یقین کیجیے کہ برصغیر پاک وہند‘ اپنے ملحقات سمیت دنیا کا مظلوم ترین خطہ ہے۔ براعظم کے مقابلے میں برصغیر‘ یعنی چھوٹا براعظم۔ ایک زمانے میں پاک وہند تک بات محدود رہتی تھی لیکن برصغیر کو اگر تھوڑا سا پھیلا لیا جائے یعنی وہ خطہ جسے دنیا اب جنوبی ایشیا کے نام سے جانتی ہے‘ تو اس پورے علاقے‘ جس میں بھارت‘ پاکستان‘ بنگلہ دیش‘ سری لنکا‘ مالدیپ‘ نیپال‘ بھوٹان اور میانمار شامل ہیں‘ میں ایک مشترکہ صورتحال نظر آتی ہے‘ جس پر ایک ہی لفظ منطبق ہو سکتا ہے: مظلومیت۔ یہ جو مظلومیت کا لفظ استعمال کیا ہے‘ ممکن ہے افریقہ کے کچھ ممالک کچھ معاملات میں بدترہوں‘ لیکن اگر افرادی قوت‘ جغرافیائی محل وقوع‘ آبی اور معدنی وسائل‘ صلاحیت اور سب سے بڑھ کر ذہانت کا جائزہ لیں تو اس خطے کی بدترین مظلومیت کھلی آنکھوں سے سب کو نظر آ سکتی ہے۔
دو ارب چار کروڑ کی آبادی والا یہ خطہ دنیا کی مجموعی آبادی کا 25 فیصد ہے۔ شمالاً جنوباً ہمالیہ سے بحر ہند تک کا یہ علاقہ 20 لاکھ مربع کلومیٹر سے زیادہ کا رقبہ رکھتا ہے۔ اس وسیع رقبے میں پانچ ٹائم زون آتے ہیں۔ 938 افراد فی مربع کلومیٹر کی آبادی کے لحاظ سے یہ دنیا کا گنجان ترین خطہ ہے۔ اگر اس خطے میں موجود آبی وسائل شمار کرنے پڑیں تو سارا کالم اس کی نذر ہو جائے۔ معدنی وسائل بتائے جائیں تو یہ دنیا کی امیر ترین زمینوں میں شمار ہو گا۔ زمین کی زرخیزی دیکھی جائے‘ پیدا ہونے والی فصلیں گنی جائیں‘ ان فصلوں سے ساری دنیا کا استفادہ دیکھا جائے‘ یہاں پیدا ہونے والے پھلوں کے معیار اور اقسام پر بات کی جائے‘ اس خطے میں تجارت کا حجم دیکھا جائے تو حیرت سے انگلیاں دانتوں میں دبی رہ جائیں۔ لیکن ان سب کو ایک طرف چھوڑ دیں۔ بات صرف جنوبی ایشیا کے باشندوں کی صلاحیت‘ ذہانت اور محنت کی ہو‘ تو یہ دنیا بھر پر فائق نظر آئے گی۔ صرف تین ملکوں‘ پاکستان‘ بھارت اور بنگلہ دیش کو لے لیجئے۔ عرب ممالک کی بنجر اور ریتلی زمین کو لہلہاتے باغ بنا دینا کوئی آسان تھا؟ یہ پاکستانیوں ہی کی محنت ہے۔ تجارت اور منسلک شعبوں میں بھارت کے محنت کشوں نے عرب ممالک پر ایسا غلبہ جمایا کہ کوئی اور قوم مقابلہ کرنے کے قابل نہیں۔ پاکستانی ان کے بعد ہیں۔ بنگالی محنت کش اپنے کم نرخوں اور بے چون وچرا محنت کے لیے ان ممالک میں پسندیدہ ہیں۔ پاکستانی اور بھارتی ڈاکٹر امریکہ‘ کینیڈا‘ یورپ اور خلیجی ممالک میں قابل ترین افراد میں شمار ہوتے ہیں۔ دنیا بھر میں آئی ٹی کا کام زورں پر ہے لیکن بھارت نے سب کو مات دے رکھی ہے۔ پاکستان میں بھی آئی ٹی کی برآمدات مسلسل آگے بڑھ رہی ہیں اور بنگلہ دیش میں بھی۔ آئی ٹی کا شعبہ ذہین ترین افراد چاہتا ہے اور اس شعبے میں جنوبی ایشیا کا غلبہ ان لوگوں کی ذہانت کو ظاہر کرتا ہے۔ کاریگروں‘ دستکاروں‘ معماروں کی اتنی اقسام جنوبی ایشیا کے سوا شاید ہی دنیا میں کہیں اور پائی جائیں۔ یہ محض چند مثالیں ہیں جو بات واضح کرنے کیلئے دی گئیں ورنہ ان لوگوں کی ذہانت پر کوئی دلیل قائم کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔
یہ سب جاننے کے بعد اب ذرا یہاں غربت دیکھئے۔ میں ورلڈ بینک کی ایک رپورٹ پڑھ رہا تھا جس میں بتایا گیا کہ جنوبی ایشیا میں 256.24 ملین لوگ ''انتہائی غریب‘‘ ہیں۔ 26 کروڑ لوگ! ان سے زیادہ غریب لوگ صرف افریقہ کے صحرائی علاقے ہی میں بستے ہیں جہاں ہر قسم کے وسائل کا فقدان ہے۔ سو‘ دنیا میں سب سے گنجان آبادی یعنی جنوبی ایشیا کو دنیا کا دوسرا غریب ترین خطہ ہونے کا شرف بھی حاصل ہے۔ یہ بھی ملحوظ رکھئے کہ انتہائی غربت کی یہ تعریف ان لوگوں کیلئے ہے جو ایک دن میں 1.90 ڈالر سے کم میں گزارہ کرتے ہیں۔ اس درجے میں وہ متوسط غریب شامل نہیں جو اس سے کچھ زیادہ رقم میں دن گزارتے ہیں۔ چنانچہ وہی بات سچ نظر آتی ہے جو میں نے کہیں پڑھی تھی کہ دنیا کے 44 فیصدغریب ترین لوگ جنوبی ایشیا میں رہتے ہیں۔ اندازہ کیجیے اس دہری مظلومیت کا۔ انتہائی باوسائل اور انتہائی ذہین لوگ انتہائی غریب ہیں۔ اس سے بڑی مظلومیت اور کیا ہو سکتی ہے؟ میں دکھ سے بھر جاتا ہوں جب جنوبی ایشیا کے ملکوں کی صورتحال دیکھتا ہوں‘ اور ان کی غلامی کی زندگیوں پر نظر ڈالتا ہوں۔ ایک نظر ان کی سیاسی معاشرتی صورتحال اور عملی مسائل پر ڈالیے۔ علاقے میں سب سے بڑا ملک بھارت ہے۔داخلی طور پر اپنی ساری طاقت کے باوجود یہ غیر مستحکم ہو رہا ہے۔ اقلیتوں میں عدم تحفظ عروج پر ہے۔ اسی طرح شمال مشرقی ریاستوں میں عرصے سے آزادی کی تحریکیں چل رہی ہیں۔ اس وقت بھارت کے اپنے تمام ہمسایوں سے تعلقات کشیدہ ہیں۔ پاکستان اور بھارت تو ازلی دشمن ہیں ہی‘ نیپال اور بھوٹان جیسی چھوٹی ہمالیائی ریاستیں بھی بھارت سے منہ موڑ کر چین کی طرف چلی گئی ہیں۔ بحر ہند میں سری لنکا اور مالدیپ بھارت سے نہ صرف تحفظات رکھتے ہیں بلکہ مالدیپ کے صدر تو الیکشن ہی اسی نعرے پر جیتے تھے کہ بھارت کو مالدیپ سے باہر نکالو۔ بنگلہ دیش کی موجودہ صورتحال میں بدترین الزام بھارتی ایجنٹ ہونا ہے اور بھارت سے نفرت عروج پر ہے۔ پاکستان کو دیکھ لیجیے۔ سیاسی خلفشار ایک طرف اور معاشی ابتری دوسری طرف۔ یہ دونوں ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں لیکن کیا کوئی ایک شخص بھی یہ کہنے کی پوزیشن میں ہے کہ حالات بہتری کی طرف جا رہے ہیں؟ سیاست کا اونٹ کسی کروٹ نہیں بیٹھ رہا اور طبقاتی خلیج بھی اپنے عروج پر ہے۔ دہشت گردی کی خبریں پڑھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔ کسی مقامی فرد کو کل کا کوئی بھروسہ نہیں تو غیر ملکی کمپنیاں کیوں آئیں گی؟ پاکستان اس بند سرنگ سے گزر رہا ہے جہاں روشنی نظر آتی ہی نہیں۔ بنگلہ دیش میں جو کچھ ہوا‘ وہ عوام میں حد درجہ بے چینی کے سوا کیا ہے؟ مہنگائی اور بیروزگاری عروج پر ہے۔ ایسے میں اگلا الیکشن کیا رنگ دکھاتا ہے۔ بظاہرعوامی لیگ کی ایک طویل مدت کیلئے چھٹی ہو گئی ہے لیکن کیا اگلی حکومت عوام کا اضطراب دور کر سکے گی؟ سری لنکا کے عوامی مظاہرے ابھی کل کی بات ہیں۔ وہ بھی معاشی گرداب میں پھنسا ہوا ہے۔ سیاسی طور پر وہاں بھی کوئی پیش گوئی نہیں کی جا سکتی۔ یہی حال مالدیپ کا ہے اور نیپال‘ بھوٹان اور میانمار کا بھی۔ میانمار میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام ایک رِستا زخم ہے۔ غرض جنوبی ایشیا میں آپ جس ملک کو بھی دیکھیں‘ وہاں خلفشار اور بے چینی نظر آئے گی۔ سب تکلیف میں ہیں‘ سب غریب ہیں‘ سب بڑی طاقتوں کی طرف دیکھتے ہیں‘ لیکن خود مل کر جنوبی ایشیا کو ایک بڑی طاقت بنانے کے لیے تیار نہیں۔ ہمسائے سے تعلقات بہتر بنانے پر رضامند نہیں۔ چند ملکوں کے باہمی تعاون کو الگ رکھ دیں تو خطے کا ہر ملک ایک دوسرے سے منہ موڑے بیٹھا ہے۔ یہ لوگ عربوں‘ امریکیوں‘ یورپیوں کے کام آ سکتے ہیں مگر ایک دوسرے کے کام نہیں آ سکتے۔ ایک دوسرے سے صرف نفرت اور جنگ کی جا سکتی ہے۔
میں جی سی سی ممالک‘ یورپی یونین اور باہمی معاہدوں سے مغربی ملکوں کی ترقی دیکھتا ہوں تو دل خون کے آنسو روتا ہے۔ ان ممالک میں بھی باہمی اختلافات تھے‘ لیکن مشترکہ فائدوں کی فکر سب پر غالب آ گئی۔ یورپی یونین نے تو کرنسی بھی مشترکہ کر لی۔ جنوبی ایشیا میں ''سارک‘‘ بنی تھی۔ پھر کیا بنا اس کا؟ کوئی ایک فیصلہ ایسا ہوا کہ جس کا فائدہ اس خطے کے عام آدمی کو ہوا ہو؟ اب تو سارک کا اجلاس تک سننے میں نہیں آتا۔ بنیادی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ بھارت کو علاقے کا چودھری بننے کا شوق ہے اور چھوٹے ملک یہ درجہ دینے پر تیار نہیں ہیں۔ بنگلہ دیش میں صورتحال بدلی ہے تو ایک خیال دل میں آ رہا ہے۔کیا بھارت کے علاوہ باقی ملک ایک دوسرے سے نہیں جڑ سکتے؟ اگر ایک ملک طاقت کے نشے میں ہے تو اسے رہنے دیں‘ ایک نئی تنظیم بنالیں جو باقی ہم خیال ممالک پر مشتمل ہو۔ کیا جنوبی ایشیا کو ترقی کی ضرورت نہیں؟ کیا دو ارب انسان بے پناہ وسائل کے باوجود بھیک مانگتے رہیں گے؟ اے ذہین ترین! اے غریب ترین انسانو! میں تم سے مخاطب ہوں۔
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved