استاذی واستاذ العلماء علامہ مفتی محمد عبدالقیوم ہزاروی اپنے عہد کی ایک منفرد وممتاز اور جامعِ کمالات شخصیت تھے۔ آپ اَسلاف کے ایثار‘ اخلاص‘ استقامت وعزیمت‘ وَرَع وتقویٰ کاکامل مظہر‘ ان کی علمی وراثت کے امین‘ معاصرین میں اپنی ہمہ جہت شخصیت کی وجہ سے ممتاز اور اپنے اَخلاف کے لیے اُسوہ وقُدوہ اور مَنارۂ نور ہیں۔
ہر علم اور ہر فن پر آپ کو کامل عبور اور مَلکۂ تامّہ حاصل تھا۔ آپ علومِ اسلامیہ وعلومِ عربیہ کے بے مثال معلّم تھے‘ تدریس اور فیض رسانی کا ملکہ قدرت نے آپ کو ودیعت فرمایا تھا‘ آپ علومِ دینیہ میں جامع معقول و منقول تھے۔ اسی لیے تمام علمی تحقیقات‘ نِکات اور مشکل مقامات آپ کو اَزبر تھے اور آپ علومِ عربیہ واسلامیہ کی تدریس کے شہسوار تھے۔ ایسا نابغۂ روزگار‘ بیہقی دوراں‘ وحید العصر اور فرید الدہر شخص اب شاید ہی نظر آئے جس نے علمی مسابقت کے میدان میں ہر جانب اپنی کامیابی کے جھنڈے گاڑے ہوں اور دور دور تک کوئی ان کی گردِ راہ کو بھی پانے والا نظر نہ آئے جو بیک وقت قرآن‘ حدیث‘ فقہ اور جملہ علومِ عربیہ‘ معقول ومنقول میں مہارت تامّہ رکھتا ہو۔ حضرت مفتی صاحب اپنی حیاتِ مبارکہ میں جن علمی رفعتوں اور مناصبِ جلیلہ تک پہنچے‘ ان میں سے کچھ بھی موروثی نہ تھا‘ ایسا نہیں کہ آپ کو سجی سجائی مسند مل گئی ہو اور زیبِ سجادہ بن گئے ہوں‘ دولت وثروت کے انبار اور اہلِ عقیدت وارادت کا جمِ غفیر آپ کو ورثے میں مل گیا ہو‘ بلکہ آپ اُن لوگوں میں سے تھے جو اپنی دنیا آپ تعمیر کرتے ہیں‘ یعنی انہوں نے اپنا مقام خود بنایا۔ حضرت مفتی صاحب ان لوگوں میں سے نہیں تھے جو مناصب کے متمنّی وطلبگار ہوتے ہیں‘ بلکہ آپ ان نادر روزگار ہستیوں میں سے تھے جن سے مناصب کو عزت ملتی ہے‘ آپ جس علمی مجلس میں رونق افروز ہوتے‘ اُس پر چھا جاتے۔
حضرت مفتی صاحب اپنے تلامذہ کے روحانی باپ‘ مربی اور محسن تھے‘ اکثر پیار سے اپنے شاگرد کو بھائی جان کہہ کر مخاطب کرتے۔ اعلیٰ مشینیں بنانا‘ فن پارے تخلیق کرنا‘ بلند وبالا عمارات اور یادگاریں تعمیر کرنا اور تیشہ فرہاد سے جوئے شیر کشید کرنا آسان ہے‘ باکمال انسان بنانا ایک مشکل ترین فن ہے۔ انسانی شخصیت میں فطرت کے ودیعت کردہ جوہرِ مستور کو دریافت کر کے اسے نکھارنا اور ایک پیکرِ کمال میں ڈھالنا‘ ایک لاشیٔ کو وجود کامل بنا دینا‘ ابنِ آدم کو انسان بنا دینا‘ الغرض انسانیت سازی اور شخصیت سازی یہ سب سے مشکل ترین فن ہے‘ دراصل یہی اعجازِ نبوت‘ فیضانِ نبوت اور وراثتِ نبوت ہے‘ مفتی صاحب کو قدرت نے یہ ملکہ ودیعت فرمایا تھا۔ یہی تربیتِ نبوت تھی جس نے گڈریوں‘ بدوئوں‘ وحشی انسانوں اور صحرا کے مکینوں کو رہتی دنیا تک کیلئے علم‘ تہذیب‘ اَخلاق‘ عدالت‘ صداقت‘ شجاعت‘ دیانت وامانت‘ فیاضی وسخاوت‘ زُہد وتقویٰ‘ آدابِ جہاں گیری وجہانبانی وحکمرانی کا امام بنا دیا۔ حضرت مفتی صاحب اسی وراثتِ نبوت کے امین تھے‘ وہ زر پرست وزر خرید نہیں تھے‘ بلکہ انسانیت کے ہیرے تراشنے والے جوہری تھے۔ وہ جوہرِ انسانیت کے عقیقوں اور ہیروں کو ریت کے ٹیلوں میں سے ڈھونڈ نکالتے اور ان کی تراش خراش کر کے قابلِ رشک بنا دیتے۔
حضرت مفتی صاحب کا اندازِ تربیت ایسا حکیمانہ تھا کہ آپ ایک جانب اپنے تلامذہ کی حوصلہ افزائی فرماتے تھے‘ ان کو بلند ہمتی کا درس دیتے تھے‘ جن طبقات سے انہیں علمی واعتقادی میدان میں مقابلہ درپیش تھا‘ ان کی افرادی قوت‘ اداروں کی ظاہری وجاہت‘ ظاہری اسباب کی فراوانی‘ اہلِ اقتدار سے قربت کے مادّی مظاہر کو اپنے تلامذہ کی ہمت اور عزیمت واستقلال کو قائم رکھنے کیلئے قرآن کی آیات مبارکہ کے حوالے سے بے توقیر وبے مایہ قرار دیتے تھے۔ لیکن اس کیساتھ وہ انہیں ان کی علمی نارسائی‘ عملی کوتاہی اور بشری کمزوریوں کا بھی احساس دلاتے رہتے تھے تاکہ وہ فریبِ نفس اور عُجبِ نفس کے مہلک مرض میں مبتلا نہ ہو جائیں۔ الغرض وہ بہت بڑے ماہرِ نفسیات اور نبّاضِ فطرت بھی تھے۔ مفتی صاحب بلاشبہ عصبیتِ جاہلیہ کے داعی ومبلغ نہیں تھے جس کی تعریف رسول اللہﷺ نے یہ بیان فرمائی: ''عصبیت یہ ہے کہ تم حق وباطل اور صواب وخطا کی تمیز کیے بغیر ظلم پر اپنی قوم کے حامی وناصر بن جاؤ‘‘ (ابوداؤد: 5119)۔ عصبیتِ جاہلیہ سے مراد کَٹ حُجّت‘ اَڑیل اور ضدی بن کر جانتے بوجھتے حق کا انکار کرنا ہے۔ مزید یہ کہ آپ ''تَصَلُّبْ فِی الدِّیْن‘‘ کی علامت تھے اور یہی جذبۂ صادقہ اپنے تلامذہ کے قلوب واَذہان میں راسخ کرتے تھے تاکہ بڑی سے بڑی ترغیب یا ترہیب‘ ہوائے نفس اور خوف سے ان کے پائے ثبات میں لغزش نہ آئے‘ وہ احقاقِ حق اور ابطالِ باطل کا فریضہ ادا کرتے رہیں۔ حضرت مفتی صاحب اپنے عہد کے ان لوگوں میں سے تھے‘ جو نہ صرف حق شناس‘ حق گو‘ حق پر ڈٹ جانیوالے‘ حق پر مر مٹنے والے بلکہ معیارِ حق تھے۔
حضرت مفتی صاحب کے اَخلاف‘ اولادِ امجاد اور تلامذہ کے علاوہ ان کی دو عظیم یادگاریں ہیں: (1) جامعہ نظامیہ رضویہ لاہور وشیخوپورہ کمپلیکس‘ (2) تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان۔ ان دونوں اداروں کی تشکیل وتعمیر پر انہوں نے اپنے شباب اور عمرِ عزیز کا ایک ایک لمحہ صَرف کر دیا۔ آپ بعد فجر تا عشاء ادارے ہی میں رہتے‘ اس لیے انکی خَلوت وجَلوت سب کے سامنے تھی۔ میں نے سیرتِ حضرت صدیق اکبرؓ میں پڑھا: جب انہوں نے حضرت عمر فاروقؓ کو اپنا جانشین بنانے کا ارادہ فرمایا تو ان کے بارے میں اکابر صحابۂ کرام کی آراء جاننا چاہیں‘ جب آپؓ نے حضرت عثمانؓ سے ان کی بابت دریافت کیا‘ تو انہوں نے کہا: ''عمر کا باطن اُن کے ظاہر سے اچھا ہے‘‘۔ میں بھی الحمدللہ شرحِ صدر سے کہہ سکتا ہوں: ''حضرت مفتی صاحب کا باطن ان کے ظاہر سے بھی زیادہ درخشاں وتابندہ تھا‘‘ اور سب جانتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو چہرہ بھی نورانی عطا کیا تھا۔ آپ دفتری ضابطوں کے عادی نہ تھے‘ لیکن جب انہوں نے تنظیم المدارس اہلسنت پاکستان کی ذمہ داری سنبھالی تو نئے معیارات قائم کیے۔ الحمدللہ! اب جامعہ نظامیہ رضویہ پاکستان میں اہلسنّت کا سب سے بڑا ادارہ ہے اور تقریباً پانچ ہزار طلبہ وطالبات اس کے نیٹ ورک میں زیر تعلیم ہیں۔
امامِ احمد رضا خان قادریؒ کا نام لینے والے‘ اَعراس منانے والے‘ ان کے مسلک پر تصلُّب کا دم بھرنے والے تو بہت ملیں گے‘ لیکن رضوی مشن کی جو عظیم خدمت آپ نے انجام دی ہے‘ وہ اپنی مثال آپ ہے‘ اس میں آپ کا کوئی ثانی اور مقابل نہیں ہے۔ آپ نے ''فتاویٰ رضویہ‘‘ کو تخریج و تحقیق اور جدید اسلوب کے مطابق 33 مجلّدات میں مُدوّن کرکے عصرِ حاضر سے ہم آہنگ کر دیا اور رہتی دنیا تک اب یہ شاہکار لائبریریوں کی زینت بنا رہے گا اور موافق ومخالف اہلِ علم اس سے صرفِ نظر نہ کر پائیں گے۔ آپ نے ''الدولۃ المکیۃ بالمادّۃ الغیبیۃ اور انباء الحی‘‘ کو جدید عربی اسلوب پر مُدوّن کرکے امامِ اہلسنت کو بین الاقوامی وبین الاسلامی علمی شخصیت کی حیثیت سے منوایا۔ اب ''دیدۂ کور‘‘ کے سوا عرب وعجم کے کسی بڑے سے بڑے صاحبِ علم وتحقیق کیلئے اعلیٰ حضرت کی علمی وجاہت کو تسلیم کیے بغیر چارہ نہیں۔ حضرت قبلہ مفتی صاحب کی زندگی ہی میں ان کا علمی و دعوتی صدقۂ جاریہ بین الاقوامی سطح پر پھیل چکا تھا۔ ان کے تلامذہ نے جابجا ادارے قائم کیے‘ مساجد بنائیں‘ دعوت وارشاد‘ تدریس‘ تصنیف وتالیف‘ خطابت اور جدید میڈیا کو ابلاغِ دین کیلئے مہارت کے ساتھ استعمال کیا‘ یہ تاقیامت ان کیلئے صدقۂ جاریہ رہے گا۔ حضرت مفتی صاحب کی زندگی کو اگر ہم الفاظ میں سمیٹ کر کوئی عنوان دینا چاہیں تو وہ فقط یہی ہے: ''کام‘ کام اور صرف کام‘‘۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اس راز کو سمجھنے اور اس پر کاربند رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ ان کے صاحبزادگان ان کے دینی وعلمی مشن کو نہ صرف کامیابی کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں‘ بلکہ ان کے ادارے روز بروز ترقی کی منزلیں طے کر رہے ہیں اور اس سے یقینا مفتی صاحب کی روح کو تسکین مل رہی ہو گی۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved