یہ ایک بہت بڑی‘ عظیم الجثہ‘ دیو پیکر‘ عفریت نما عمارت تھی۔ اس کے اندر کئی ہوائی جہاز کھڑے تھے۔ بڑے بڑے جنگی ہوائی جہاز! ( ایسی عمارت جس کے اندر ہوائی جہاز پارک کیے جائیں‘ ہینگر کہلاتی ہے ) ہمارے چینی میزبان تفصیلات بتا رہے تھے۔ ہم حیرت سے گُنگ ہوئے جا رہے تھے۔مگر اصل حیرت کا پہاڑ ابھی ٹوٹنے والا تھا۔ ہم میں سے ایک نے پوچھا یہ عمارت کتنے عرصے میں مکمل ہوئی۔ جواب ملا: پورے ایک سال میں! اس سے ایک دن زیادہ نہ کم! یہاں تو پانچ سو گز ( یعنی جعلی ایک کنال) کا گھر ڈیڑھ سال میں بن جائے تو آدمی خوشی سے ہوا میں اُڑنے لگتا ہے ( جعلی کنال اس لیے کہا ہے کہ اصل کنال بیس مرلوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ اب پانچ سو گز یعنی تقریباً سترہ مرلوں کو ایک کنال کہا جانے لگا ہے)۔ ہم نے میزبانوں سے پوچھا کہ مقررہ مدت میں نہ بنے تو؟ اس پر انہوں نے کہا کہ مقررہ مدت میں مکمل نہ ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ جو تاریخ طے ہوتی ہے اس سے آگے پیچھے ہونے کا امکان صفر سے بھی کم ہے۔ اس یقین کی پشت پر سزا کا وہ تصور کار فرما ہے جو چین میں رائج ہے۔ معافی یا سفارش کے ذریعے بچ جانے کا کوئی سلسلہ نہیں!
یہ واقعہ یوں یاد آیا کہ کل کے اخبارات میں وفاقی دارالحکومت کی سب سے بڑی اور سب سے زیادہ بد بخت شاہراہ ''ایکسپریس وے‘‘ کا ذکر ہے اور یہ ذکر‘ ذکرِ خیر نہیں۔ ایک بار پھر مقررہ تاریخ ( ڈیڈ لائن) گزر گئی اور شاہراہ مکمل نہیں ہوئی۔ یہ ڈیڈ لائن چودہ اگست تھی اور یہ پہلی ڈیڈ لائن نہیں تھی۔ اُن تاریخوں کا ایک لمبا سلسلہ ہے جو دی گئیں اور ہر بار بتایا گیا کہ اس تاریخ تک سڑک مکمل ہو جائے گی۔ سڑک مکمل نہ ہوئی۔ کئی بار نئی تاریخ دی گئی اور یہ سلسلہ جاری ہے۔ نہ جانے کب تک جاری رہے گا۔
یہ بتانے کی ضرورت نہیں کہ یہ شاہراہ اسلام آباد کی شہ رگ ہے۔ ہر روز جہلم‘ چکوال‘ دینہ‘ منگلا‘گوجر خان اور سینکڑوں دیگر بستیوں سے لاکھوں لوگ ایکسپریس وے سے وفاقی دارالحکومت آتے ہیں اور واپس جاتے ہیں۔ خود اس شاہراہ کے کناروں پر درجنوں آبادیاں ہیں جو اسلام آباد کا حصہ ہیں۔ان کے مکین اسی شاہراہ کے ذریعے دفتروں‘ بازاروں‘ سفارت خانوں اور تعلیمی اداروں میں پہنچتے ہیں۔ کئی برسوں سے یہ شاہراہ زیر تعمیر ہے۔ اس پر سفر کرنے والے بے پناہ اذیت سے گزر رہے ہیں۔ بچے‘ عورتیں‘ بوڑھے گھنٹوں ٹریفک میں پھنسے رہتے ہیں۔آپ اندازہ لگائیے جن حکومتوں سے چند کلو میٹر کی شاہراہ نہیں بن رہی‘ وہ دیگر بڑے بڑے کام کیا کریں گی! اگر کسی نے موجودہ پاکستان کی حالت کو بیان کرنا ہو تو صرف اس شاہراہ کی حالت دکھا دے اور یہ بھی بتا دے کہ کتنے برسوں سے عوام کے ساتھ یہ ذلت آمیز سلوک کیا جا رہا ہے!
اس صورت حال کا سبب کیا ہے ؟ ہمارے نزدیک تین سبب ہیں۔ پہلا سبب یہ ہے کہ جو افراد تاخیر کے ذمہ دار ہیں انہیں سزا نہیں دی جاتی! محاسبے کا کوئی نظام وجود نہیں رکھتا۔ جس ادارے نے فنڈز فراہم کرنے تھے کیا اس کی طرف سے تاخیر ہوئی؟ کیا میٹر یل فراہم کرنے میں تاخیر ہوئی؟ کیا انجینئر کا قصور تھا ؟ یا ٹھیکیدار کا؟ جب کسی قصوروار کو سزا نہیں ملے گی تو منصوبہ وقت پر کیونکر مکمل ہو گا؟ چین نے چند دہائیوں میں فلک بوس عمارتوں‘ طویل شاہراہوں‘ ریلوے لائنوں‘ اوور ہیڈ پلوں اور دیگر تعمیراتی منصوبوں کو کم سے کم وقت میں مکمل کرنے کا جو ریکارڈ قائم کیا ہے اس کی پشت پر سزاؤں کا نفاذ ہے۔ یہ سزائیں جیل میں بھیجنے کے علاوہ موت کے گھاٹ اتارنے کی بھی ہو سکتی ہیں۔ ہے کوئی ہماری نام نہاد پارلیمنٹ میں پوچھنے والا کہ کتنی بار مقررہ تاریخ کو جوتے کی نوک پر رکھا گیا اور یہ کہ ذمہ داروں کے نام کیا ہیں؟ قیامت تو آسکتی ہے مگر ذمہ داروں کو سزا نہیں مل سکتی! یوں بھی پارلیمنٹ میں تشریف فرما اراکین کو کیا پڑی ہے کہ اس قبیل کے عوامی مسائل کا پوچھیں! اور بھی غم ہیں زمانے میں محبت کے سوا!
دوسرا سبب ہے متعلقہ اداروں کے سربراہوں کا رویہ اور مائنڈ سیٹ! ہمارے ہاں سرکاری ملازم اپنے آپ کو ملازم نہیں‘ افسر سمجھتا ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے وفاقی ترقیاتی ادارے کا سربراہ زیر تعمیر ( یا زیر اذیت ) ایکسپریس وے کو ایک مہینے میں کتنی بار ذاتی طور پر آکر دیکھتا ہو گا ؟ ہمارے ناقص اندازے کے مطابق ایک بار بھی نہیں! اگر اس اندازے کو ثبوت کے ساتھ غلط ثابت کیا جاتا ہے تو ہم اپنی غلطی تسلیم کرنے میں ایک ثانیے کا توقف بھی نہیں کریں گے! جب تک افسری کا خمار نوکر شاہی کے سر سے جاتا نہیں اور جب تک سربراہ کو یقین نہیں دلایا جاتا کہ وہ منصوبے کی عدم تکمیل کا ذاتی طور پر ذمہ دار اور جوابدہ ہو گا تب تک منصوبے اسی طرح لٹکتے رہیں گے!
تیسرا سبب یہ ہے کہ نوکر شاہی عوام سے مکمل طور پر لا تعلق ہے۔ یہ حضرات عوام سے ملتے ہیں نہ ان کی درخواستوں‘ شکایتوں اور رابطوں کا جواب دیتے ہیں نہ فون پر ہی بات کرنے کو تیار ہیں!! اداروں کے سربراہ رسائی سے مکمل طور پر باہر ہیں۔ سی ڈی اے کے موجودہ سربراہ جب سریر آرائے منصب ہوئے تو اس کالم نگار نے انہی صفحات کی وساطت سے ان کی توجہ چند اہم مسائل کی طرف مبذول کرانے کی کوشش کی۔ آپ کا کیا خیال ہے ان کی طرف سے کوئی جواب‘ کوئی رسید‘ کوئی ردِ عمل آیا ہو گا ؟ نہیں! وہ مسائل بھی شہر میں جوں کے توں ہیں۔ اس لیے کہ بیورو کریٹ یہاں عوام سے مکمل طور پر کٹا ہوا ہے۔ اس کا رابطہ اوپر ہے۔ نیچے کی طرف جانے والی کسی لائن کا وجود ہی نہیں۔ حالانکہ یہ عوام ہیں جن کا مقام اور سٹیٹس نیچے کے بجائے اوپر ہے اور اوپر ہونا چاہیے! اس کے مقابلے میں عزت دار‘ ترقی یافتہ ملکوں میں کیا ہوتا ہے؟ میرا آسٹریلیوی صحافی دوست چند روز پہلے بتا رہا تھا کہ اس نے اخبار میں ایک چھوٹا سا پیس‘ شذرہ‘ ایک مسئلے کے ضمن میں لکھا۔ ٹھیک تین دن کے بعد اسے صوبے کے سربراہ (Premier) کے دفتر سے ای میل موصول ہوئی جس میں شکریہ ادا کیا گیا اور بتایا گیا کہ ایکشن لیا جا رہا ہے۔
اگر سالہا سال کے بعد بھی ہم سے چند کلو میٹر لمبی شاہراہ کی تعمیر و توسیع مکمل نہیں ہو رہی تو ہم نے اور کیا تیر مارنے ہیں۔ اسلام آباد کا ایئر پورٹ بننے میں دس سال سے زیادہ کا عرصہ لگا اور یہ ایئر پورٹ‘ بنکاک‘ سنگاپور‘ کوالا لمپور‘ دبئی اور قطر کے ایئر پورٹوں کے سامنے ایسا ہی ہے جیسے مرزا غالب کے سامنے استاد امام دین گجراتی! لکھنؤ میں ایک نواب صاحب کے ہاں دعوت تھی۔ معلوم ہوا دہی نہیں پیش کیا گیا۔ انہوں نے ملازم کو حکم دیا کہ جا کر دکان سے لے آئے۔ جیسے ہی ملازم کمرے سے نکلا‘ نواب صاحب نے کمنٹری شروع کر دی۔''اب ملازم نے جوتے پہنے ہیں۔اب وہ دالان میں پہنچا ہے۔ اب وہ صدر دروازے سے نکلا ہے۔ اب گلی کے نکڑ پر ہے۔ اب دکان سے دہی لے رہا ہے۔ اب واپس چل پڑا ہے۔ اب حویلی میں داخل ہوا ہے۔ اب جوتے اتار رہا ہے۔ لیجیے آ گیا‘‘۔ اور ساتھ ہی ملازم دہی لیے کمرے میں داخل ہو گیا۔ وہاں ایک سردار صاحب بھی تھے۔ واپس آکر انہوں نے بھی دعوت کی۔ ملازم کو اسی طرح دہی لینے بھیجا۔ ساتھ ہی کمنٹری شروع کر دی۔ جب آخر میں کہا کہ یہ لیجیے ملازم دہی لیے آن پہنچا تو ملازم کا نام و نشان نہیں تھا۔ پوچھا تو اس نے باہر سے جواب دیا حضور میں تو ابھی جوتے تلاش کر رہا ہوں۔
ہم پون صدی سے جوتے ہی تلاش کر رہے ہیں!
Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved