سید بابر علی صاحب کو تو آپ جانتے ہوں گے۔ اگر نہیں تو اُن کی خود نوشت سوانح حیات ضرور پڑھیں جو انگریزی میں ہے اور اردو میں ''کمالِ ہم نشیں‘‘ کے عنوان سے بھی دستیاب ہے۔ ہماری زندگی کی پونجی میں کئی بڑے لوگوں سے ملاقاتوں سے بڑا انعام شاید ہی کوئی اور ہو سکے۔ ہمارے نزدیک انسانی عظمت کا معیار ذرا مختلف ہے جس میں علم وتدبر‘ شخصی جدوجہد‘ ایثار‘ انسان دوستی اور بلاغرض خدمتِ عامہ کردار کا حصہ ہیں۔ قریبی لوگ تو انہیں میاں صاحب کہتے ہیں لیکن جب کبھی اُن سے ملاقات کی درخواست ان کے سیکرٹری کے ذریعے کی تو ہمیشہ شاہ صاحب کہہ کر بات کی۔ نہ صرف ذات‘ بلکہ دل کے بھی شاہ ہیں۔ بائیس سال پہلے لمز میں جانے تک نام تو سُن رکھا تھا‘ مگر کبھی ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ بس اتنا معلوم تھا کہ وہ ملک کے بڑے صنعتکار ہیں۔ لاہور کے معتبر ترین گھرانوں میں سے ایک سے اُن کا تعلق ہے‘ اور جامعہ لمز کے بانی ہیں۔
پہلی بار جب وہاں کی انتظامیہ نے ملازمت کے لیے میرے لیکچر کا اہتمام کیا تو تب اُس چھوٹی سی یونیورسٹی کی خوبصورتی‘ تنظیم‘ ترتیب اور سہولتیں دیکھ کر حیران ہوا کہ ایسے خوابوں کی تعبیر ہمارے جیسے ملکوں میں کیسے ممکن ہو سکتی ہے۔ چند ماہ بعد تقرری کا پروانہ ملا اور پھر اگلی دو دہائیوں سے زیادہ ہم لاہور اور لمز کے ہوکر رہ گئے۔ آسودگی‘ محبت اور یگانگت کے ماحول میں تحقیقی اور تدریسی خدمات انجام دینے کا شرف حاصل رہا۔ اس دوران سید بابر علی صاحب سے بے شمار ملاقاتیں رہیں‘ کبھی یونیورسٹی کے کسی اجلاس میں‘ کانفرنس یا سیمینار کے لیے تشریف لاتے تو موقع کی مناسبت سے سلام دعا ہو جاتی‘ مگر اکثر ان کے دفتر میں ہر چند ماہ بعد یہ اعزاز حاصل ہوتا رہتا۔ اُن کی شفقت کہ کبھی انکار نہیں کیا۔ آپ کے لیے یقینا یہ بات حیران کن ہو گی کہ شاہ صاحب کی عمر اس وقت ستانوے برس ہے‘ اور اب بھی روزانہ اپنے دفتر تشریف لاتے ہیں۔ کمال کا حافظہ ہے۔ حافظ شیرازی اور سعدی کے اشعار خوبصورت انداز میں سناتے ہیں۔ ہمیشہ اندرون شہر سے منگائی گئی خطائیاں پلیٹ میں رکھتے ہیں‘ کافی کا آرڈر دیتے ہی ناچیز سے ملک کے سیاسی اور سماجی حالات کے بارے سوال کرتے ہیں۔ بات کچھ آگے چلتی تو کبھی افسردہ بھی ہو جاتے‘ اچھے دنوں اور کچھ اچھے ادوار کا ذکر کرتے۔ پھر وہ میری گئی گزری زراعت اور باغبانی کے بارے میں دریافت کرتے اور بڑے شوق اور انہماک سے میری 'کشتِ ویراں‘ کے قصوں سے محظوظ ہوتے جو میں انہیں سناتے ہوئے مبالغہ آرائی کی آمیزیش کی اپنی عادت سے باز نہیں رہتا۔ میرے آواکاڈو کے درختوں کے بارے میں وہ دریافت کرنا نہیں بھولتے۔ ان کی محبت ہے کہ میں اس قابل ہوں کہ ہر سال انہیں اس غیر معروف اور غیر عام پھل کا تحفہ ضرور ارسال کرتا ہوں۔ اور ہر دفعہ ان کی طرف سے شکریے کا پیغام بھی آتا ہے‘ جو اکثر صورتوں میں دیگر مہربانوں کی طرف سے خموشی کی صورت وصول ہوتا ہے۔ گلابوں سے انہیں عمر بھر محبت رہی ہے۔ اپنے دفتر کے بائیں جانب شیشے کی بڑی کھڑکی کے سامنے سینکڑوں قسم کے گلاب کے پھولوں کو وہ دیکھتے رہتے ہیں۔ ایک دفعہ مالی سے پوچھ ہی لیا کہ یہاں گلاب کی کتنی اقسام ہیں۔ کہا کہ ساڑھے تین سو کے قریب‘ یا شاید اس سے بھی زیادہ۔ پودوں کی خوبصورت ترتیب ان کے فطرت سے لگائو اور جمالیاتی مزاج کی عکاسی کرتی ہے۔
اکثر ملاقاتوں میں کوٹ رادھا کشن سے آگے سیداں والا گائوں میں ان کے کھیتوں کے علاوہ گرلز ہائی سکول کی بات بھی ہوتی جو کئی دہائیوں سے انہوں نے وہاں قائم کر رکھا ہے۔ اسی گائوں میں چار مرتبہ مختلف برسوں میں کمیونٹی بیسڈ لرننگ کورس‘ جو ایک عرصہ تک پڑھاتا رہا‘ کے سلسلے میں ان کے ساتھ وہاں جانا ہوا۔ اس ہائی سکول میں اعلیٰ درجے کی تعلیم مفت دی جاتی ہے۔ تعلیم کے سلسلے میں شاہ صاحب کی قومی خدمات کا کبھی موقع ملا تو تفصیل سے ذکر کریں گے۔ یہاں صرف تمہید کے طور پر بات کی ہے۔ اصل مقصد تو اس ملاقات کا ہے جو لمز سے رخصت ہونے سے پہلے اس سال مارچ کے شروع میں کی تھی۔ اس مرتبہ جونہی ان کی بڑی دفتری میز‘ جو کسی بڑے درخت کے تنے سے تراشا ہوا ایک خوبصورت چوبی تختہ ہے‘ کے سامنے کرسی سنبھالی تو ان کا سوال یکسر مختلف تھا۔ فرمایا کہ زندگی کے آخری سال کس طرح گزارنے چاہئیں؟ یہ سوال تو سوچتا ہوں کہ اس درویش کو کرنے کی ضرورت تھی کہ ہم بھی اسی قطار میں کھڑے ہیں جس کی الٹی گنتی شروع ہو چکی ہے۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ اگر یہ احساس اور ایسا شعورِ زندگی کسی کو نصیب ہو جائے تو وہ بہت خوش قسمت ہو گا۔ شاید شاہ صاحب کو سوال کا جواب نہیں بلکہ موضوع پر گفتگو اور مجھے اپنی دانش اور تجربے کی برکتوں سے نوازنا مقصود تھا۔ میں نے تو وہی گھسے پٹے جملے کہے کہ شکر‘ اطمینان‘ سادگی کے ساتھ خوش رہنا چاہیے کہ جو کچھ ہم زندگی کی بھاگ دوڑ اور حرص وطمع کے ماحول میں حاصل کر پائے ہیں‘ وہ سب اُس کی عنایت ہے۔ میری زمین اور کاشتکاری کے بارے میں بھی پوچھا کہ میرے بعد کون سنبھالے گا۔ کیا جواب دے سکتا ہوں کہ بعد والے جانیں اور اُن کا کام‘ ہم نے جو کرنا ہوتا ہے‘ کر سکتے ہیں۔ وہ سب کچھ ہمارے جانے کے ساتھ اوروں کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ ہمارے بعد آنے والوں کے لیے جو ہم جمع کرتے ہیں‘ جائیدادیں بناتے ہیں‘ اس کی قدر نہیں ہوتی۔
شاہ صاحب کچھ بہت اعلیٰ مشورے دیتے ہیں۔ بہت ہی محبت کے ساتھ کہ جو کچھ کمایا ہے‘ بہتر ہے کہ ان لوگوں کے کام آئے جو تعلیم اپنے وسائل سے حاصل نہیں کر سکتے۔ اپنی تعلیم اور تجربے کو کبھی ضائع نہ کرنا‘ پسماندہ سکولوں کے اساتذہ کو تربیت دو‘ طلبہ کو لیکچر دو۔ پھر حکم دیا کہ اتوار کے دن ناشتہ اندرون لاہور بھاٹی گیٹ کے اندر ''نقش سکول‘‘ میں اکٹھے کریں گے‘ ٹھیک دس بجے۔ شاہ صاحب وقت سے پہلے وہاں موجود تھے۔ یہ جگہ ان کی خاندانی حویلی ہے جہاں وہ پیدا ہوئے تھے۔ یہاں اب نقش سکول قائم ہے جہاں ہر عمر کے لوگوں کو روایتی نقاشی‘ فنِ خطاطی اور پینٹنگ کی تعلیم دی جاتی ہے۔ خود تو کچھ نہ کھایا‘ لیکن میرے اور عکس کے پبلشر فہد صاحب کے لیے حلوہ پوری‘ چنے اور چائے منگوائی۔ تقریباً ہر اتوار کو اپنی آبائی حویلی تشریف لاتے ہیں‘ کچھ وقت گزارتے ہیں اور دیگر اداروں کی طرح اس سکول میں بھی ذاتی دلچسپی لیتے ہیں۔ کہنے لگے: ایک دفعہ وہ مراکش گئے اور عربی زبان میں نصائع کا ایک تختہ خوبصورت لکھائی میں دیوار پر سجا دیکھا۔ زبانی ہی ایک ایک لفظ سنایا جو حضرت لقمان علیہ السلام کی نصیحت اپنے بیٹے سے منسوب ہے۔ دہرائے دیتا ہوں: میں نے بہت سے انبیاء علیہم السلام کے ذکر کو پڑھا تو میں نے ان سے آٹھ حکمتیں کشید کیں۔ اگر نماز میں ہو تو اپنے دل کی حفاظت کر‘ اگر لوگوں کی مجلس میں ہو تو اپنی زبان کی حفاظت کر‘ اگر لوگوں کے گھروں میں تو اپنی آنکھوں کی حفاظت کر‘ اگر لوگوں کے کھانے پر ہو تو اپنے معدے کی حفاظت کر۔ دوچیزوں کو ہرگز یاد نہ رکھ۔ لوگوں کی تیرے ساتھ برائی اور لوگوں پر تیرا احسان۔ دوچیزوں کو ہرگز نہ بھول۔ اللہ اور آخرت کے دن کو۔ عربی اور اردو میں یہ تحفہ خوبصورت خطاطی‘ پھول دار حاشیے اور فریم میں ہمیں بھی نصیب ہوا۔
کمالِ ہم نشیں در من اثر کرد
وگرنہ من ہماں خاکم کہ ہستم (سعدی)
''ہم نشیں کے کمال نے مجھ پر بھی اثر کر دیا ورنہ میری ہستی تو محض خاک ہے‘‘۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved