اسداللہ غالب نے کہا تھا:
بنا کر فقیروں کا ہم بھیس غالبؔ
تماشائے اہلِ کرم دیکھتے ہیں
لیکن یہاں معاملہ یہ ہے کہ اہلِ کرم کو گداگروں کے تماشے دیکھنا پڑ رہے ہیں۔ کیا کیا طریقے نکالتے ہیں یہ لوگوں سے پیسے نکلوانے کے لیے‘ یہ جان کر ماننا پڑتا ہے کہ یہ جینئس لوگ ہوتے ہیں‘ انسانی نفسیات سے پوری طرح آگاہ اور واقف‘ جذبات سے عاری اور بے حس لیکن دوسروں کے جذباتی استحصال میں ہنر مند۔ یہ باتیں مجھے اس لیے یاد آئیں کہ پنجاب کابینہ کی قائمہ کمیٹی برائے لیجسلیٹو بزنس (قانون سازی) نے انسدادِ گداگری کے قانون (The Punjab Vagrancy Ordinance, 1958) میں اہم تر امیم کی منظوری دے دی ہے۔ دستاویزات کے مطابق قانون میں پہلے ایسے بھیک مانگنے والے بچے کا ذکر تھا جس کی عمر 14 سال سے کم ہو۔ نئی ترامیم کے مطابق اب قانون میں منظم طور پر بھیک مانگنے اور منگوانے والے آرگنائزر اور اس رسہ گیری دھندے کے سرغنہ کے خلاف بھی کارروائی اور سخت سزا ہو گی۔ 1958ء کے قانون کے مطابق گداگری کی سزا زیادہ سے زیادہ تین سال تھی۔ نئی ترامیم کے مطابق سزا تو تین سال ہی ہے لیکن زیادہ سے زیادہ کی مقررہ حد ختم کر دی گئی ہے۔ نئی ترامیم میں بھیک مانگنے کی ملازمت دینے کی سزا تین سال قید اور ایک لاکھ روپے جرمانہ ہو گا جبکہ جرمانہ ادا نہ کرنے کی صورت میں مزید چھ ماہ قید بھگتنا ہو گی۔
قانون میں ترامیم کو خوش آئند ہی قرار دیا جا سکتا ہے‘ لیکن اب یہ حقیقت روزِ روشن کی طرح واضح ہو چکی ہے کہ پاکستان کا مسئلہ نئی قانون سازی اور پہلے سے موجود قوانین میں ترامیم نہیں بلکہ ان قوانین پر عملدرآمد کرانا ہے۔ قوانین بنا لیے جائیں یا پرانے قوانین میں ترامیم کر لی جائیں‘ اگر ان پر عملدرآمد نہ ہو تو ایسی قانون سازی کا ظاہر ہے کہ کوئی فائدہ نہیں ہوتا۔ کسی جرم کے مرتکب کے لیے سزائیں اور جرمانے چاہے جتنے بھی بڑھا دیے جائیں‘ مجرم کو اگر سزا نہیں ملتی اور کوئی قانون معاشرے کی تطہیر اور ترقی کے لیے کردار ادا نہیں کر پاتا تو ایسے ضابطوں اور ایسے قواعد کا کیا فائدہ؟
ہمارے ملک میں گداگری پہلے بھی منع ہے اس کے باوجود حقیقتِ حال سے شاید کوئی بھی ناواقف نہ ہو۔ آپ کسی چوک یا چوراہے پر کھڑے ہو جائیں‘ کسی دکان پر سودا لینے کے لیے چلے جائیں یا لمحہ بھر کے لیے پھل اور سبزی خریدنے کے لیے کسی ریڑھی والے سے بھاؤ تاؤ کر رہے ہوں‘ یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ دو چار مانگنے والے آپ کے سامنے دستِ طلب دراز نہ کریں۔ چوراہوں پر ٹریفک سگنل سرخ ہونے پر جب گاڑیاں رُک جاتی ہیں تو گداگروں کی ایسی یلغار ہوتی ہے کہ بندہ بوکھلا جاتا ہے اور سوچنے لگتا ہے کہ کس کو کچھ دے یا کس کو نہ دے۔ ان میں سے بعض نے ہاتھوں میں بظاہر بیچنے کے لیے کچھ چیزیں پکڑی ہوتی ہیں لیکن دراصل وہ بھی کچھ مانگ ہی رہے ہوتے ہیں۔ اب تو دس‘ بیس والی بات بھی نہیں رہی‘ وہ سو پچاس کے طالب ہوتے ہیں۔ اب ہر چوراہے پر اتنے گداگروں کے لیے سو سو‘ پچاس پچاس کون نکالے‘ اور کیسے جبکہ اسے بجلی کا بل بھی ادا کرنا ہوتا ہے؟
وفاقی وزارتِ تعلیم کی سالِ رواں کے آغاز میں سامنے آنے والی ایک رپورٹ کے مطابق ملک میں دو کروڑ 62 لاکھ بچے سکول جانے سے محروم ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پنجاب میں ایک کروڑ 17 لاکھ 30 ہزار بچے تعلیم حاصل کرنے سے قاصر ہیں جبکہ سندھ میں 76 لاکھ 30 ہزار‘ خیبر پختونخوا میں 36 لاکھ 30 ہزار اور بلوچستان میں 31 لاکھ 30 ہزار بچے سکولوں سے باہر ہیں۔ وفاقی دارالحکومت میں آٹھ لاکھ بچے سکول نہیں جا رہے۔ یہ رپورٹ دو سال پہلے کے اعداد و شمار پر مبنی ہے لیکن اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ہماری حکومتوں نے دو تین سالوں میں کون سے ایسے اقدامات کیے ہیں جن کے نتیجے میں کہا جائے کہ یہ اعداد و شمار مثبت انداز میں تبدیل ہو چکے ہوں گے۔ جب 77 برسوں سے معاملہ ایسا ہی ہے تو کیسے ممکن ہے کہ دو چار برسوں میں ان میں کوئی بڑی اور واضح مثبت تبدیلی آ جائے؟
آپ کا کیا خیال ہے؟ ان دو کروڑ 62 لاکھ بچوں میں سے کتنے کام سیکھ کر اور ہنر مند بن کر کچھ کمانے کے قابل ہو چکے ہوں گے اور کتنے گداگری اور راہزنی کو پیشہ بناچکے ہوں گے؟ ہمارے ملک میں اگر سٹریٹ کرائمز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ ہو رہا ہے اور چوراہوں پر گداگر بچوں کے جھنڈ کے جھنڈ نظر آنے لگے ہیں تو اس کی ایک وجہ یہی سکولوں سے باہر بچے بھی ہیں جو غلط صحبت اختیار کر کے جرائم پیشہ بن جاتے ہیں۔ برسرِ اقتدار آنے والی ہر حکومت کی جانب سے ان بچوں کو سکولوں میں داخل کرانے کے بلند بانگ دعوے کیے جاتے ہیں‘ لیکن چونکہ اس سلسلے میں ٹھوس اقدامات نہیں کیے جاتے اور ساری کوششیں زبانی جمع خرچ تک محدود رہتی ہیں‘ اس لیے ملک بھر میں جرائم بڑھ رہے ہیں اور گداگروں کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔
کبھی کسی نے سوچا کہ یہ بچے سکولوں سے باہر کیوں ہیں؟ اس لیے کہ ان کے والدین ان کے تعلیمی اخراجات پورے کرنے کے قابل نہیں ہیں۔ یعنی اصل مسئلہ غربت ہے۔ اب ہو یہ رہا ہے کہ اس مسئلے کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے بجائے محض نمائشی اقدامات سے کام لیا جا رہا ہے۔ حکومت لوگوں کے لیے روزگار کا وسیع بندوبست کرے‘ مہنگائی پر کنٹرول کرے اور یوٹیلیٹی بلز کے فی یونٹ نرخوں میں کمی لائے تو ہو سکتا ہے کہ سکولوں سے باہر بچوں اور گداگری جیسے مسائل کا حل نکل آئے‘ لیکن حکومت اس کے لیے تیار نظر نہیں آتی۔ مہنگائی اور بجلی کے بلوں نے لوگوں کا ناطقہ بند کر رکھا ہے۔ انہیں اپنی ایک ضرورت پوری کرنے کے لیے کسی دوسری ضرورت کا گلا گھونٹنا پڑتا ہے۔ ایسے میں وہ اپنے بچوں کی تعلیم پر توجہ دیں تو کیسے؟
حالات اسی طرح رہے تو اندیشہ ہے کہ بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بلز لوگوں کی رہی سہی قوتِ خرید بھی ختم کر دیں گے۔ دوسرے لفظوں میں کہا جا سکتا ہے کہ مہنگائی اور بڑھتے ہوئے یوٹیلیٹی بلز خطِ غربت سے نیچے زندگی بسر کرنے والی آبادی کی شرح بڑھا دیں گے۔ اس کے نتیجے میں نہ صرف سکولوں سے باہر بچوں کی تعداد بڑھے گی بلکہ سٹریٹ کرائمز اور گداگری کی شرح میں بھی اضافہ ہو جائے گا۔ سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہوا تو یہ ترامیم شدہ قوانین کیا کریں گے؟
میں قوانین میں وقت کی ضرورت کے مطابق ترامیم کے خلاف نہیں ہوں۔ ایسی ترامیم ہونی چاہئیں‘ بلکہ ہوتی رہنی چاہئیں‘ لیکن قوانین موجود ہونے کے باوجود اگر ان خرابی کا باعث بننے والے عوامل پر ہی قابو نہ پایا جا سکے جو سکولوں سے باہر آوارہ گردی کرنے والے بچوں کی تعداد‘ گداگری‘ منشیات فروشی اور سٹریٹ کرائمز کی شرح بڑھانے کا باعث ہیں تو کیا کوئی بڑی تبدیلی واقع ہو سکتی ہے؟ میرے خیال میں نہیں!
ملٹی نیشنل کمپنیاں تیزی سے پاکستان چھوڑ کر دبئی جا رہی ہیں۔ اندازہ اس بات سے لگائیے کہ رواں سال کے پہلے چھ ماہ میں 3968 نئی پاکستانی کمپنیاں دبئی میں رجسٹرڈ ہوئی ہیں۔ گزشتہ سال اسی عرصے کے دوران 4018 پاکستانی کمپنیاں رجسٹرڈ ہوئیں۔ مقامی تجارت‘ صنعت اور زراعت کے حالات بھی بہت زیادہ اطمینان بخش نہیں ہیں۔ ایسے میں لوگوں کو روزگار کہاں سے ملے گا اور وہ اپنے بچوں کو سکول کیسے داخل کر سکیں گے؟ تو کیا ہمیں مزید سٹریٹ کرائمز اور مزید گداگروں کے لیے ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے؟ اگر ایسا ہوا پھر گداگری کے حوالے سے قوانین میں جو ترامیم کی جا رہی ہیں‘ ان کا کیا بنے گا؟
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved