تحریر : خالد مسعود خان تاریخ اشاعت     31-08-2024

صورتحال یہ ہے کہ صورتحال ٹھیک نہیں ہے

اللہ اس ملک پر اپنا کرم فرمائے مگر فی الحال صورتحال کسی طرف سے بھی تسلی بخش دکھائی نہیں دے رہی۔ ایسی بے برکتی ہے کہ الامان الحفیظ۔ ہر طرف خرابی ہی خرابی ہے حتیٰ کہ اب تو قدرت بھی ہمارے ساتھ مناسب سلوک نہیں کر رہی۔ وزیراعلیٰ پنجاب نے کہا کہ وہ صوبے کے عوامی مقامات پر وائی فائی سروس فری مہیا کریں گی جواباً انٹرنیٹ سروس نے سرے سے ہی ہاتھ کھڑے کر دیے ہیں۔ مفت تو رہی ایک طرف‘ ادائیگی والی وائی فائی بھی پکڑائی نہیں دے رہی۔ ہر ذمہ دار شخص ایک سے بڑھ کر ایک غیر ذمہ دار بیان دے رہا ہے۔ ظاہر ہے غلط بیانی کرنا کونسا آسان کام ہے۔
مبینہ طور پر 34ارب روپے لگا کر فائروال کا بندوبست کیا ہے۔ اس عظیم رقم کے فوائد بارے آئی ٹی اور سوشل میڈیا کے باعلم ایک شخص سے پوچھا تو وہ کہنے لگا: جب میں اس ملک میں حکمرانوں کی ترجیحات کو دیکھتا ہوں تو مجھے ہنسی آتی ہے اور جب میں ان کی کارکردگی دیکھتا ہوں تو مجھے رونا آتا ہے۔ ملک کی مالی حالت سب کے سامنے ہے‘ ٹکے ٹکے کیلئے ترلے لیے جا رہے ہیں۔ عربوں اور ہمسایوں سے ادھار پر لیے گئے پیسوں کی مدتِ واپسی میں توسیع کیلئے ناک رگڑے جا رہے ہیں۔ پچھلے ادھار کھا کر برابر کیے جا چکے ہیں اور آئی ایم ایف اگلی قسط کیلئے خزانے میں بطور ضمانت مزید رقم رکھنے کا مطالبہ کر رہا ہے۔ ایسے میں فائروال کا ٹھرک پورا کرنا لکھنؤ کے دیوالیہ نوابوں سے منسوب قصے کہانیوں کی یاد تازہ کر رہا ہے۔ وہ دوست کہنے لگا: مبلغ 34ارب روپے لگا کر جو فائروال لگائی گئی ہے اسکی کل اوقات اتنی ہے کہ اگر آپ اپنے وٹس ایپ اکاؤنٹ کی سیٹنگز میں جا کر پرائیویسی کو کھولیں‘ اس میں نیچے ایڈوانسڈ کا آپشن ہے۔ آپ اس میں جائیں اور پروٹیکٹ آئی پی ایڈریس اِن کالز اور ڈس ایبل لنک پری ویو کو ٹک کر دیں۔ بھاڑ میں گئی فائروال اور چولہے میں گئے 34 ارب روپے۔
سوشل میڈیا کنٹرول پر کمر کسنے کے بجائے کیا ہی بہتر ہوتا کہ حکمران سوشل میڈیا پر اٹھائے جانے والے جائز معاملات حل کرنے کا بندوبست کرتے۔ لیکن حکمرانوں کا مسئلہ یہی ہے کہ وہ تنقید برداشت نہیں کرتے اور ہر نقاد کو نمونۂ عبرت بنانے پر تل جاتے ہیں۔ یہ کسی خاص حکمران کا نہیں‘ تیسری دنیا کے ہر حکمران کا شوق ہے۔ اب فائروال لگانے والوں میں اور اس میں سوراخ کرنے والوں میں ایک نہ ختم ہونے والا ملاکھڑا شروع ہو گا۔ بالکل ویسے ہی جیسے وائرس اور اینٹی وائرس بنانے والوں میں ایک لامتناہی مقابلہ چل رہا ہے۔ تالا بنانے والے ہوشیار ہیں تو تالا کھولنے والے بھی اپنے فن میں کم مشاق نہیں ہوتے۔
سرکار نے وائی فائی فری کرنے کا اعلان کیا تو انٹرنیٹ کا بھٹہ بٹھا دیا۔ الیکشن میں دو سو سے تین سو یونٹ بجلی مفت دینے کا وعدہ کیا تو بجلی کی قیمت کو آسمان پر پہنچا دیا۔ تعلیم کو ہر بچے تک پہنچانے کے عزم کا اظہار کیا تو سارے سرکاری سکول برائے فروخت لگا دیے۔ ملک کو آئی ٹی ایکسپورٹ میں ہمسائے کے ہم پلہ بنانے کا اعلان کیا تو انٹرنیٹ کا بیڑہ غرق کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا ہے کہ ایک معروف فری لانسر فورم نے سب کو متنبہ کیا ہے کہ وہ اپنا آئی ٹی کا کام پاکستان میں کام کرنے والوں کے سپرد نہ کریں کہ اس ملک میں انٹرنیٹ ہی نہیں چل رہا تو آپ کا کام کوئی کیسے کر سکتا ہے۔
زراعت ایک ایسا شعبہ ہے جس نے برُے ترین حالات میں بھی اس ملک کو کسی حد تک سہارا دیے رکھا ہے اور بقول ہمارے ایک ماہر زراعت دوست کے‘ یہ ملک کسی خونیں انقلاب سے صرف اس لیے بچا ہوا تھا کہ غریب کو بہرحال کسی نہ کسی صورت روٹی ضرور مل جاتی تھی‘ لیکن اب وہ صورتحال بھی نہیں رہی۔ زرعی پیداوار کو بڑھا کر ملک میں سبز انقلاب لانے کے دعویداروں نے گزشتہ گندم کے سیزن میں گندم کے کاشتکار کے ساتھ جو کیا ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے اندازہ ہے کہ اس سال گندم کی فصل کا کاشتہ رقبہ گزشتہ سال کی نسبت کم ہو گا اور سرکار‘ جس کے پاس خود پیسے نہیں ہیں‘ گندم کی درآمد پر اربوں ڈالر خرچ کرے گی۔ بصورت دیگر یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ بھوک حد سے گزر جائے تو خونیں انقلاب کی بنیاد بنتی ہے۔
حکمرانوں کی ترجیحات ایک ہی نکتے کے گرد گھوم رہی ہیں کہ کسی نہ کسی طرح گلے سے لپٹے ہوئے ایک شخص سے جان چھڑوائی جائے۔ ملک خون کے چھینٹوں سے سرخ ہو رہا ہے۔ نہ کچے کے ڈاکو قابو آ رہے ہیں اور نہ پہاڑوں سے آنے والوں کا کوئی توڑ نکالا جا رہا ہے۔ اوپر سے پکے کے ڈاکو سارا ملک لوٹ کر کھانے میں مصروف ہیں۔ پہلے بلوچستان کا وہ علاقہ نوگو ایریا تھا جو بلوچ اکثریت پر مشتمل تھا‘ اب وہ علاقہ بھی ممنوعہ خطہ بنتا جا رہا ہے جو کل تک پُرامن اور محفوظ سمجھا جاتا تھا۔ پشتون اکثریت کا علاقہ شناختی کارڈ دیکھ کر پنجاب کے رہائشیوں کو بسوں سے اتار کر قتل کرنے کے واقعات سے کوسوں دور تھا لیکن اس بار موسیٰ خیل میں 23محنت کشوں کے قتل نے یہ تسلی بھی ہوا کر دی کہ بلوچستان کا پشتون علاقہ لسانی بنیادوں پر قتل وغارت سے محفوظ ومامون ہے۔ اوپر سے وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ یہ سارا معاملہ ایک ایس ایچ او کی مار ہے۔نقوی صاحب !اگر یہ دہشت گرد ایک ایس ایچ او کی ہی مار ہیں تو ریاست اب تک خوار و خستہ کیوں ہو رہی ہے؟ آخر آپ نے اس نابغہ ایس ایچ او کو کس کام کے لیے بچا کر رکھا ہوا ہے ؟
گندم کی فصل کے ساتھ جو ہوا وہ صرف حکومتی بدانتظامی‘ ہٹ دھرمی‘ نالائقی اور نااہلی کا نہایت ہی اعلیٰ نمونہ تھا۔ کاشتکار کی کمر گندم کی فصل والے جھٹکے سے سنبھل نہ پائی تھی کہ مکئی کی فصل نے رہی سہی کسر نکال دی۔ مکئی کا خرچہ علاوہ زمین کے ٹھیکے کے ایک لاکھ تیس ہزار فی ایکڑ سے زائد ہے جبکہ مکئی کا ریٹ انیس سو روپے من تھا۔ جن کاشتکاروں کی فصل کی پیداوار سومن فی ایکڑ تھی ان کا صرف خرچہ پورا ہوا لیکن پچھیتی فصل والے کاشتکار کی پیداوار بہت کم ہوئی اور وہ رُل گئے۔ چاول کے کاشتکار ہائبرڈ چاول کی سال میں دو فصلیں لے رہے تھے۔ مارچ میں کاشتہ فصل کی ساری فلاورنگ مئی‘ جون اور جولائی کی شدید گرمی کے باعث جھڑ گئی۔ جب فلاورنگ ہی نہ ہو تو پیداوار کہاں سے آنی تھی۔ حکومت نے کپاس کی فصل کو دوبارہ پہلے والے مقام پر لانے کے بہت دعوے کیے مگر محکمہ زراعت اور اس سے متعلقہ دیگر محکموں کے سرکاری اہلکاروں اور افسروں کے سارے تخمینے سرے سے غلط تھے‘ اوپر سے موسم ایسا بے وفا ثابت ہوا کہ جو کپاس کاشت ہوئی تھی وہ بھی تباہ ہو گئی ہے۔ جون اور جولائی میں ایسی شدید گرمی پڑی کہ کپاس کے پودے اس کے سامنے ہتھیار پھینک گئے۔ تباہ کن شیڈنگ ہوئی اور ٹینڈوں کی اکثریت قبل از وقت گر گئی۔ رہی سہی کسر حالیہ بارشوں نے نکال دی ہے۔
جس ملک میں چند سال قبل ایک کروڑ چالیس لاکھ گانٹھ کپاس پیدا ہوتی تھی وہاں اس سال کا تخمینہ اسی لاکھ گانٹھ تھا لیکن صورتحال یہ ہے کہ اگر اس سال بمشکل چالیس لاکھ گانٹھیں بھی پیدا ہو جائیں تو اسے غنیمت جانیے گا۔ اللہ کرے کہ میرے اندازے غلط ہوں مگر حالیہ صورتحال کو دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ سال زراعت کے حوالے سے بہت خراب سال ہو گا۔ ظاہر ہے کہ اس کا پہلا شکار تو کاشتکار ہو گا لیکن یہ بات ذہن میں رہے کہ زراعت کی تباہی کے اثرات صرف کاشتکار تک محدود نہیں رہتے بلکہ بہت نیچے تک آتے ہیں۔ اگر حالات یونہی رہے تو عام آدمی سے لے کر زرعی پیداوار سے منسلک انڈسٹری تک کا حال‘ جو پہلے ہی بدتر ہے‘ بدترین ہو جائے گا۔ طلب اور رسد میں عدم توازن قیمتوں پر براہِ راست اثر انداز ہوتا ہے۔ آنے والے دنوں میں اشیائے خورونوش کی قیمتیں مزید اوپر چلی جائیں گی جس کا نتیجہ مہنگائی اور عام آدمی کی بربادی کے علاوہ اور کچھ نہیں۔ المختصر‘ صورتِ حال یہ ہے کہ صورتِ حال بالکل ٹھیک نہیں ہے۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved