تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     29-08-2024

ہمارا چیخنا چلانا لاحاصل و بیکار ہے

روئے ارض پر موجود سب جانداروں میں انسان سب سے ڈھیٹ اور سخت جان ہے۔ اور پھر دنیا بھر کے انسانوں میں ہم پاکستانی ڈھیٹ تر ہیں کہ نہ ہم نے ماضی سے کوئی سبق حاصل کیا ہے اور نہ ہی حال میں بدترین ملکی صورتحال سے کچھ سیکھنے پر تیار ہیں۔ کیا عوام‘ کیا حکمران اور کیا ہمارے حقیقی فیصلہ ساز‘ سارے کے سارے حال مست لوگ ہیں۔ جنہیں نہ اپنے ماضی پر کوئی شرمندگی ہے اور نہ کل کی پروا ہے۔ رہ گیا مستقبل‘ تو اس کے بارے میں تو ہم نے نہ کبھی سوچا ہے اور نہ ہی یہ ہماری ترجیحات میں کہیں دکھائی دیتا ہے۔
ایک شخص قسمت کا منکر تھا اور اسے خرافات سے زیادہ اہمیت دینے کا قائل نہیں تھا۔ اس کے خیال میں قسمت وغیرہ کوئی چیز نہیں ہوتی۔ وہ ہر کامیابی‘ ترقی اور فائدے کو محنت‘ لگن‘ عمل اور قابلیت کا نتیجہ قرار دیتا تھا۔ اس کے ایک دوست نے اسے قسمت کا قائل کرنے کی غرض سے دورانِ بحث مثال دیتے ہوئے کہا: فرض کرو تم دسویں منزل سے گرو اور تمہیں خراش تک نہ آئے تو کیا تم اسے اپنی خوش قسمتی نہیں سمجھو گے؟ قسمت کے منکر نے جواباً کہا کہ یہ خوش قسمتی یا بدقسمتی کا مسئلہ نہیں ہے‘ یہ سیدھا سادہ اتفاق ہے۔ تم اسے چانس کہہ سکتے ہو جو کسی کو کسی بھی وقت مل سکتا ہے۔ اس کے دوست نے اسے قائل کرنے کی غرض سے کہا کہ چلو فرض کرو تم دوبارہ اسی دس منزلہ عمارت سے گرو اور تمہیں کچھ نہ ہو تو پھر تم اسے قسمت نہیں کہو گے تو کیا کہو گے؟ وہ شخص کٹ حجتی کرتے ہوئے کہنے لگا: میں اسے قسمت نہیں بلکہ شاذو نادر والا اتفاق کہوں گا۔ اس کا دوست جز بز ہو کر کہنے لگا: اور اگر تمہارے ساتھ تیسری بار بھی یہی کچھ ہو تو پھر تمہارے نزدیک یہ کیا ہوگا؟ قسمت کا منکر کہنے لگا: میں اسے بھلا کیا کہوں گا‘ اب تو میں اس کا عادی ہو چکا ہوں گا۔
ادھر بھی یہی حال ہے! ہمارے حکمران‘ فیصلہ ساز اور مقتدر حلقے اب شاید ملک کی اس بدترین صورتحال کے عادی ہو چکے ہیں۔ ان سب کا دال دلیا (اس دال دلیے کو محاورہ سمجھئے‘ حقیقی دال دلیا نہ سمجھ لیجئے گا) خوب چل رہا ہے۔ حسبِ سابق موج میلے جاری ہیں۔ مصیبت یا فراغت کی صورت میں دیارِ فرنگ میں جا بسنے کی ہر سہولت میسر ہے تو بھلا انہیں کس بات کی پروا ہو سکتی ہے؟ بدترین اقتصادی حالات میں بھی اس ملک کی اشرافیہ کپیسٹی چارجز کی مد میں قوم کا خون نچوڑ رہی ہے۔ سولر پینلز کی آڑ میں اربوں روپے کی دیہاڑی لگا رہی ہے۔منی لانڈرنگ ہو رہی ہے اور کک بیکس کے اربوں روپے ڈالروں کی صورت میں ملک سے باہر جا رہے ہیں۔ وزیراعظم اپنے دفتر کے سرکاری بابوئوں پر انعام و اکرام کی برسات کر رہے ہیں۔ اسمبلی کے ملازمین علیحدہ سے بونس لے رہے ہیں۔ ایف بی آر کے ملازمین کو عوام الناس سے کی جانے والی مبینہ لوٹ مار کے علاوہ انعامات سے نوازا جا رہا ہے۔ حکمران اپنے دفاتر اور رہائش گاہوں کی تزئین و آرائش پر کروڑوں روپے خرچ کررہے ہیں۔ عوام بھوکے مر رہے ہیں اور حکمران اپنی تشہیری مہمات پر اربوں روپے اُڑا رہے ہیں۔ طرزِ حکمرانی اور حکمرانوں کی عادات کو دیکھیں تو لگتا ہی نہیں کہ اثاثے گروی پڑے ہیں اور ملک ادھار پر چل رہا ہے۔ کسی ذمہ دار کو اس حالتِ زار کا نہ احساس ہے اور نہ ہی وہ اپنی کسی سہولت کو کم کرنے پر تیار ہے۔
ملک میں اس وقت سب سے زیادہ جس چیز پر شور مچ رہا ہے اور عوام زندگی سے تنگ و پریشان ہیں‘ وہ بجلی کی قیمتوں کا مسئلہ ہے اور اس کا سبب جو بظاہر دکھائی دیتا ہے وہ آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے وہ معاہدے ہیں جو نالائقی‘ بدنیتی‘ بے ایمانی اور لوٹ مار کا بدترین امتزاج ہیں۔ حالت یہ ہے کہ بجائے ان معاہدوں کو سامنے لا کر ان کا کوئی قابلِ حل نتیجہ نکالا جائے‘ بیورو کریسی اسے چھپانے اور پوشیدہ رکھنے پر زور لگا رہی ہے۔ گزشتہ روزخبر دیکھی کہ سیکرٹری پانی و بجلی نے سینیٹ کی کمیٹی کو آئی پی پیز کے ساتھ ہونے والے معاہدے دکھانے ہی سے انکار کردیا۔ بندہ پوچھے کہ معاہدے کو دکھانے میں کیا امر پوشیدہ ہے؟ جو معاہدے ہو چکے ہیں اور ان پر برسوں سے عمل بھی ہو رہا ہے‘ ان معاہدوں کے تحت آئی پی پیز ریاست کا خون نچوڑ رہے ہیں‘ بھلا ان کو محض دکھانے میں کیا رمز پوشیدہ ہے؟ معاہدے ہی ہیں خدانخواستہ کوئی کنواری کنیا تو نہیں کہ سینیٹ کی نامحرم کمیٹی کو اس باعفت خاتون کا دیدار نہیں کرایا جا سکتا۔
وجہ صرف یہ ہے کہ ان معاہدوں کے سارے بینی فشری اُس اشرافیہ سے تعلق رکھتے ہیں جو سدا سے اس ملک کے حقیقی حکمران ہیں۔ فیصلہ ساز‘ سرمایہ دار اور زور آور بلاواسطہ یا بالواسطہ ان آئی پی پیز کے مالک یا حصہ دار ہیں۔ ساری پردہ داری اس بات کی ہے کہ ان کے نام سامنے نہ آئیں اور ان کی لوٹ مار بند نہ ہو۔ بھلے ملک دیوالیہ ہو جائے‘ عوام برباد ہو جائیں اور انڈسٹری تباہ ہو جائے۔ بلکہ تباہ ہو جانے سے کیا مراد ہے‘ آدھی کے لگ بھگ انڈسٹری بند ہو چکی ہے یا ہونے والی ہے۔ گاڑیاں بنانے والی کئی کمپنیاں اپنی پیداوار کم کر چکی ہیں اور کئی یونٹ قلیل المدتی بندش کا اعلان کر چکے ہیں۔ یہ وقتی بندش مستقل میں بھی بدل سکتی ہے۔ بیشتر ملٹی نیشنل دوا ساز کمپنیاں پاکستان میں اپنا بزنس بند کرکے رخصت ہو چکی ہیں۔ جو موجود ہیں وہ اپنا آپریشن بند کرنے کا سوچ رہی ہیں۔ ان دوا ساز کمپنیوں میں دنیا کی بڑی مشہور اور نامور کمپنیاں شامل ہیں۔ یہ وہ کمپنیاں ہیں جو پاکستان میں گزشتہ پانچ چھ عشروں سے کام کر رہی تھیں۔ اگر وہ پچیس کروڑ آبادی والے ملک میں اپنا بزنس بند کرکے واپس جا رہی ہیں تو اس کا کوئی سبب تو ہوگا۔ آخر اس ملک میں اپنی پیداوار بند کرکے بوریا بستر لپیٹ کر جانے کاکیا سبب ہے‘ اس پر حکمرانوں کو کوئی تشویش ہے؟
دوا ساز کمپنی ہو یا کوئی پٹرولیم کمپنی‘ کوئی موبائل فون آپریٹر ہو یا کاریں بنانے والی کمپنیاں ہوں‘ یہ دنیا بھر میں کاروبار کرتی ہیں۔ مینو فیکچرنگ انڈسٹری میں سب سے اہم چیز مارکیٹ والیم ہوتا ہے یعنی اس پیداوار کے خریداروں کی تعداد۔ دنیا بھر میں پیداواری صنعت خریداروں کی تعداد اور ان کی قوتِ خرید سے جڑی ہوتی ہے۔ اب بھلا جس ملک کی آبادی پچیس کروڑ سے زیادہ ہو اور آبادی کے لحاظ سے وہ دنیا میں پانچویں نمبر پر ہو‘ اگر وہاں سے ملٹی نیشنل کمپنیاں اپنا بوریا بستر لپیٹ کر جا رہی ہوں تو اس کی کوئی وجہ تو ہوگی۔ وجہ صرف یہ ہے کہ یہ ملٹی نیشنل کمپنیاں منافع کمانے کے لیے کام کرتی ہیں‘ گھاٹے کے لیے نہیں۔ پچیس کروڑ لوگوں کی مارکیٹ کو چھوڑنا آسان کام نہیں مگر تا دیر گھاٹے پر کاروبار چلانا پرائیویٹ سیکٹر میں ممکن ہی نہیں ہے۔ اس ملک کی آبادی کا بیشتر حصہ اب وہ قیمت ادا کرنے کے قابل نہیں رہا جو کمپنیوں کی پیداواری لاگت پوری کر سکے۔
اس ملک کی اشرافیہ کے پاس بہت دولت ہے لیکن پانچ فیصد سے بھی کم یہ اشرافیہ‘ جو ملک کے 90فیصد سے زائد وسائل پر قابض ہے‘ بطور صارف کتنی اشیا خرید سکتی ہے؟ یہ پانچ فیصد دولت مند اول تو پاکستان میں علاج ہی نہیں کرواتے اور اگر کرائیں بھی تو بطور صارف مارکیٹ میں کتنا حصہ ڈال سکتے ہیں؟اخفاء کا یہ عالم ہے کہ بیورو کریسی سینیٹ کی کمیٹی کو آئی پی پیز کے معاہدے دکھانے سے انکاری ہے۔ دوسری طرف یہی سینیٹ پاکستانی بینکوں سے ساٹھ ارب کا زرِمبادلہ لے کر مارکیٹ سے کہیں مہنگے سولر پینلز امپورٹ کرنے کی آڑ میں ملکی معیشت کو اربوں روپے کا ٹیکہ لگانے والوں کے نام قوم کو بتانے سے انکاری ہے۔ اس سیکنڈل میں جو دو بڑے کھلاڑی ہیں ان کے نام ابھی تک پردۂ غیب میں ہیں اور ان ناموں کے افشا میں سینیٹ رکاوٹ بنی ہوئی ہے۔ یعنی ریاست کا ہر ستون چوروں کی پردہ پوشی کے فرائض سرانجام دے رہا ہے۔ جہاں چوکیدار چوروں کے محافظ اور سہولت کار ہوں وہاں ہمارا چیخنا چلانا لاحاصل اور بیکار ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved