تحریر : اوریا مقبول جان تاریخ اشاعت     30-10-2013

دلیل کی موت

گزشتہ بیس برس دنیا بھر میں میڈیا کے عروج کے سال رہے ہیں۔ الفاظ‘ قلم کاغذ کی دنیا سے نکل کر خوبصورت اور رنگا رنگ کمپیوٹر سکرین پر جلوہ گر ہوئے اور مجالس کی بحث ٹیلی ویژن کے جگمگاتے ماحول میں جاپہنچی۔ پہلے مکانوں کی چھتوں پر بڑے بڑے ڈش انٹینا لگے، آسمان سے باتیں کرتے سیٹیلائٹ لوگوں تک دنیا بھر میں ہونے والے واقعات کی لمحہ بہ لمحہ خبریں پہنچانے لگے۔ موبائل فون نے عام آدمی کو رابطے کے تخت پر بٹھا دیا۔ ریڑھی پر پھل بیچنے والا اور امریکی صدر پوری دنیا میں رابطے کی طاقت میں یکساں ہوگئے۔ ہر چند ماہ بعد اس چھوٹے سے طلسماتی آلے میں ترقی ہونے لگی۔ پہلے یہ صرف آواز سننے تک محدود تھا‘ پھر تحریر کی صورت میں بات پہنچائی جانے لگی۔ تصویر آگئی، فلم آگئی اور اب تو پورا کمپیوٹر سمٹ کر موبائل فون میں سما گیا ہے۔ سکائپ اور دوسرے پروگراموں کے ذریعے آپ ہزاروں میل دور بیٹھے شخص کو گھر کے لائونج میں لا بٹھاتے ہیں اور گفتگو کرنے لگتے ہیں۔ کمپیوٹر انٹرنیٹ‘ موبائل اور ٹیلی ویژن… اب یہ تینوں ہر خاندان کے تین جیتے جاگتے ارکان ہیں۔ یہ چوبیس گھنٹے جاگتے ہیں۔ رات کو سوتے ہوئے بھی آپ کے موبائل پر کوئی خبر، اطلاع یا لطیفہ آسکتا ہے۔ آپ گہری نیند میں ہوتے ہیں لیکن ٹیلی ویژن ایک زندہ فیملی ممبر کی طرح بولے چلے جا رہا ہوتا ہے۔ کمپیوٹر بند ہو تب بھی اس کے ای میل، فیس بک اور ٹوئٹر آپ کے لیے پیغامات جمع کر رہے ہوتے ہیں۔ یہ سب کچھ اس تیزی سے ہو رہا ہوتا ہے کہ کسی کو اس بات کی تہہ تک پہنچنے کا وقت ہی نہیں مل پاتا کہ کیا سچ ہے اور کیا جھوٹ۔ ایک طوفان ہے کہ امڈا چلا آ رہا ہے۔ جس کا ذرائع ابلاغ پر قبضہ مستحکم ہوتا ہے اس کی بات زیادہ زور سے پھیل رہی ہوتی ہے۔ ذرائع ابلاغ نے ہمارے معاشرے میں دو ایسے رویے پیدا کر دیے ہیں جن کی وجہ سے پورا معاشرہ دلیل سے عاری اور ہیجان کا شکار ہو چکا ہے۔ پہلا رویہ انٹرنیٹ پر موجود افراد میں پیدا ہوا کہ کمپیوٹر پر بیٹھا شخص جس کو چاہے اور جس وقت چاہے گالی دے سکتا ہے، الزام تراشی کر سکتا ہے اور اس کے خلاف جھوٹی معلومات لوگوں تک پہنچا سکتا ہے۔ عام زندگی میں ایک دوسرے کے سامنے موجود ہوں تو آپ سو طرح کے آداب ملحوظ رکھتے ہیں۔ آپ کبھی غصہ پی جاتے ہیں ، کبھی کسی کی عمر کا احترام کر جاتے ہیں، کبھی عورت ہونے کی وجہ سے اسے کچھ نہیں کہتے‘ لیکن انٹرنیٹ وہ دنیا ہے کہ جس کے منہ میں جو آئے کہہ دیتا اور اپنے اندر کی ساری گندگی اور غلاظت اس پر بکھیر دیتا ہے۔ اسے نہ تو اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ جو جھوٹ وہ بول رہا ہے، جس طرح کی زبان استعمال کر رہا ہے‘ اسے اس (مرد یا عورت) کے قریبی رشتے دار، عزیز و اقارب یا اس سے محبت کرنے والے بھی پڑھ رہے ہوں گے۔ کمپیوٹر کی وجہ سے یہاں ایک ایسا غیر مرئی قسم کا ماحول پیدا ہو چکا ہے جس میں انسانوں کی حیثیت بالکل ایک دیوار، ریت کی بوری یا نشانہ بننے والے ٹارگٹ کی سی ہو کر رہ گئی ہے، جس پر ہر کوئی اپنا غصہ نکالتا ہے۔ نفرت کی آ ندھی اور محبت کی ہوا دونوں اس زور سے ان پر چلتی ہیں کہ کچھ سجھائی نہیں دتیا۔ حیرت ہے کہ اس طوفان کو سوشل میڈیا کا نام دیا جاتا ہے۔ سوشل کا لفظی ترجمہ ہے لوگوں کا آپس میں میل جول ، لیکن یہاں تو کوئی کسی کو جانتا تک نہیں ہوتا۔ ہوسکتا ہے ہزار دو ہزار لوگ جس شخصیت کے ٹوئٹر یا فیس بک اکائونٹ پر اسے محبت یا غصے سے نواز رہے ہوں، وہ اکائونٹ کوئی گمنام شخص اس کی جگہ پرچلا رہا ہو۔ دوسرا معاملہ سو کے قریب ٹیلی ویژن چینلوں کا ہے۔ ان میں سے25 کے لگ بھگ خبر سے متعلق ہیں اور باقی دوسرے موضوعات کے حوالے سے چوبیس گھنٹے ہر گھر میں ہنگامہ برپا کیے ہوئے ہیں۔ ان تمام چینلوں میں آنے والے ’’عظیم‘‘ سیاستدان، دانشور، اداکار اور دوسری بڑی بڑی شخصیات جب کیمروں کے سامنے آکر بیٹھتی ہیں تو انہیں اس بات کا بخوبی ادراک ہوتا ہے کہ انہیں اٹھارہ کروڑ عوام کی اکثریت دیکھ رہی ہے۔ اتنا بڑا ہجوم تو زندگی میں کسی بڑے سے بڑے لیڈر کو بھی میسر نہیں آیا ہوتا۔ یہیں سے کردار کی منافقت کا آغاز ہوتا ہے۔ جو پار سا نظر آنا چاہتا ہے وہ ایسی گفتگو کرتا ہے جیسے گناہ اسے چھو کر بھی نہیں گزرا‘ جسے ایمانداری کا زعم ہوتا ہے اس کے دعوے اس قدر بلند ہوجاتے ہیں کہ اس سرزمین پر اس سے زیادہ ایماندار کوئی دوسرا شخص نہیں۔ یہ تو ذاتی حوالوں سے ریا، جھوٹ اور منافقت کا رویہ ہے، لیکن سب سے زیادہ معرکہ آرائی س وقت ہوتی ہے جب دو گروہوں میں مختلف نظریات رکھنے والوں میں اور دو مذہبی یا سیاسی پارٹیوں کے افراد میں بحث شروع ہوتی ہے۔ اب میدان سجتا ہے۔ اب منہ سے جھاگ نکلتی ہے، آنکھیں سرخ ہو جاتی ہیں، غصے سے آواز اس قدر بلند ہو جاتی ہے کہ الامان و الحفیظ۔ ایسا لگتا ہے کہ ان میں سے ہر ایک اکھاڑے میں اتر آیا ہو اور اب دائو پیچ سے اپنے مدِمقابل کو چت کرنا ہو۔ سیاسی لوگ تو خیر اس کے عادی ہوتے ہیں کہ وہ بغیر دلیل کے اپنی پارٹی یا اپنے لیڈر کے حق میں بولتے ہیں لیکن دانشوروں اور پڑھے لکھے لوگوں سے تو مختلف رویے کی توقع کی جاتی ہے۔ انہیں تو علم نے دلیل کے ساتھ گفتگو کرنا اور دلیل کے ساتھ گفتگو سننا سکھایا ہوتا ہے۔ لیکن کمال دیکھئے میڈیا کے اس میدان جنگ کا کہ کیمرے آن ہوتے ہی مہذب ترینِ دانشور بھی شور اور ہنگامے پر اُتر آتے ہیں۔ ہر ایک کے منہ سے جھاگ نکل رہی ہوتی ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہوتی ہے کہ ان میں سے کئی ایک اعلیٰ یونیورسٹیوں میں پڑھا تے ہیں، بڑے بڑے اخبارات میں کالم لکھتے ہیں، شستہ اردو اور انگریزی بولتے اور لکھتے ہیں۔ لیکن شاید ہی کوئی ایسا ہو جو میڈیا کے کیمروں کے سامنے سچ بولے‘ اس لیے کہ سچ بولنے میں ان کے نظریے کی شکست ہوتی ہے۔ جو طالبان کی حمایت کرتا ہے، اسے ان میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور جو ملالہ کے حامی ہیں وہ انہیں دنیا کی مافوق الفطرت صلاحیتوں کی حامل بچی نظر آتی ہے۔ یہ سب وہ لوگ ہیں جن کی تحریروں کو اس وقت یہ قوم اپنی آخری امید سمجھ رہی ہے‘ لیکن یہ دانشور کالم بھی تحریر کریں تو دلیل کی بجائے کشتی اور دنگل کے موڈ میں ہوتے ہیں اور ٹیلی ویژن پر بھی آئیں تو پہلوان ہی لگتے ہیں۔ کسی قوم کی اس سے زیادہ بدقسمتی اور کیا ہو سکتی ہے کہ اس کے سب سے زیادہ پڑھے لکھے، دانشور اور قابل تقلید لوگ کالم نگار اور اینکر پرسن ہو جائیں۔ ایسے معاشروں میں دلیل اپنی موت آپ مر جاتی ہے۔ سید الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی دور کے بارے میں فرمایا تھا: ’’حضرت انس ابن مالکؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا‘ دجال کے خروج سے پہلے چند سال دھوکہ و فریب کے ہوں گے۔ سچے کو جھوٹا بنایا جائے گا اور جھوٹے کو سچا بنایا جائے گا۔ خیانت کرنے والے کو امانتدار بنا دیا جائے گا اور امانت دار کو خیانت کرنے والا قرار دیا جائے گا اور ان میں رویبضہ بات کریں گے۔ پوچھا گیا رویبضہ کون ہیں؟ فرمایا گھٹیا لوگ۔ وہ لوگوں کے معاملات میں بولا کریں گے‘‘۔ (مسنداحمد:1332، مسند ابی یعلی:3715، السنن الواردۃ فی ا لفتن)

Copyright © Dunya Group of Newspapers, All rights reserved