشتہ 57 برس سے آباد ہے‘ کی نئی نکور خبروں‘ جو آبشار کی طرح برس رہی ہیں‘ پر ایک نظر ڈالیں۔
(1)اس سال فرانس کے پارلیمانی انتخابات کے دوسرے مرحلے کے نتائج کا اعلان ہوا تو یورپ میں زلزلہ آگیا۔ خطرہ تھا کہ دائیں بازو کی نیم فسطائی سیاسی جماعت کو اُسی طرح کامیابی حاصل ہو گی جس طرح پولینڈ‘ ہنگری اور اٹلی میں انتہا پسند نظریات کے حامل دائیں بازو کی جماعتوں کو مل چکی ہے مگر خدا کا کرنا یوں ہوا کہ خلافِ توقع بائیں بازو کی اشتراکی نظریات رکھنے والی سوشلسٹ پارٹی New Popular Front‘کل 577 نشستوں میں سے 182 نشستیں جیت گئی۔ آپ سوچ بھی نہیں سکتے کہ یہ خبر برطانیہ کے دائیں بازو کے اخبارات اور میڈیا کیلئے کتنے بڑے صدمے اور ذہنی تکلیف کا موجب بنی۔ ابھی یہ کہا نہیں جا سکتا کہ کیا مذکورہ سوشلسٹ جماعت عنانِ اقتدار سنبھالے گی یا نہیں مگر پارلیمان میں سوشلسٹوں کا سب سے بڑی پارٹی بن کر اُبھرنا نہ صرف فرانس بلکہ یورپ کے سیاسی نقشے کو تبدیل کر سکتا ہے۔ عصرِ حاضر کی تاریخ ہمیں بتاتی ہے کہ کسی بھی ملک میں Centre یا Left of Centre سیاسی جماعت اقتدار میں آنے کے بعد ناکام ہو کر اقتدار سے محروم ہو جائے تو اس کی جگہ دائیں بازو کی نیم فسطائی سیاسی جماعت یا فسطائی قوت (زیادہ تر عسکری آمریت) لیتی ہے۔ مثال کے طور پر بھارت میں کانگریس کی ناکامی کے بعد بی جے پی‘ پاکستان میں بھٹو صاحب کے بعد جنرل ضیا الحق‘ بینظیر بھٹو اور میاں نواز شریف کے جمہوری ادوار کی ناکامی کے بعد جنرل پرویز مشرف‘ انڈونیشیا میں سوہارتو کے بعد چترل سہارتو کی فو جی آمریت‘ مصر میں جمال عبدالناصر کے بعد انور سادات‘ حسنی مبارک اور جنرل السیسی۔ گھانا میں Kwame Nkrumahکے بعد لیفٹیننٹ Rawlings وغیرہ۔ اس سال کے فرانسیسی انتخابات میں صدر میکرون کی پارٹی Renaissancee کو 168 اور دائیں بازو کی پارٹی National Rallyکو 143 نشستیں ملی ہیں۔ بائیں بازو کے سوشلسٹ محاذ کے سربراہ Jean-Luc Mélenchon نے اعلان کیا ہے کہ اگر انہیں حکومت ملی تو وہ سالانہ چار لاکھ یورو کمانے والے شخص کی آمدنی پر 90 فیصد ٹیکس لگا کر فلاحی مملکت قائم کریں گے۔
(2) دنیا میں 60 فیصد کافی کی پھلیاں جس پودے سے حاصل کی جاتی ہیں اس کا نامCoffea Arabica ہے۔ سائنسدانوں نے برسہا برس کی تحقیق کے بعد یہ پتا چلایا ہے کہ یہ پوداآج سے چھ لاکھ سال پہلے معرضِ وجود میں آیا تھا‘ جس کا مطلب یہ ہے کہ کافی کے پودے کی قدرتی عمر کرۂ ارض پر انسان کی عمر سے تین لاکھ سال زیادہ ہے۔ یہ بھی پتا چلا ہے کہ پہلے پہل کافی کا پودا ایتھوپیا میں نہیں بلکہ یمن کی سرزمین پر اُگا تھا۔ ہندوستان میں کافی کا پودا یوں پہنچا کہ ایک ہندوستانی سادھو بابابُڈن کافی بینز کو چوری چھپے یمن سے ہندوستان لے آیا جہاں وسیع پیمانے پر اسکی کاشت کی گئی۔ ساری دنیا کا درجہ حرارت بڑھ جانے سے کافی کی پیداوار بھی متاثر ہوئی ہے جس سے اب یورپ میں پچھلے سال سے کافی خاصی مہنگی ہو گئی ہے۔
(3) آپ جون کے آخر میں جزائر غرب الہند اور جنوبی امریکہ کی ریاستوں ٹیکساس اور فلوریڈا میں آنے والے سائیکلون کی شدت اور اس کے نتیجے میں وہاں آنے والی تباہی سے واقف ہوں گے مگر آپ کو شاید یہ علم نہ ہو کہ اُنہی دنوں فرانس کو برطانیہ سے جدا کرنے والے 32میل چوڑے سمندر (رودبار انگلستان) میں بھی اتنی شدت کا طوفان آیا۔ اسی رودبار میں کئی چھوٹے چھوٹے جزیرے ہیں۔ سب سے بڑا اور معروف جزیرہ Jersey ہے۔ وہاں آدھی رات کو قیامتِ صغریٰ آئی اور ہزاروں درخت جڑوں سے اکھڑ گئے‘ مکانوں کی چھتیں اور کھڑکیاں اڑ گئیں‘ بجلی کی سپلائی معطل ہو گئی۔ ژالہ باری نے رہی سہی کسر نکال دی۔ سمندر کی غضبناک لہروں نے ساحلی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ رودبار میں ہر وقت چلنے والے بحری جہازوں کا سفر معطل کر دیا گیا۔ جب فرانس نے طوفان کے تھم جانے پر سکھ کا سانس لیا تو نیدر لینڈز اور بلجیم کی باری آگئی۔گوبل وارمنگ گزری دو صدیوں میں سرمایہ دارانہ نظام کا عطیہ ہے۔ سرمایہ داری کا محور صرف اور صرف منافع خوری ہوتا ہے۔ اسے بنی نوع انسان کے وسیع تر مفادات کی کوئی پروا نہیں ہوتی۔ سرمایہ دارانہ نظام ہر ملک میں آبادی کی اقلیت (پانچ فیصد) کو کروڑ پتی اور ارب پتی بنا دیتا ہے مگر 95 فیصد آبادی کا استحصال کرتا ہے۔ قدرتی ماحول کو بھی بے دریغ نشانہ بناتا ہے۔
(4) آج سے 272سال پہلے (1752ء میں) امریکہ میں فلاڈیلفیا کی ریاست میں بینجمن فرینکلن نے طوفانی بارش کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے پتنگ اڑائی تو اس نے دیکھا کہ ڈور کے ساتھ باندھی ہوئی لوہے کی چابی سے چنگاریاں نکل رہی ہیں۔ یہ نتیجہ تھا بجلی سے بھرے ہوئے بادلوں سے چابی کے چھو جانے کا۔ تازہ تحقیق کے مطابق بجلی صرف بادلوں میں نہیں ہوتی بلکہ بجلی کے سرکٹ نے ساری کرۂ ارض کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ زمین اور اس سے 45 میل کی بلندی پر فضا میں Ionosphere کے درمیان ہمہ وقت بجلی کی لہریں سرگرم عمل رہتی ہیں۔ برطانیہ کے علاقے Shetland میں Lerwick کے مقام پر ایک رصدگاہ زمین اور فضا میں برقی لہروں کی آمد و رفت کا ایک صدی سے ریکارڈ رکھ رہی ہے اور اس نے شواہد سے ثابت کیا ہے کہ مذکورہ برقی لہریں زمین کے موسم‘ بارشوں اور برفباری کو بہت زیادہ متاثر کرتی ہیں۔ بادلوں میں چھپی ہوئی بجلی کا مشاہدہ بینجمن فرینکلن کی پتنگ بازی سے شروع ہوا۔ یہ غیرمعمولی ذہین شخص 1706ء میں پیدا ہوا اور 1790ء میں وفات پائی۔ اس کے 16 بہن بھائی تھے۔ اس کا اپنا نمبر 15واں تھا۔ وہ بڑا ہو کر نہ صرف سائنسدان اور موجد بلکہ ناشر‘ سیاستدان اور سفارتکار بنا۔ دنیا میں بہت کم لوگ ایسے پیدا ہوئے ہیں جنہوں نے اتنے کمالات سے بھرپور زندگی بسر کی ہو۔ اسی نے پہلی بار اونچی عمارتوں پرلائٹننگ کنڈکٹر لگوا کر انہیں آسمانی بجلی سے محفوظ بنانے کا طریقہ بتایا۔ اسے 1777ء میں پیرس بھیجا گیا تاکہ وہ فرانسیسی حکومت کی مالی اور سفارتی مدد حاصل کر سکے۔ 1787ء میں (وفات سے تین برس پہلے) یہ بوڑھا اور نحیف شخص امریکہ کی آئین مرتب کرنے والی اسمبلی کا رکن بنا۔ وہ عمر کے آخری حصے میں بھی نت نئی ایجادات کرتا رہا۔
(5) اس سال جون میں لندن میں ایک اہم واقعہ رونما ہوا۔ برٹش میوزیم نے سونے کے بنے ہوئے 32 نوادرات مغربی افریقہ کے ایک ملک (گھانا) کو تین سال کیلئے ادھار دیے۔ انہیں گھانا کے ایک بڑے قبیلےAshants کے بادشاہOtumfuo Osei Tutu II نے اپنے ملک کی طرف سے وصول کیا۔ یہ بے حد قیمتی نوادرات ڈیڑھ سو سال قبل گھانا پر برطانیہ کے جارحانہ حملہ کے دوران برطانوی فوج مالِ غنیمت کے طور پر لوٹ کر لائی تھی۔ اگلے تین برس ان نوادرات کی گھانا کے ہر بڑے شہر میں نمائش کی جائے گی اور پھر انہیں برٹش میوزیم‘ جو برطانیہ کا سب سے بڑا عجائب گھر ہے‘ کو لوٹا دیا جائے گا۔ لندن کا دوسرا بڑا عجائب گھر Victoria and Albert ‘ ہندوستان کی تقسیم سے قبل یہاں سے لوٹے گئے نوادرات‘ مجسموں‘ قالینوں‘ چوبی اور آہنی مصنوعات‘ ہاتھی دانت سے بنی اشیا اور تصاویر سے بھرا پڑا ہے۔ ہڑپہ‘ ٹیکسلا اور موہنجودڑو سے نکالی گئی بہت سی اشیا بھی اس عجائب گھر کی زینت ہیں جہاں ہر روز ہزاروں سیاح انہیں بڑے غور‘ توجہ اور احترام سے دیکھتے ہیں۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved