تحریر : علامہ ابتسام الہٰی ظہیر تاریخ اشاعت     02-09-2024

دورۂ کراچی

کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر ہے۔ اس کو روشنیوں کا شہر بھی کہا جاتا ہے اس لیے کہ شہر کی روشنیوں کے ساتھ رات کا اندھیرا بھی جگمگا اٹھتا ہے۔ بیرون ملک اور اندرونِ ملک سے لوگ یہاں پر معاش کیلئے آتے ہیں اور لوگوں کی بڑی تعداد کا روزگار اس شہرکے ساتھ وابستہ ہے۔ کراچی میں سیاسی اور مذہبی سرگرمیاں بھی عروج پر نظر آتی ہیں اور یہاں ہر مزاج کے لوگ بکثرت پائے جاتے ہیں۔ مجھے بھی وقفے وقفے سے کراچی جانے کا موقع ملتا رہتا ہے اور یہاں کے لوگوں کا ذوق اور شوق دیکھ کر یہ بات محسوس ہوتی ہے کہ یہاں پر علم اور خطابت سے دلچسپی رکھنے والے لوگوں کی کثیر تعداد موجود ہے۔ حالیہ دنوں کراچی میں تین اہم پروگراموں کا انعقاد کیا گیا جن میں مجھے بھی شرکت کا موقع ملا۔ علماء کمیٹی کراچی نے شاہراہِ قائدین پر ختم نبوت اور ناموس صحابہؓ و اہلِ بیتؓ کے حوالے سے ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کیا۔ اس پروگرام میں دینی جماعتوں کے قائدین خصوصاً مولانا احمد لدھیانوی‘ مولا نا اورنگزیب فاروقی اور دیگر بہت سے علما کو سننے کیلئے لوگ بڑے ذوق اور شوق سے شریک ہوئے۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا انہیں کچھ کمی بیشی کے ساتھ قارئین کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں:
اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید کو نبی کریمﷺ کے قلبِ اطہر پہ نازل کیا اور اس کے نزول کے بعد جہاں مسلمانوں کو اس کتاب کی اتباع کا پابند بنایا وہیں نبی کریمﷺ کے اسوہ کو بھی رہتی دنیا تک کے مسلمانوں کیلئے اسوۂ کامل بنا دیا۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے قرآنِ مجید میں جتنی بھی عبادات کا ذکر کیا‘ ان کی تفصیل کیلئے ہمیں سنت نبوی شریف کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ نبی کریمﷺ کی حرمت ہر مسلمان کو اپنی جان سے زیادہ عزیز ہے۔ کتاب وسنت کے مطالعے سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ نبی کریمﷺ کی اہانت کا ارتکاب کرنے والا انتہائی سزاکا حقدار ہے۔ پاکستان میں 295C کا قانون حرمتِ رسول اللہﷺ کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ اسی طرح قرآنِ مجید‘ احادیث متواترہ اور اجماعِ امت سے یہ بات ثابت ہے کہ نبی کریمﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آ سکتا اور جو شخص اس قسم کا عقیدہ رکھتا ہو‘ وہ دائرہِ اسلام سے خارج ہے۔ علماء کرام نے اس عقیدے کو قانونی شکل دینے کیلئے لمبے عرصے تک جدوجہد کی اور بالآخر 7 ستمبر 1974ء کو پاکستان کی قومی اسمبلی نے یہ فیصلہ سنایا کہ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت پر یقین نہ رکھنے والے تمام لوگ دائرہِ اسلام سے خارج ہیں۔ نبی کریمﷺ کی سیرت اور آپﷺ کے اسوہ کی توضیح کیلئے ہمیں احادیث کی کتب سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ صحابہ کرامؓ اور اہلِ بیت عظامؓ نے نبی کریمﷺ کی سیرت کو جس انداز سے دیکھا‘ اس کو اسی انداز میں آگے منتقل کر دیا۔ اہلِ بیت عظامؓ اور صحابہ کرامؓ کی عدالت وصداقت ایک قطعی حقیقت ہے اور ان پر اعتماد کرنا ہر مسلمان کیلئے یوں بھی ضروری ہے کہ انہی کی وجہ سے ہم نبی کریمﷺ کے اقوال اور اعمال کو پہچاننے کے قابل ہوئے۔ بعض لوگ صحابہ کرامؓ کی ناموس کا صحیح طریقے سے پاس نہیں کرتے اور ان کی تنقیص کرتے ہیں۔ یہ اس بات کو بھول جاتے ہیں کہ کسی عام مسلمان کو گالی دینا بھی گناہ ہے کجا یہ کہ اصحابِ رسول کی تنقیص کی جائے۔ صحابہ کرامؓ خیر البریہ اور امت کے بہترین لوگ ہیں اور ان کی شان میں کمی اور کوتاہی کرنا کسی بھی طور درست نہیں ہے۔ اس بات کو قانونی شکل دینے کیلئے ایک عرصے سے ناموسِ صحابہؓ بل پر کام کیا جا رہا ہے۔ پہلے یہ بل صوبائی اسمبلی سے منظور ہوا اور بعد ازاں قومی اسمبلی اور سینیٹ سے بھی اس کو منظور کرا لیا گیا لیکن افسوس کہ صدرِ مملکت کے دستخط نہ ہونے کی وجہ سے یہ باقاعدہ قانون نہیں بن سکا۔ اس مسئلے کو قانونی شکل دینے کیلئے مزید توجہ اور محنت کی ضرورت ہے۔ امید ہے کہ تمام مکاتبِ فکرکے اتفاق کی وجہ سے جلد ناموسِ صحابہؓ بل ملک میں ایک قانون کی شکل اختیار کر جائے گا اور وہ لوگ جو اس حوالے سے بداحتیاطی کا مظاہرہ کرتے ہیں‘ انہیں اپنی غفلت‘ کوتاہی اوردریدہ دہنی پر قانون کا سامنا کرنا پڑے گا۔
26 اگست کو مرکزی اسلامیہ مسجد نیو کراچی میں ختم نبوت کے عنوان پر قرآن وسنہ موومنٹ کے دوست احباب نے ایک بڑے پروگرام کا انعقاد کیا اور وہاں مسئلہ ختم نبوت کے حوالے سے گفتگو کی گئی کہ اللہ تبارک وتعالیٰ نے دین کو نبی کریمﷺ کی حیاتِ مبارکہ ہی میں مکمل کر دیا اور آپﷺ کو جمیع انسانیت کیلئے نبی بنایا۔ نبی کریمﷺ کی ختم نبوت‘ کتاب وسنت اور اجماعِ امت سے بالکل واضح ہے۔ 1974ء میں ہونے والے فیصلے کے بعد اس کو مزید واضح کرنے کے لیے 80ء کے عشرے میں امتناعِ قادیانیت آرڈیننس جاری کیا گیا جس کے بعد شعائرِ دین اور اسلامی اصطلاحات کے استعمال کو بھی ان گروہوں کیلئے ممنوع قرار دیا گیا جو ختم نبوت کو تسلیم نہیں کرتے۔ حالیہ ایام میں سپریم کورٹ کے ایک فیصلے پر تنازع کی کیفیت پیدا ہوئی تاہم سپریم کورٹ نے اپنے فیصلے پر نظر ثانی کی اور جو ابہام پایا جاتا تھا‘ اب اس کا ازالہ ہو گیا ہے۔ اب قادیانیوں کیلئے نہ تو اپنے لٹریچر کو اسلام سے منسوب کرنے کی کوئی گنجائش رہی ہے اور نہ ہی دعوتی سر گرمیوں کوجاری رکھنے کی کوئی صورت باقی بچی ہے۔ 22 اگست کا دن اس اعتبار سے خصوصی اہمیت کا حامل ہے کہ 1974ء میں ہونے والے فیصلے اور 80ء کی دہائی کے امتناعِ قادیانیت آرڈیننس کی ایک مرتبہ پھر توثیق ہو گئی ہے۔
27 اگست کو مغرب کی نماز کے بعد آرٹس کونسل کراچی میں مسلم طلبہ محاذ نے 'سیو فلسطین یوتھ کانفرنس‘ کا انعقاد کیا جس سے سابق سینیٹر مشتاق احمد خان‘ شجاع الدین شیخ‘ ارسلان کیانی‘ سعد نذیر اور ڈاکٹر فوزیہ صدیقی سمیت دیگر ممتاز لوگوں نے خطاب کیا۔ کانفرنس سے ممتاز عالم دین مفتی تقی عثمانی نے ٹیلیفونک خطاب کیا اور مسلم حکمرانوں سے اس بات کا مطالبہ کیا کہ اس مسئلے میں ذمہ دارانہ کردار ادا کریں۔ اس موقع پر میں نے جن گزارشات کو سامعین کے سامنے رکھا‘ ان کا خلاصہ یہ ہے:
بیت المقدس کا علاقہ حرمین شریفین کے بعد مسلمانوں کیلئے سب سے زیادہ اہمیت کا حامل ہے۔ اللہ تبارک وتعالیٰ نے معراج کی رات نبی کریمﷺ کو جب آسمانوں کی سیر کرائی تو ان کی اقتداء میں صحنِ بیت المقدس میں جمیع انبیاء کرام علیہم السلام کی امامت سے نبی کریمﷺ کو نبی القبلتین کے شرف سے بھی بہرہ ور فرما دیا۔ فلسطین پر حضرت فاروق اعظمؓ کے دور میں مسلمانوں کو غلبہ حاصل ہوا اور کئی صدیوں تک یہ غلبہ برقرار رہا۔ بعد ازاں مسیحی بیت المقدس پر قابض ہوئے لیکن صلیبی جنگوں میں صلاح الدین ایوبیؒ نے ان کو پسپا کر دیا اور ایک مرتبہ پھر مسلمانوں کو وہاں تمکن نصیب ہوا۔ انیسویں صدی کے آخر میں دنیا بھر سے یہودیوں نے بڑی تعداد میں فلسطین کے علاقے میں مائیگریشن کی اور 1948ء میں اپنی ریاست کے قیام کا اعلان کر دیا۔ 1960ء کی دہائی میں عرب اسرائیل تنازعات نے زور پکڑا اور یہودی زبردستی اپنی ریاست کی توسیع میں کامیاب ہو گئے۔ حماس‘ پی ایل او اور دیگر تنظیموں نے اسرائیلی جارحیت کے خلاف مزاحمت کی لیکن اسرائیلی ظلم کے نتیجے میں ہزاروں مرد‘ عورتیں‘ جوان‘ بوڑھے اور بچے بڑی بے رحمی سے شہید کر دیے گئے۔ فلسطینیوں کے ساتھ ہماری دہری نسبت ہے۔ انسانیت اور اسلام کی نسبت سے ہمیں ان کے ساتھ گہری وابستگی اختیار کرنی چاہیے اور اس حوالے سے عالم عرب کے ساتھ ساتھ پاکستان پر خصوصی ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ مسئلہ فلسطین کے حل کیلئے بھرپور اخلاقی وسفارتی جدوجہد کرے۔ اسی طرح پاکستان کے مقتدر اداروں کو بھی اسرائیل کو یہ پیغام دینے کی ضرورت ہے کہ مظلوم مسلمانوں پہ ہونے والے ظلم کو کسی بھی طور برداشت نہیں کیا جا سکتا۔
اس موقع پر سامعین نے بڑی توجہ کے ساتھ مقررین کے خطابات کو سنا‘ اور یہ پروگرام اپنے جلو میں بہت سی یادوں کو لیے اختتام پذیر ہوا۔

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved