یونیورسل جسٹس نیٹ ورک اوراسلامک ہیومن رائٹس انگلستان میں قائم دو فعال غیر سرکاری تنظیمیں ہیں جو مسلمانوں کے مسائل کو جانچنے اور ان کو حل کرنے میں بہت دلچسپی رکھتی ہیں۔ ان کے نمائندگان وجاہت علی سید اور رضا نے تقریبا ًدو ماہ قبل مجھ سے ٹیلی فون اور ای میل کے ذریعے رابطہ کیا اورپاکستان میںجاری دہشت گردی کے واقعات پر گہری تشویش اوردکھ کااظہار کیا۔انہوں نے مجھے’’ دہشت گردی کے اسباب ،تجزیہ اور تدارک ‘‘ کے عنوان پر ترکی کے شہر بوڈ رم میں 26سے29اکتوبر کو ہونے والی کانفرنس میں دعوت دی ۔مجھے بتا یا گیا کہ قتل عام کی روک تھام کے لیے ہونے والی اس کانفرنس میں پاکستان کی اہم مذہبی جماعتوں کے مرکز ی رہنماشامل ہونگے اور ان کے ساتھ ساتھ دنیا کے مختلف ممالک سے آنے والے وہ ماہرین بھی شامل ہو ں گے جو اس موضوع پر مہارت رکھتے ہیں۔ کانفرنس کے منتظمین چاہتے تھے کہ مذہبی رہنمائوں کا ان ماہرین سے مذاکرہ کروایاجائے تاکہ باہم تبادلۂ خیال سے مثبت تجاویز سامنے آ سکیں ۔مَیں نے موضوع کی اہمیت کو مد نظر رکھتے ہوئے بلا تأمل دعوت کو قبول کر لیا ۔23اکتوبر کی رات لا ہور سے 9:30پر روانگی ہوئی ۔پی آئی ا ے کاطیارہ رات11:15پر کراچی ائیر پورٹ پر اترا۔ ترکش ائیر لائن کی پرواز کی صبح 5:30پر کراچی سے استنبول کے لیے روانگی تھی ۔تین گھنٹے کے لیے کراچی کے ایک دوست محمد اسدمجھے زبر دستی کلفٹن میں واقع اپنی رہائش گاہ پر لے گئے ۔کچھ دیر ان کے ساتھ مختلف مذہبی اور سماجی موضوعات پر بات چیت ہوتی رہی اور بعد ازاں مَیں نے تھوڑی دیر کے لیے آرام کیا۔ پونے تین بجے کے قریب دروازے پر دستک ہوئی ۔گاڑی تیا ر تھی ۔رات کے وقت ٹریفک نہ ہونے کے برابر تھی ۔فاصلے بڑی تیز ی سے سمٹنے لگے۔ تقریباًبیس منٹ میںمَیں ائیر پورٹ پہنچ چکا تھا۔ بورڈنگ کار ڈ اور پاسپورٹ کنٹرول سے فارغ ہوکر جب میں ترکش ائیر لائن والے گیٹ پر پہنچا تومولانا ثروت اعجاز قادری اورمولانا نیاز حسین نقوی ڈیپارچر لائونج میں موجود تھے۔ڈیپارچر لائونج میں بیٹھ کر کچھ دیر مولانا نیاز حسین نقوی سے مختلف امور پر ہلکے پھلکے انداز میں نوک جھوک ہوتی رہی۔ ہماری باہم ملاقات میں ہونے والی بحثیں ہمیشہ ہی بغیر کسی نتیجے پر پہنچے ختم ہوجاتی ہیں۔ اپنے اپنے مؤقف کی تائید میں ہم دونوں کافی دیر تک دلائل دیتے رہے، اس کے بعد نماز فجر ادا کی اور بالکل آخری لمحات میں جہاز میں سوار ہوا ۔چند منٹوں کے بعد جہاز کا دروازہ بند ہوا۔جہاز رن وے پرر ینگتے اور پھر برق رفتاری سے دوڑتے ہوئے فضا میں بلند ہوا۔ سفر کا ابتدائی حصہ طرح طرح کی سوچوں میں گزرااور ترکش ناشتہ کرنے کے تھوڑی دیر بعد نیند آگئی ۔جب آنکھ کھلی تو چھ گھنٹوں کی فلائٹ میں سے دو گھنٹے گزر چکے تھے اور دوبارہ سوچ کاسفر شروع ہوچکا تھا ۔کھڑکی سے متصل سیٹ سے موسم صاف ہونے کی وجہ سے زمینی مناظر واضح دکھائی دے رہے تھے۔تھوڑے تھوڑے فاصلے پر بنے ہوئے اونچے اونچے مکانات اور بڑی بڑی آبادیاں چھوٹے چھوٹے کھلونوں کی طرح محسوس ہو رہی تھیں ۔ اس منظر کو دیکھ کر مجھے دنیا کی بے بضاعتی کا احساس تنگ کرنے لگا اور ذہن میں یہ خیال آیا کہ کیا یہی وہ دنیا ہے جو چھوٹے چھوٹے کھلونوں نما گھروں پر مشتمل ہے، مگرجس کی تزئین و آرائش کے لیے ہم ہمہ وقت کوشاں رہتے ہیں ۔ اس دار ِ فانی میں دل کو لگائے ہوئے ہیں اور اپنے حقیقی پروردگار کاڈر دل سے نکال دیا ہے۔انہیں سوچوں میں غلطاں و پیچاںتھا کہ پائلٹ نے اعلان کیا کہ اپنی اپنی نشستوں پر تشریف رکھیں ۔تھوڑی دیر بعد ہم استنبول اترنے لگے ہیں۔ استنبول اترنے سے کچھ دیر پہلے جہاز پانی پر پرواز کرتا رہا۔ پانی کو دیکھ کر کراچی سے مشابہت کا احساس ہوا لیکن استنبول شہر کا نقشہ کسی حد تک اسلام آباد سے مشابہت رکھتا ہے۔ بلند و بالا بلڈ نگوں کی تعدا د اسلام آباد کے مقابلے میں قدرے زیادہ تھی لیکن سبزہ بالکل اسلام آباد کی طرح تھا استنبول ایئر پورٹ پر اتر کر ویزہ لینے کے لیے میں قطار میں لگ گیا ۔دیگر شرکائے سفر کے پاس ویزہ موجو تھا،اس لیے وہ استنبول ایئر پورٹ کے قومی پروازوں والے حصے کی طرف روانہ ہوگئے ۔ترکش امیگریشن عملے کی زیادہ تعدا د انگریزی اورعربی زبان سے ناواقف ہے اور آنے والے مسافروں کو ترک زبان میں ہی ڈیل کرتی ہے ۔ان میں سے اِکّا دُکّا افراد انگریز ی زبان میں مسافروں کی رہنمائی کرتے ہیں، اس لیے ویزہ حاصل کرنا قدرے مشکل ہوچکاتھا ۔اس مشکل اور صبر آزما مرحلے کو عبور کرنے کے دوران آدھا گھنٹہ لگ چکا تھا اور اگلی پرواز کے بارے میں میرے ذہن میں خدشات پیدا ہوچکے تھے ۔اللہ پر بھروسہ کیا، دل کو تسلی دی اور ویزہ حاصل کرنے کے بعد میں بھی قومی پروازوں والے حصے کی طرف روانہ ہوگیا۔چلتے ہوئے میرے ذہن میں بارہا یہ خیال آرہا تھا کہ ترکی ایک محدود علاقے میں بولی جانے والی زبان ہے اور یورپ کے ساتھ جغرافیائی قربت اور اتصال کے باوجود صرف قومی زبان میں اپنے معاملات کو چلا رہی ہے ،جبکہ پاکستان میں رہنے والے لوگ اپنی اردو زبان کی بجائے انگریزی پر انحصار کرتے ہیں،حالانکہ اردو زبان دنیا کے بڑ ے حصے میں بولی اور لکھی جانے والی زبان ہے۔ ہندوستان ،پاکستان اور بنگلہ دیش کا ایک بڑ ا حصہ اس زبان کو سمجھتا ہے ۔اپنے اندر اصطلاحات اور علم کو جذب کرنے کی بھر پور صلاحیت رکھنے کے باوجود ہم اردو زبان کی بجائے انگریزی پر انحصار کرنے پر کیوں مجبور ہیں؟میرے ذہن میں چین ، جرمنی ، جاپان ،روس ،سعودی عرب ،قطر، کویت اور دیگر عرب ممالک کا خیال آنا شروع ہوگیا کہ تمام ممالک اپنے معاملات کو اپنی اپنی زبان میں چلارہے ہیں اورآگے بڑھابھی رہے ہیں۔ ہم نہ جانے کیوں اپنی قومی زبان اورقومی ثقافت کو فروغ نہیں دے پا رہے ۔کوئی غیر زبان سیکھنا ،پڑھنایا لکھنا یقینا کوئی عیب والی بات نہیں لیکن اپنی زبان سے کنارہ کشی اختیار کرنا، اس کو بولتے ہوئے احساس کمتری میں مبتلا ہوجانا کسی بھی طور پر پسندیدہ نہیں ۔ استنبول کے قومی پروازوں والے ڈیپارچر لائونج میں پہنچا تو برادرم لیاقت بلوچ بھی وہاں موجود تھے ،جو رات کو اسلام آباد سے استنبول کے لیے روانہ ہوئے تھے۔ استنبول سے بوڈرم کا سفر ہم نے اکٹھے ہی کرنا تھا ۔تمام شرکائے سفر کے چہروں پر تھکان کے آثار نمایاں تھے ۔میرا ذہن دوبارہ انسانی کمزوری کی طرف مائل ہو چکا تھا کہ انسان ایک دن کے سفر کی شدت کا مقابلہ نہیں کرسکتا لیکن اس کا غرور اور اس کے دعوے ختم ہونے کو نہیں آتے۔انہی سوچوں کے دوران بوڈرم کے لیے روانگی کا اعلان ہوا ہم سب جہازمیں اپنی اپنی سیٹوں پر بیٹھ گئے۔ تقریبا ًسوا گھنٹے کے بعد ہم بوڈرم پہنچ چکے تھے ۔ہوٹل آدھے گھنٹے کی مسافت پر تھا۔ بڑا خوبصورت روڈ تھا ۔دس منٹ کے سفر کے بعد سڑک کا اتصال گہرے نیلے رنگ کی جھیل کے ساتھ ہوچکا تھا ۔جھیل کی بغل میں سفر کرتے ہوئے ہم آدھے گھنٹے میں ہوٹل میں پہنچے تو لنچ ٹائم ختم ہونے کو تھا ۔کھانا کھانے کے بعد نماز ظہر ادا کی اور اپنے اپنے کمرے کا رخ کیا ۔جب میں اپنے کمرے میں پہنچا تو گہری نیند آچکی تھی۔ بوڈرم میں کیا ہوا ،اس حوالے سے تفصیل سے آئندہ کالم میں قارئین کو آگاہ کیا جائے گا ۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved