تحریر : بابر اعوان تاریخ اشاعت     30-08-2024

ایٹمی طاقت کی خارجہ پالیسی

تاجروں کے نمائندے غیرنمائندہ حکومت کی پالیسی سازی پر غیرمطمئن ہیں۔ ان کے علاوہ سمال ٹریڈرز ہوں‘ میڈیم انٹرپرائز والے ہوں یا چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے بڑے تاجران‘ سب کہتے ہیں ان کے کاروبار شٹ ڈاؤن کے سپائرل میں پھنس چکے ہیں۔ اسی لیے پورے پاکستان میں تاریخ کا سب سے بڑا شٹر ڈاؤن ہوا۔ جوڑیا مارکیٹ کراچی سے لے کر سکردو کے بازار تک۔ اسی بے کار نظام کے سابق نگران وزیر اور چیمبر لیڈر نے اپنی تین فیکٹریاں بند کرکے کہا کہ ان پالیسیوں کے ساتھ پاکستان میں فیکٹری نہیں چلائی جا سکتی۔ اسلام آباد کے معتبر حلقے کہتے ہیں کہ ہر محکمے سے استعفیٰ دے کر ملک سے باہر جانے والے ینگ افسروں کی لائنیں لگی ہوئی ہیں‘ جنہیں کسی نہ کسی بہانے روکا اور دبایا جا رہا ہے۔ دوسری جانب سرکار PWD جیسے وفاق کے بڑے ادارے اور ان سے منسلک ذیلی ڈیپارٹمنٹ بھی بندکیے جا رہی ہے۔ اس طرح کے بند ہونے والے اداروں کے ملازمین کو ملک کی موجودہ مالی صورتحال میں آئرن ہینڈ شیک مل سکتا ہے‘ گولڈن ہینڈ شیک ہرگز نہیں۔ سرکاری ملازمین بھی شہرِ اقتدار کی سڑکوں پر آچکے ہیں۔ پنجاب کے بچوں کو دودھ پلانے والا منصوبہ بھی رول بیک ہوا۔
اس سال ایک زرعی ملک میں کپاس کے کسانوں کا حشر نشر پھر گیا۔ کاٹن کی جو گانٹھ کسان کو گھر میں آٹھ ہزار روپے کی پڑی‘ اسے مجبور کیا گیا کہ وہ گانٹھ چھ ہزار کے سرکاری نرخ پر فروخت کرے۔ غیر کاشتکار‘ غیر زمیندار‘ غیر دیہاتی‘ بینکوں کے قرض پر پلنے والے بابو اور ان کی اولادیں لفظ کسان اور محکمہ زراعت سے آگے ایگریکلچر کے بارے میں سفید کاغذ کی طرح کورے ہیں۔ شہرِ اقتدار کے موقر لوگ بتاتے ہیں کہ آنے والے ایک سال میں 10 ملین ذہین‘ پڑھے لکھے بچے ملک سے باہر بھاگنے کی تیاریوں میں ہیں۔ اچھی ایجوکیشن‘ اچھی جاب‘ اچھا لائف پارٹنر‘ اچھا گھر‘ اچھی ٹرانسپورٹ‘ بہتر علاج اور سب سے بڑھ کر ریاستی ملازموں اور سرکاری اداروں کی جانب سے عزت دارانہ سلوک۔ یہ سب اَپر مڈل کلا س‘ مڈل کلاس اور لوئر مڈل کلاس کے بچوں کے لیے ڈراؤنے خواب بنا دیے گئے۔ صرف سوا یا ڈیڑھ ملین ایلیٹ مافیا کے بچے ان سہولتوں کے حقدار ٹھہرے ہیں۔ سرکاری خزانے کی جیب ہے اور ایلیٹ مافیا کے بے ر حم ہاتھ۔
رواں ہفتے بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں جو کچھ شروع ہوا‘ وہ سب کی آنکھوں کے سامنے ہے۔ پاکستان ایک بار پھر دہشت گردی کے حوالے سے بین الاقوامی شہ سرخیوں میں آگیا جس کا خوفزدہ کرنے والا پہلو یہ ہے کہ دنیا کے وہ سارے مغربی ممالک جو پاکستان کو دہشت گردی کی ایکسپورٹ کے طعنے دیتے ہیں‘ ان کا ایک سطری بیانیہ پھر سامنے آیا۔ وہی بیانیہ جو 1979ء میں چارلی وِلسن وار سے شروع ہو کر اگست 2024ء تک یوں جاری ہے ''دہشت گردی کی جنگ میں ہم پاکستانی عوام کے ساتھ ہیں‘‘۔ ان ممالک نے پاکستانی عوام کے ساتھ معاشی شراکت داری کرنے‘ جمہوری‘ سماجی اور آئینی بالادستی کے لیے پاکستانی عوام کا ساتھ دینے کا کبھی ذکرتک نہیں کیا۔ جس کی صاف وجہ امریکی اسٹیبلشمنٹ کے نمائندے کی لکھی ہوئی کتاب No exit from Pakistan پڑھ کر سمجھ میں آتی ہے۔ ایک اہلِ دل نے گزشتہ تین سال پاکستان کی فارن پالیسی کا مختصر مگر جامع تجزیاتی مطالعہ کیا۔ جس کا خلاصہ تین نکات میں یہ ہے۔
ایٹمی طاقت کی خارجہ پالیسی کا نکتہ نمبر ایک: یہ نکتہ کشکول سے شروع ہو کر میگا کشکول پر جا پہنچا ہے۔ بلکہ یوں کہیے خودی کی سرشاری کے بجائے عالمی ہزیمت کا یہ سفر مستقل عالمی بھکاری کی بیماری تک جاری ہے۔ اس خارجہ پالیسی کا پہلا لینڈ مارک کہتا ہے کہ ہم مزید قرضہ لیں کس ادارے اور کس ملک سے۔ جس کا بڑا ثبوت آئی ایم ایف ایگزیکٹو بورڈ سے مزید سات ارب ڈالر کے قرضے کی منظوری کے لیے ہمارا Financing Gap خطرناک سے آگے بڑھ کر تشویشناک درجے پر ہے۔ آئی ایم ایف کے ذرائع کہتے ہیں پاکستان دو سے تین ارب ڈالر کے Financing Gapکو ابھی تک پورا نہیں کر پایا۔ اسی دوران معاشی امور کی وزارت نے انکشاف کا پٹاخہ پھوڑ دیا کہ سعودی عرب اور چین سے نو ارب ڈالر کے سیف ڈیپازٹ سب کی کوششوں کے باوجود رول اوور نہیں ہو سکے ہیں۔ صرف گزرے ہوئے مہینے میں پاکستانی حکومت نے روزانہ تقریباً چار ارب روپے سے زیادہ کا قرض لیا۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ آخر اتنا قرض کس بلیک ہول میں ڈالا جا رہا ہے۔ جہاں سے عوام کو ریلیف کے بجائے ہر روز نئی تکلیف کی خبر سنائی جاتی ہے۔ آپ اسے معاشی بحالی کہنا چاہتے ہیں تو خوشی سے کہیں‘ آپ کو کوئی نہیں روک سکتا۔
ایٹمی طاقت کی خارجہ پالیسی کا نکتہ نمبردو: ہم مزید قرض لیں کہاں سے‘ کیونکہ ہمارے دوست ممالک ہمیں قرض دے دے کر تھک چکے ہیں بلکہ قرض کی صورت میں ہماری حرام خوری سے تنگ آچکے ہیں۔ سعودی عرب کے سامنے ہم منمنائے ''خُبز لازم‘‘ ہیں‘ جس کا آسان پنجابی ترجمہ ہے ''بھاہ جی! اَسی تہاڈے کولوں روٹی ضرور کھانڑی اے‘‘۔ ایٹمی چھوڑیے‘ کیا آپ نے کسی خود مختار یا آزاد ملک کے چیف ایگزیکٹو کو غیرملکی ماسٹرز کے سامنے یہ جملہ کہتے ہوئے سنا ''ہم نے روٹی کھانی ہے‘‘۔
ایٹمی طاقت کی خارجہ پالیسی کا نکتہ نمبر تین: پاکستان میں ڈالر‘ پاؤنڈ‘ ریال‘ درہم‘ یوآن کے انبار لگے ہیں۔ ملیں ریشم کے ڈھیر بُن رہی ہیں‘ کسان کے گھر خوشحالی ناچ رہی ہے۔ مزدور کو تنخواہ آئی پی پیز کی طرح دنیا کی پانچ کرنسیوں میں ملتی ہے۔ لیکن کچھ ڈیجیٹل دہشت گرد‘ انتشار پسند اور وطن دشمن‘ بھوک بدحالی مہنگائی کا جھوٹا پروپیگنڈا کرکے مایوسی پھیلا رہے ہیں۔
چلئے مقامی بات چھوڑیں‘ ذرا غزہ چلتے ہیں۔ ایک فلسطینی بچی نے عربی زبان میں امتِ مسلمہ کو مخاطب کرکے ایک نظم پڑھی جو وائرل ہے۔ عنوان رکھا :
''مَن یشتری‘‘ ... کون خریدے گا؟
''ہم تمہیں فروخت کرنے کے لیے تیار ہیں مگر خریدے گا کون؟ کون ہم سے اس خائن امت کے غداروں کو خریدے گا؟ کون ہم سے ان بزدل گندگی کے انباروں کو خریدے گا؟ یہ جو امت کے لیے عار ہیں جن کی خیانت زبان زد حال معروف ہے۔ ہم تمہاری قیمت لگائیں گے مگر کس کے لیے‘ تم تو رکھوالی کرنے والے حفاظتی کتوں کے جیسے بھی نہیں جن کی قیمت لگائی جا سکے۔ نہ ہی تم بار برداری کے لیے استعمال ہونے والے گدھے اور خچروں کی طرح ہو۔ نہ تم کھائے جانے والی مرغیاں ہو نہ وہ چوزے‘ جنہیں پال کر تیار کیا جاتا ہے۔ تم پہننے کے لیے جوتے نہیں ہو اور نہ ہی بھروسے کے لائق غلام ہو۔ ہم تمہیں بیچنا چاہتے ہیں لیکن تمہیں کون خریدے گا‘ ہر گز نہیں ہے تمہارا کوئی خریدار۔ بخدا! تم اگر ہمیں عزت دینا چاہتے ہو تو جان لو! تمہارے دور رہنے میں ہی ہماری عزت ہے۔ اے امت کے غدارو! اگر تم سب خودکشی کر لو تو وطن تمہارا بہت شکر گزار ہوگا‘‘۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved