تحریر : سعود عثمانی تاریخ اشاعت     29-08-2024

فاتح کے حضور

ایک بڑے سے مقبرے میں بڑی سی قبر۔ اونچی اور لمبی! میں اس کے سرہانے کھڑا صاحبِ قبر کیلئے دعائیں پیش کر رہا تھا۔ دعا سے فارغ ہوا تو سرہانے بنی اس بہت بڑی سنگی دستار کے قریب پہنچا جس نے مقبرے میں داخل ہوتے ہی میری توجہ اپنی طرف مبذول کرالی تھی۔ ترکوں میں یہ روایت تھی کہ بڑے سردار اور بڑے سلطان کیلئے اسے خراجِ عقیدت پیش کرنے کیلئے قبر کے سرہانے دستار نصب کردی جاتی تھی۔ گویا وہ سر آج بھی دستار پوش ہے۔ اور یہ سر تو تھا بھی ایک بہت بڑے فاتح سلطان کا۔ اس کا نام نہ لیں صرف فاتح کہہ دیں تو پتا چل جاتا ہے کہ یہ سلطان محمد فاتح کی بات ہورہی ہے۔ فاتحِ قسطنطنیہ۔ محمد ثانی‘ جسے ترک لہجے میں میحمت بولتے ہیں‘ محض 21 سال کی عمر میں قسطنطنیہ فتح کرنے والا نوجوان‘ 49 سال میں دنیا کی تاریخ میں اپنا نام ثبت کرنے والا حکمران‘ 29 مئی 1453ء کو دنیا کی تاریخ میں محفوظ کر دینے والا شہزادہ۔ اسی 29 مئی کے نام سے اب ترکیہ میں ایک بڑی یونیورسٹی بھی قائم ہے۔ میں اسی فاتح کے حضور آیا ہوا تھا جس کے نام پر استنبول کا ایک پورا علاقہ فاتح کے نام سے مشہور ہے۔ یہ بات 2010ء کی ہے لیکن اس کے بعد بھی کئی بار ادھر آنا ہوا۔
فاتح کا علاقہ استنبول کے یورپی حصے میں ہے اور بہت بارونق بھی۔ یہاں اگرچہ تاریخی آثار بہت سے ہیں تاہم سلطان احمد‘ جو آیاصوفیہ اور نیلی مسجد‘ توپ کپے وغیرہ کے بالکل قریب ہے‘ یہ علاقہ ان سے دور ہے۔ میں اپنے ہوٹل سے ناشتے کے بعد نکلا تو ذہنی طور پر آسودہ تھا۔ آج دن بھر کوئی اور کام نہیں تھا اس لیے اپنی مرضی کا دن گزارا جا سکتا تھا۔ ہوٹل جس گلی میں تھا اس کی نکڑ پر ایک تاریخی عمارت نے مجھے متوجہ کیا۔ اس عمارت کے گلی کے رُخ پر ایک سبز و سنہری تختی لگی تھی۔ خوبصورت خطاطی میری کمزوری ہے اور یہاں خطِ ثلث‘ نسخ اور نستعلیق کی خوبصورت خطاطی میں اس قدیم کتب خانے کا نام لکھا تھا جس کی یہ عمارت تھی۔ ترکیہ میں وقف جائیدادیں بڑی تعداد میں ہیں۔ ترکوں میں اس کا بہت رواج تھا اور اس کا ایک مکمل نظام موجود تھا۔ یہ عمارت بھی ایسا ہی وقف کتب خانہ تھا۔ میں مرکز ی سڑک پر آیا اور دائیں بائیں دکانوں میں جھانکتا چلتا رہا۔ ترکیہ ہمارے لیے ہمیشہ سے مہنگا تھا لیکن اب تو افراطِ زر نے اس مہنگائی کو ہزاروں فٹ بلند کردیا ہے۔ یہ علاقہ ویسے بھی مہنگا تھا۔ کچھ جیکٹوں‘ سویٹرز کی قیمتیں پوچھیں تو جھٹکا سا لگا۔ خیر ہم لوگ دیارِ غیر میں ان جھٹکوں کے عادی ہیں۔ ترکیہ‘ بالخصوص استنبول میں ہول سیل مارکیٹس خریداری کیلئے بہتر ہیں۔ امینونو گرانڈ بازار انہی میں سے ہے۔
باقی دن لیپ ٹاپ پر کام میں گزر گیا۔ رات کو کھانے اور چہل قدمی کیلئے ہوٹل سے نکلا تو سردی بہت مزے کی تھی۔ میں مرکزی سڑک سے بائیں ہاتھ چل پڑا جہاں کچھ ہی فاصلے پر فاتح مسجد ہے۔ یہ علاقہ اور یہ مسجد سلطان محمد فاتح کے نام سے منسوب ہے اور یہیں ان کا مزار بھی ہے۔ میں 2010ء میں بھی شعیب دمرجی کے ہمراہ یہاں آیا تھا۔ ذرا سا چلا تو قدیم مسجد کی پرانی اینٹوں کی دیوار‘ جس پر سنہری روشنیوں کی چھوٹ پڑ رہی تھی‘ سڑک پار سامنے نظر آنے لگی۔ میں نے سڑک پار کی۔ مرکزی دروازے سے آگے کچھ فاصلے پر ایک پُرکشش قدیم گلی نظر آرہی تھی۔ میں نے اسے دور سے پہلے بھی دیکھا تھا۔ اس گلی نے آواز دی تھی لیکن میں جا نہیں سکا تھا۔ آج اس سے ملاقات کا موقع تھا۔ دس بارہ گھومتی سیڑھیاں چڑھ کر اس گلی میں داخل ہوا۔ دائیں بائیں کھانے پینے کی کچھ دکانیں تھیں جو یقینا پرانے دور کی ہوں گی مگر انہیں جدید کردیا گیا تھا۔ دائیں ہاتھ ڈونر کباب کی دکان پر نوجوان مالک روایتی قدیم ترک لباس پہنے بیٹھا تھا۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے بانہیں پھیلا کر خیر مقدم کیا اور کاؤنٹر پر رکھی سرخ ترک ٹوپی پہنی۔ اس خوش دل نوجوان کو یقین تھا کہ میں اس کے ریسٹورنٹ سے کچھ خریدوں گا بھی اور تصویر بھی اترواؤں گا۔ میں نے اس کی خواہش کے دوسرے حصے پر خوشی سے عمل کیا۔ لیکن تصویر کھنچوانے سے پہلے اس نے مجھے ایک منٹ کیلئے روکا۔ ایک اور عنابی ترک ٹوپی برآمد کی اور مجھے پہنا دی۔ تصویر کھنچی تو لگتا تھا کہ جمال پاشا اور علامہ سعود آفندی ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔ لیکن علامہ سعود آفندی کو اس وقت بھوک بالکل نہیں تھی‘ اس لیے جمال پاشا نے بھی اس کی معذرت قبول کر لی۔
یہ گلی آگے چل کر مسجد فاتح کے بغلی دروازے کے قریب ختم ہو جاتی تھی۔ یہ مسجد میں داخلے کا ایک راستہ تھا۔ میں ایک وسیع احاطے میں داخل ہوا اور سامنے سرخ سنہری روشنیوں میں مسجد جگمگا رہی تھی۔ اس احاطے میں سبزہ زار‘ وضو خانہ موجود تھے اور بیٹھنے کیلئے لکڑی کی بنچیں بھی۔ یہ اس عظیم سلطان کی بنائی ہوئی مسجد تھی جس نے استنبول کی تاریخ ہی بدل دی تھی۔ دنیا کی جن فتوحات نے تاریخ کا دھارا بدل دیا تھا‘ فتحِ قسطنطنیہ ان میں نمایاں ہے۔ سرد ہوا چل پڑی تھی اور احاطے میں کھیلتے بچوں کی آوازیں پھیل رہی تھیں۔ عشا کی نماز کے بعد مسجد اور فاتح کے مزار کا دروازہ بند تھا۔ میں 2010ء میں اس قبر پر حاضر ہو چکا تھا جس کے سرہانے ایک بڑی ترک پگڑی بنی ہوئی تھی جو سلطان کے مرتبے اور عظمت کو ظاہر کرتی تھی۔
میں واپس ہوٹل کی طرف روانہ ہوا۔ بھوک لگنے لگی تھی۔ کیسے ممکن تھا کہ استنبول آؤں اور جیئر کباب یعنی جگر کباب (بھنی کلیجی) نہ کھاؤں۔ نیٹ پر تلاش کیا تو معلوم ہوا کہ میرے ہوٹل سے کچھ فاصلے پر ایک جیئر کباب والا بہت مشہور ہے۔ لیکن اس کیلئے پہلے ہوٹل جانا اور پھر پہاڑی سے نیچے اُتر کر اس ریسٹورنٹ تک پہنچنا ضروری تھا۔ سرد رات میں چلنا اچھا لگتا ہے‘ اور بھوک کشش کو بڑھا دیتی ہے۔ میں پہاڑی سے اترتا گیا۔ دائیں بائیں بارونق اور سنسان گلیاں گزرتی گئیں۔ دور سے روشنیاں نظر آئیں تو اندازہ ہوا کہ میں بارونق بازار کے قریب پہنچ چکا ہوں۔ یہ ریسٹورنٹس سے بھرا علاقہ تھا۔ جس ریسٹورنٹ کی مجھے تلاش تھی وہ بہت چھوٹا سا تھا۔ شاید تاریخی دیار بکر اس کا نام تھا لیکن ٹھیک یاد نہیں۔ دکان کے اندر صرف کباب بنائے جارہے تھے۔ باہر دو چار میزیں کرسیاں پڑی تھیں‘ لیکن اس دکان پر بہت ہجوم تھا۔ کچھ دیر انتظا رکے بعد ایک میز خالی ہوئی تو شکر ادا کیا۔ جگر کباب سیخوں پر بھنی ہوئی کلیجی ہے جو پیاز‘ ٹماٹر اور چپاتی جیسی روٹی کے ساتھ پیش کی جاتی ہے۔ ساتھ ترک لسی بھی ہو تو کھانا مکمل۔ بھوک میں خوب سیر ہوکر کھایا۔ اسی دوران مردوں عورتوں کا ایک چھوٹا سا گروپ میز خالی ہونے کے انتظار میں قریب آکر کھڑا ہوگیا۔ وہ اردو میں باتیں کر رہے تھے اور لہجے سے اندازہ ہو رہا تھا کہ تعلق کراچی سے ہے۔ بھوک سے بیتاب ایک عورت نے کہا ''پتا نہیں یہ آدمی کب اٹھے گا‘‘۔ بات میری ہورہی تھی اور واضح طور پر وہ مجھے ترک یا کوئی غیرپاکستانی سمجھ رہے تھے۔ میں نے جلدی جلدی کھانا مکمل کیا۔ لسی اٹھائی۔ سگریٹ سلگایا۔ اور اسی خاتون کو صاف اردو میں مخاطب کیا ''لیجیے یہ آدمی اٹھ گیا ہے‘‘۔ ایک لمحے کیلئے وہ سب ششدر سے رہ گئے۔ پھر سنبھل کر وہ خاتون بولی ''ارے یہ تو غلط ہوگیا‘ بہت معذرت! دراصل بہت دور سے بھوک میں ادھر آئے تھے۔ آپ آرام سے کھائیے‘‘۔ میں نے اطمینان سے کہا ''نہیں آپ بیٹھ جائیے اس سے پہلے کہ کوئی اور بھوک سے بیتاب پاکستانی پارٹی آپ کو اٹھا دے‘‘۔ خوش دل لوگ تھے۔ ہنسے اور وقت کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے فوراً بیٹھ گئے۔
شکم سیری کے ساتھ واپس ہوٹل تک کی چڑھائی چڑھنا ایک مرحلہ تھا۔ کئی جگہ بے دم ہوکر رکنا پڑا۔ ہوٹل پہنچ کر شکم سیری اور تھکن دونوں جسم پر دھاوا بول چکی تھیں لیکن بستر پر ڈھیر ہونے سے پہلے اچانک خیال آیا کہ ریسٹورنٹ کے کھانے کے پیسے تو دیے ہی نہیں۔ اس جلدی میں ویسے یہی چلا آیا۔ افسوس ہونے لگا کہ اب کیا کروں؟ نہ واپس جانے کی ہمت‘ نہ وقت کہ ریسٹورنٹ رات دس بجے بند ہو جانا تھا۔ لو پیارے! دیار بکر! اب تو مشکل ہے لیکن اگلی بار استنبول آ کر سابقہ کھاتا صاف کردوں گا۔ یقین رکھو! ضرور کر دوں گا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved